(تکبّر کا راستہ جہنّم کی طرف)
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے یہاں سب سے زیادہ زور اس بات پر تھا کہ ان بیماریوں میں مبتلا لوگ آتے، اور آپ ان کا علاج فرماتے، ان کا علاج بھی کوئی دوا پلا کر نہیں ہوتا تھا۔
وظیفے پڑھوا کر نہیں ہوتا تھا، بلکہ عمل سے ہوتا تھا۔
بہت سے لوگوں کا علاج اس طرح کیا گیا کہ ایک تکبّر میں مبتلا شخص آیا، بس اس کے لئے یہ علاج تجویز کیا کہ جو لوگ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آئیں ، تم ان کے جوتے سیدھے کیا کرو۔
بس اس کام پر لگا دیا، نہ کوئی وظیفہ، نہ کوئی تسبیح، نہ کوئی درد، اس کو دیکھ کر پہچان لیا کہ اس کے اندر تکبّر کی بیماری ہے۔
اور اس کا یہ علاج اس کے لئے مناسب ہوگا، اللّٰہ تعالیٰ اس بیماری سے ہمیں بچائے،آمین۔
یہ بیماری انسان کے قلب کے اندر اس طرح داخل ہوتی ہے کہ بسا اوقات اس کو پتہ بھی نہیں ہوتا، وہ تو سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں ٹھیک ٹھاک آدمی ہوں۔
لیکن حقیقت میں وہ تکبّر کی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے، اور پھر اس کا سیدھا راستہ جہنّم کی طرف جا رہا ہے۔
اور ایمان حقیقی تکبّر کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا، اس واسطے اس کے علاج کی فکر کی ضرورت ہے۔
جزاک اللّہ۔