*آن لائن بینکنگ کی شرعی حیثیت *

in urdu •  3 years ago 

gettyimages-800730-612x612.jpg
(https://img.blurt.world کوئی جواب نہیں، اس
بینک ایسے تجارتی ادارے کا نام ہے جو لوگوں کی رقمیں اپنے پاس جمع کرکے تاجروں و صنعت کاروں اور دیگر ضرورت مند افراد کو فراہم کرتا ہے۔ بینک کے وجود کے سلسلے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ لوگ اپنا سونا صرافوں کے پاس بطورامانت رکھتے تھے سنار اس کو رسید دیتے تھے۔ رفتہ رفتہ ان‌ رسیدوں سے ہی معاملات شروع ہوگئے۔ صرافوں نے سونا قرض دینا شروع کردیا۔ پھر دیکھا کہ لوگ رسیدوں ہی معاملات کرتے ہیں تو صرافوں نے قرض خواہوں کو سونے کی تجارتی رسیدیں دینی شروع کردی۔ اس طرح بینک کی صورت پیدا ہوئی۔ جو بعد میں ایک منظم ادارے کی شکل میں دے دی گئی جو آج ہمارے آنکھوں کے سامنے موجود ہے (اسلام میں معشیت و تجارت:١١٥)
اب سوال یہ ہے کہ بینک کا کام کیا ہوتا ہے ؟
بینک کا بنیادی کام پیسہ لین دین کا ہے۔ بینک ایک طرف سے پیسہ لیتا ہے۔ جس میں کرانٹ یعنی وہ اکاؤنٹ جن پر اضافی رقم نہیں ملتی ہے۔اس کا استعمال درست ہے۔ سیونگ اکاؤنٹ یعنی جس میں معمولی اضافہ ملتا ہے اور جو فکس ڈپازٹ جو خاص مدت کے لیے ہوتا ہے ۔ اس پر متعین اضافہ ملتا ہے (ویکیپیڈیا)ان دونوں کا استعمال درست نہیں ہے کیوں کہ اس میں سود کی آمیزش ہے ۔
اب جانتے ہیں کہ ان لائن بینکنگ کا استعمال کیسے ہوتا ہے؟
یہ ہے کہ ہم اسے پیسہ نکالنے اور بھیجنے دونوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کبھی قرض دینے کے لیے تو کبھی قرض لینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جہاں تک قرض لینے یا دینے کی بات ہے اگر ہم اس میں انٹرسٹ لیتے یا دیتے ہیں تو یہ سود ہوگا ۔ دلیل"و أخذ ه‍م الربا و قد نه‍و عنه و اكله‍م أموال الناس باالباطل و أعتدنا للكافرين منه‍م عذاباً أليما" اور حدیث نبوی"لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا و مؤكله"(رواہ مسلم) بینکوں سے قرض لے کر اس پر انٹرسٹ دینا تینوں مذہب یعنی مالکی، شافعی اور حنبلی میں بالاتفاق سود ہے اور حرام و گناہ ہے۔ لہٰذا کیش کریڈٹ،کلین اور ڈرافٹ، ڈامینیٹری اور ڈرافٹ، أی آر ڈی سیومے اور پردھان منتری روز گار یوجنا وغیرہ اسکیموں سے قرض لینا اور اس پر انٹرسٹ دینا اس جیسا عمل مالک، شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک حرام اور گناہ ہے۔(اسلام اور جدید بینک کاری:٨٦)
اب یہ ہے کہ کوئی شخص بہت مالدار ہے اور انکم ٹیکس سے بچنے کی صورت تلاش کر رہا ہو اور اس کے لیے یہ ہے کہ اگر انکم ٹیکس سے بچنے کی کوئی صورت نہ ہو اور یقین یا کم از کم ظن غالب ہو کہ آن لائن بینک سے قرض نہ لینے پر سود سے زیادہ مال انکم ٹیکس میں برباد ہو جائے گا۔تو ایسی صورت میں چاروں مذاہب کے نذدیک قرض لینے کی اجازت ہوگی۔کہ قاعدہ فقہیہ"الضرورات تبيح المحظورات"واللہ تعالیٰ اعلم (اسلام اور جدید بینک کاری:٨٦)
اب یہ ہے کہ کوئی شخص غریب و محتاج ہو تو لان کے لیے آن لائن بینک کے ذریعہ حکومت سے قرض کا طلبگار ہو تو ایسی صورت میں حکومت ٪٣٣ یا٪ ٤٠ فیصد قرض دار کو چھوٹ دیتی ہے یعنی قرض سے اتنی فیصد معاف کر دیتی ہے۔ اور ان میں بقیہ قرضے پر سود اصول کرتی ہے تو ایسی صورت چاروں مذاہب میں حرام ہے۔
اب آن لائن بینکنگ کے فوائد و نقصانات کے بارے میں بھی تھوڑا جان لیتے ہیں۔بینک اپنے کسٹمرز کو مالیاتی سہولیات کے لیے مختلف خدمات فراہم کرتا ہے جن میں سے کچھ اس طرح سے ہے ۔
(١) کسٹمرز کے لیے فنڈ ٹرانسفر، چیک سسٹم کی سہولت۔
