اس حکومت کی ہر منطق نرالی ہے۔اسے ہر وہ کام کرنے کا شوق ہے جو اس کے کرنے کا نہیں ہے۔اب یہ حکومت وہ کام بھی اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے جو ایک لڑکی کے بالغ ہونے کے بعداس کے اہل خانہ کا ہوتا ہے۔ہر بچی کے ماں باپ اس کے جوان ہونے کے بعداس کی شادی کے تئیں فکر مند ہوتے ہیں۔لیکن اب حکومت طے کرے گی کہ انہیں فکر مندی کا آغازکب کرنا ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ لڑکی جب 21سال کی ہوجائے تب اس کی شادی کی جائے۔ابھی تک عمر کی یہ قانونی حد 18سال ہے۔
حکومت نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس مفہوم کا ایک بل پیش کیا۔اس پر کئی اپوزیشن جماعتوں نے اعتراض کیا۔حکومت نے اس بل کو پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو مزید بحث ومباحثہ کیلئے بھیج دیا ہے۔اس بل کے مطابق مجوزہ قانون تمام فرقوں پر لاگو ہوگا۔عورتوں اور بچوں کی بہبود کی وزیر ا سمرتی ایرانی نے پارلیمنٹ میں بیان دیاکہ یہ قانون بنتے ہی شادی بیاہ کے موجودہ قوانین اور ’پرسنل لاز‘ کالعدم ہوجائیں گے۔
ہمیں یقینی طورپر معلوم نہیں ہے کہ حکومت نے 21سال کی عمر کی حد کا بل کچھ سائنسی‘طبی‘ سماجی اور معاشی نکات کو سامنے رکھ کر تیار کیا ہے یا اس کے پیش نظر کوئی اور سیاسی مصلحت ہے۔تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت نے یہ قدم ملک میں روز افزوں آبادی پر قابو پانے کیلئے اٹھایا ہے۔ذہن پر کوئی بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ تو بی جے پی اور اس سے وابستہ تنظیمیں ہی ہیں جو ایک عرصہ سے مسلمانوں کی آبادی کا شور مچارہی ہیں۔ 15 اکتوبر 2021 کو آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ’اکھل بھارتیہ کاریہ کاری منڈل‘ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں اور عیسائیوں کی ’روز افزوں‘ آبادی کی اپنی پرانی تشویش کا اعادہ کیاتھا۔انہوں نے کہا تھا کہ ہم اس سلسلہ میں 2015 کی اپنی قرار دادا پر قائم ہیں۔2015 میں آر ایس ایس کے اجلاس میں 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’ہندوستان کے اصل مذہب پرعمل پیرا لوگوں (ہندئوں) کی آبادی 1952سے 2011 کے دوران 88 فیصد سے 83 فیصد پر آگئی۔جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کی آبادی 9.8 فیصد سے بڑھ کر14.23 فیصد ہوگئی۔‘
آر ایس ایس کی اس قرار داد میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ شمال مشرقی ریاستوں میں مختلف مذاہب کی آبادیوں کے درمیان عدم توازن پیدا ہوگیا ہے۔’’آسام میں گھریلو مذہب کے ماننے والوں کی تعداد 2001 سے 2011 کے درمیان 81.3 فیصد سے 67 فیصد پر آگئی جبکہ صرف ایک دہائی میں عیسائیوں کی تعداد میں 13فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے‘منی پور میں ہندو 80 فیصد سے گھٹ کر 50 فیصد پر آگئے ہیں۔عیسائیوں کی یہ غیر فطری افزائش‘ مفادات حاصلہ رکھنے والے گروپوں کے ایک منظم منصوبہ اور ہدف پرعمل آوری کی طرف اشارہ کرتی ہے۔‘‘ موہن بھاگوت نے آبادیاتی توازن کیلئے مساوی بنیادوں پر پالیسی بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا تھا۔اس قرارداد میں بنگلہ دیش سے ’گھس پیٹھ‘ کرنے والوں کو بھی آسام میں آبادی میں اضافہ کا سبب قرار دیا گیا تھا۔ زیر بحث بل دراصل اسی شیطانی وسوسہ کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی مسلسل بڑھتی جارہی ہے اور ہندئوں کی آبادی گھٹتی جارہی ہے۔
