ایک مرتبہ امام ابو داؤد رحمہ اللہ ایک بڑی کشتی میں سوار تھے، اسی اثنا میں سمندر کے کنارے پر کھڑے ایک شخص کو چھینک آئی اور اس نے الحمدللہ کہا، (چونکہ کشتی سمندر کے کنارے سے تھوڑی دور تھی اس لئے) امام ابو داود رحمہ اللہ نے ایک چھوٹی سی ناؤ ایک درہم میں کرائے پر لی اور کنارے پر جاکر اس شخص کی چھینک کا جواب دیا (یعنی یر حمک اللہ کہا) اور پھر واپس کشتی میں چلے آئے، لوگوں نے امام ابو داود سے کشتی سے اتر کر کنارے جا کر جواب دینے کا سبب پوچھا تو امام ابو داود رحمہ اللہ نے کہا: ہو سکتا ہے کہ چھینکنے والا شخص مستجاب الدعوات ہو (یعنی اس کی دعائیں اللہ رب العالمین کے یہاں مقبول ہوتی ہوں) اس لئے میں نے صرف چھینک کا جواب دینے کیلئے اتنی مشقت اٹھائی، پھر جب سب لوگ سو گئے تو ایک انجانی سی آواز آئی: اے کشتی والو ابو داود رحمہ اللہ نے ایک درہم میں جنت خرید لی.
فتح الباری.
قارئین: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہمیں بتلاتی ہے کہ چھینکنے والا جب الحمد للہ کہے تو سننے والا اسے یرحمک اللہ کہے، اور پھر چھینکنے والا اسے "یہدیکم اللہ و یصلح بالکم" کہے یعنی اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری اصلاح فرمائے.