روس نے یوکرین پر باضابطہ حملہ کر دیا ہے۔ جنگ میں جو تباہیاں ہوتی ہیں وہ ہونا شروع ہو گئی ہیں اور دنیا کے سامنے بڑے سوالات منہ کھول کر کھڑے ہو گئے ہیں۔
تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ دنیا میں دو سپر پاور ممالک رہے ہیں۔ ایک امریکہ اور دوسرا روس اور دونوں کے درمیان سرد جنگ جاری رہی ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست اور اس کے بکھراؤ کے بعد امریکہ واحد سپر پاور رہا ہے اور اس نے بہت سے معاملات میں اپنی منمانی کی ہے ۔ عراق اور افغانستان پر حملہ دنیا کو یاد ہے ۔ میرے ساتھ یا میرے خلاف کی دھمکی بھی دنیا کو یاد ہوگی لیکن ادھر دو دہائی گزرنے کے بعد صورت حال میں بڑی تبدیلی ہوئی ہے۔ امریکہ افغانستان سے نکل چکا ہے اور اب وہاں انہیں لوگوں کی حکومت ہے جنہیں ختم کرنے کے لیے امریکہ وہاں گیا تھا ۔ عالمی سطح پر اس انخلاء سے یہ پیغام ضرور گیا ہے کہ امریکی دبدبہ میں کمی آئی ہے۔ ادھر تیزی سے روس اور چین دو طاقتیں ابھری ہیں ۔ ساتھ ہی ساؤتھ افریقہ اور انڈیا جیسے ممالک بھی ہیں جو قوت کی دوڑ میں بہت پیچھے نہیں ہیں ۔
عالمی منظر نامہ بہت حد تک بدل چکا ہے۔ یوکرین کے صدر لگاتار مدد کی گہار لگا رہے ہیں لیکن جواب میں انہیں صرف تسلی مل رہی ہے۔ امریکہ اور یورپ ہنگامہ تو کررہے ہیں لیکن جنگ روکنے کے لیے باضابطہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں لگتے ۔ ویسے بھی روس کوئی کمزور ملک تو ہے نہیں۔ اقتصادی پابندی کی بات ہورہی ہے لیکن یہ سب کو پتہ ہے کہ یہ کتنی موثر ہو سکتی ہے۔ اس پورے معاملے میں تمام بڑے ممالک کا رویہ احتیاط پر مبنی لگتا ہے۔ یورپ امریکہ بلند آواز سے اور بقیہ ممالک دبے لفظوں میں مذمت کر رہے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ ان مذمتوں یا ہنگامہ سے کیا کچھ ہوتا ہے۔ یوکرین کے صدر اور عوام کو اس کا اندازہ ضرور ہوگا ۔
یورپ کے ساتھ پوری دنیا کے لیے اس میں سبق ہے۔ طاقت ایک ہی جگہ نہیں رہتی ، بدلتی بھی ہے۔ یہ احساس ابھی یورپ کو شدت سے ہو رہا ہوگا ۔ یہ حقیقت اگر بر وقت روس کو بھی سمجھ میں آ جائے تو اس کے لیے بھی اچھا ہوگا ۔ رہے وہ لوگ جو اسے صرف روس اور یوکرین کی جنگ سمجھ رہے ہیں وہ بھول رہے ہیں کہ دنیا اب گلوبل ولیج ہے ، اس جنگ کے اثرات یقینا عالمی ہوں گے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ جنگ ابھی کیا کیا ٹرن لے گی ۔ ہم آنکھیں اس لیے بھی بند نہیں کر سکتے کہ ہزاروں کی تعداد میں ہمارے طلبہ اور افراد یوکرین میں پھنسے ہوئے ہیں اور جان چاہے کسی کی بھی جائے ابن آدم کی ہی جان جائے گی ۔
عالمی برادری کو جنگ روکنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔
یہاں ایک چیز اور یاد رکھنے کی ہے کہ اصل قوت ملک کی اپنی نجی قوت ہی ہوتی ہے۔ داخلی سطح پر آپ کمزور ہیں تو بیرونی طاقتیں آپ کو تسلی ہی دے سکتی ہیں ۔ قوت کے مقابلے میں قوت ہی کام کرتی ہے ۔ اس لیے خود کو مضبوط کیجیے تبھی محفوظ رہ پائیں گے۔ دنیا سمیت عالم اسلام کو یہ سبق اب تو یاد کر ہی لینا چاہیے!!!
Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!