حکومت اور بی جے پی کی حمایت یافتہ شرپسند تنظیمیں اسی بنیاد پر شور مچارہی ہیں کہ اگلے چند برسوں میں مسلمان ہی ہندوستان کا صدر اور وزیر اعظم بن جائے گا۔لہذا ان کا ایک پڑھا لکھا بدزبان ممبر پارلیمنٹ تجویز پیش کر رہا ہے کہ ہندو ایک طے شدہ وقت کا ہدف مقررکرلیں کہ اتنے وقت میں اتنے مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنانا ہے۔گوکہ کرناٹک کے تیجسوی سوریا نے سینئر لیڈروں کے کہنے پر یہ تجویز واپس لے لی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ بی جے پی‘ آر ایس ایس اور خود حکومت خاموشی اور آہستگی کے ساتھ عملاً وہی اقدامات کر رہی ہے جس کا جارحانہ مطالبہ اس کی شرپسند جماعتیں کر رہی ہیں۔ایک منظم منصوبہ کے تحت لفنگوں اور اوباش قسم کے لوگوں کو کچھ خاص رنگ کے کپڑے پہناکر بدزبانی کرنے کیلئے آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔پوری دنیا کو ہری دوار کی ’دھرم سنسد‘ میں کی گئی اشتعال انگیزی کا علم ہے لیکن اتراکھنڈ کے وزیر اعلی کو اس سلسلہ میں کچھ پتہ نہیں ہے۔ہمارا جمہوری نظام ایسے غافل شخص کو کیسے وزیر اعلی کے عہدے پر رہنے دیتا ہے۔
اس حکومت کے پاس اپنے فیصلوں کی کوئی معقول توجیہ نہیں ہوتی۔مثال کے طورپر اس امر کی کیا توجیہ ہے کہ 18سال کی لڑکی ووٹ دینے کی اہل ہے لیکن شادی کی نہیں۔اسی طرح سرکاری نوکری بھی 21سال کی عمرمیں ہی ملتی ہے۔کیا 18سال میں اتناشعور آجاتا ہے کہ اپنے مستقبل کو سامنے رکھ کر لڑکی کسی پارٹی کو ووٹ دے؟ ووٹ دینے کے عمل پر ملک کے بھی مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ملک کا مستقبل تو آپ 18سال کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں دے سکتے ہیں لیکن خود ان کی زندگی کا مستقبل انہیں دینے کو تیار نہیں۔ہاں جرائم کے زمرہ میں18سال کی لڑکی کو بالغ مانا جائے گا۔ عصمت دری کاملزم اگر لڑکا ہوگا تو اس سے بھی کم عمر (16) کو بالغ مانا جائے گا۔پہلے یہ حد 18 تھی لیکن دہلی میں 16دسمبر 2012 کو ایک بدنصیب (نربھیا) کی وحشیانہ عصمت ریزی کے واقعہ کے بعد یہ حد 16کردی گئی تھی۔اس واقعہ میں 18سال سے کم عمر کے ایک شیطان نے سب سے زیادہ خوفناک کردار ادا کیا تھا اور وہ قرار واقعی سزا سے بچ گیا تھا۔ ابھی تفصیلات نہیں آئی ہیں لیکن جب یہ بل قانون بن جائے گا تو21 سال سے کم عمر کی لڑکی کی شادی قابل تعزیر جرم بن جائے گی۔
سابق سرکاری افسر رگھوتم شکلا نے لکھا ہے کہ شادی کے وقت سیتاجی کی عمر نو سال تھی۔1929میں فرنگیوں کی حکومت نے شاردا ایکٹ نامی ایک قانون بناکر لڑکی کی شادی کی عمر 14سال اور لڑکے کی عمر کی حد18سال کردی تھی۔انگریز حکومت نے یہ قانون اس لئے بنایا تھا کہ اس وقت ہندئوں کی بڑی آبادی کم عمر کی بچیوں کی شادی کردیتی تھی۔اس کے بعد کئی قوانین بنے لیکن خود ہندو مبصرین کا خیال ہے کہ بعض ریاستوں میں آج بھی ہندئوں میں کم سنی کی شادی کا چلن ہے۔رپورٹوں کے مطابق دنیا بھر میں کم سنی کی شادی کرنے والے ملکوں میں ہندوستان سر فہرست ہے۔اقوام متحدہ کے اداروں کے مطابق آج بھی بہار‘ بنگال اور راجستھان میں قبائل اور درج فہرست ذات برادریوں اور مزید کچھ مخصوص ہندو برادریوں میں کم سنی کی شادیاں عام ہیں۔2005میں 47فیصد اور2016میں27فیصدکم سنی کی شادیاں ہوئی تھیں۔