(٢) کسٹمرز کے لیے زر مبادلہ کی خرید وفروخت کی سہولت۔
(٣) کسٹمرز کے سامان سامان کو حفاظت سے رکھنے کی خدمت۔
(٤) کسٹمرز کو مارکیٹ کے بارے میں معلومات فراہمی وغیرہ۔
یہ مذکورہ فوائد آف لائن بینکنگ کا ہے لیکن جب ہم ایک مرتبہ آن لائن بینکنگ کے فوائد پر سر سری نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ جس طرح آف لائن بینکنگ کا فائدہ ہے اسی طرح آن لائن بینکنگ کا بھی فائدہ ہے لیکن اس میں قدرے فرق ہے۔ آن لائن بینک ہمارے اوقات کو بچاتا ہے۔ اور یہ کم وقتوں میں ہمارا بہت کام کر دیتا ہے۔ جیسے اگر ٹکٹ بنانا ہو، ہمارے پاس وقت کم ہو اور کیش موجود نہ ہو تو ہم آن لائن بینک سے ٹکٹ بک کر سکتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو روپیہ بھیجنا ہو اگر ہم بینک جاتے ہیں تو بسا اوقات پورا دن گزر جاتا ہے لیکن ہمارا کام نہیں ہوتا ہے۔ لیکن اس آن لائن بینک نے اسے آسان کر دیا ہے۔ جس سے ہم ایک منٹ میں اپنا کام مکمل طریقہ سے پایۂ تکمیل کو پہنچا دیتے ہیں۔ اور ہمارا کام ہو جاتا ہے۔ جس سے ہمیں کچھ بونس کیش بھی ملتا ہے۔ اس آن لائن بینکنگ نے تو ہمارا کام بہت حد تک آسان کر دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم آن لائن بینک کا استعمال کر سکتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں سود کی آمیزش نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان "أحل البيع و حرم الربا"(سورۃ البقرہ:٢٧٥) اب جہاں تک آن لائن بینکنگ کا تعلق ہے اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اسے صحیح استعمال میں لایا جائے۔ اب جیسے کوئی شخص آن لائن بینک کا کام کرتا ہے تو اسے معلوم ہے کہ اس کے استعمال سے بونس کیش ملتا ہے،ریفر کیش ملتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کیش کا استعمال کیسا ہے ؟ تو اس کا جواب یہی ہوگا کہ یہ سود ہے صرف اس کا نام بدل دیا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سود کیسے ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ بینک میں پیسہ رکھتے ہیں۔ اس پیسے سے بینک مالک تجارت کرتا ہے ۔ بسا اوقات اسے نفع ہوتا ہے اور بسا اوقات اسے نقصان ہوتا ہے۔ لیکن اس نقصان کے باوجود بھی وہ آپ کو بونس کے طور پر کچھ پیسہ دے دیتا ہے۔ اور سود کی تعریف رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس طرح سے کی ہے "كل قرض جر نفعا فوق ربا "یہ ہو گئی بونس کیش کی بات،اس میں ریفر کیش بھی ملتا ہے۔ کوئی شخص آن لائن بینکنگ ایپ ریفر کرتا ہے تو اسے ریفر کیش ملتا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں ریفر کرنا ہی نہیں چاہیے کیونکہ آپ جس بینکنگ ایپ کو ریفر کر رہے ہیں آپ کو معلوم نہیں کہ وہ اس کا استعمال کس کام میں کریگا۔ مثلاً: ہم نے جسے یہ ایپ بھیجا اب اس کو فلم دیکھنا ہے اور یوٹیوب میں اس کی قیمت ٥٠ روپیہ ہے اب وہ کریگا کیا ؟ اب وہ آن لائن بینک کے ذریعہ اس فلم کو خریدےگا اور فحش و عریاں دیکھےگا اور گناہ آپ کے حصے میں بھی آئیگا، کیوں کہ ذریعہ آپ بنے ہیں۔ دلیل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان "من سن في الإسلام سيئة كان عليه وزره‍ا و وزر من عمل به‍ا من غير أن ينقص من اوزاره‍م شئ "(رواہ مسلم)۔
ما حصل یہ ہوا کہ آن لائن بینکنگ کا استعمال صحیح سے کیا جائے اور اس میں سود کی آمیزش نہ ہو تو درست ہے، ورنہ اگر سود کی آمیزش ہو تو اس کا استعمال صحیح نہیں ہوگا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!