میرا خیال ہے کہ مسلمانوں کو اس سلسلہ میں گھبرانے اورگھبراکر اشتعال میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔اب تو گائووں میں بھی مسلمان اپنی بچیوں کی شادیاں کم عمری میں نہیں کرتے۔بڑے پیمانے پر نہ سہی لیکن تعلیمی بیداری آئی ہے۔بچیاں پڑھنا چاہتی ہیں۔بہت سے گھرانوں میں بچیوں کی عمریں 21سے کہیں زیادہ ہوجاتی ہیں۔ نشانہ مسلمان ہی ہیں لیکن مشتعل ہوکر ان کا جواب دینے سے ان کا مقصد پورا ہوجائے گا۔خاموش رہیں اور دیکھیں کہ قبائل اور درج فہرست ذات کے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ ہی اس بل کی مخالفت اور قانون بن جانے کی صورت میں اس کی خلاف ورزی کریں گے۔آج جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں ہریانہ کی ’کھاپوں‘ کے کسانوں نے اپنے بڑے بڑے لیڈروں کے ساتھ اس مسئلہ پر ایک بڑی ’سبھا‘ کا اعلان کر رکھا ہے۔اس سبھا میں میگھالیہ کے گورنرستیہ پال ملک اور کسان لیڈر راکیش ٹکیت کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ان کا اصرار ہے کہ حکومت شادی کی عمر 18ہی رہنے دے۔ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اگر حکومت 21پر ہی بضد ہے تو وہ لڑکیوں کی مزید تین سال کی تعلیم اور کھانے پینے کا خرچہ برداشت کرے۔
کسانوں نے رستہ دیکھ لیا ہے۔ہریانہ کے کسان اور ان کی کھاپیں تو بہت سے معاملات پر بہت سخت ہیں۔مسلمان اگر فقط انتظار کریں اور کوئی ردعمل ظاہر نہ کریں تو یہ کسان ہی اس مسئلہ پر حکومت کیلئے مشکلات کھڑی کردیں گے۔یہ کسان ہی تھے جنہوں نے ملک بھر میں اور خاص طور پر شمالی ہند میں بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔یہ درست ہے کہ بالغ ہوجانے کے بعد شریعت ہمیں مصلحتاً اپنی بچیوں کی شادی کرنے کی ترغیب دیتی ہے لیکن یہ حکم قطعی نہیں ہے۔یہ ذمہ داری ماں باپ کی ہے کہ جہاں وہ اپنی بچیوں کی پیدائش سے لے کر ان کے بالغ ہونے تک نگرانی کرتے ہیں کچھ برس اور ان کی نگرانی کرلیں۔ یہ حکومت چاہتی ہے کہ مسلمان مشتعل ہوکر سڑکوں پر آئیں یا بیان بازیوں میں لگ جائیں اور عام ہندو خوش ہوتے رہیں کہ مسلمانوں کو ان کی "اوقات" بتادی گئی ہے۔درجنوں جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ عام ہندئوں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے تئیں اس قدرنفرت بھردی گئی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اب چاہے کتنی ہی مہنگائی ہوجائے اور خواہ ایک وقت کا کھانا نہ ملے لیکن ’مسلمانوں کو اس حکومت نے ’ٹھیک‘کردیا ہے اور ہمارے لئے یہی بہت ہے۔‘‘ ہمیں خاموش رہ کر ان کے اس ’ٹھیک کرنے والے‘ تصور کو ہی ٹھیک کرنا ہے۔
** Your post has been upvoted (0.85 %) **
Curation Trail Registration is Open!
Curation Trail Here
Delegate more BP for better Upvote + Daily BLURT 😉
Delegate BP Here
Thank you 🙂 @tomoyan
https://blurtblock.herokuapp.com/blurt/upvote