انتخابات کے نتائج اب تقریباً فائنل ہیں اور یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بر سر اقتدار پارٹی پھر سے حکومت بنا رہی ہے. آئیے اس الیکشن کے نتائج کا مختصراً تجزیہ کرتے ہیں.
اس الیکشن نے یہ ثابت کر دیا کہ 2014 کے بعد سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ملک میں نفرت کی جو خلیج بنی ہے وہ دن بدن وسیع ہوتی جا رہی ہے. اس خلیج کو پاٹے بغیر سیاسی حالات صحیح نہیں ہو سکتے. اب من حیث القوم ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس خلیج کو کیسے پاٹا جائے.
مذہبی جنون اس قدر غالب آ چکا ہے کہ اب غیر مسلموں میں برادری کے بجائے صرف اور صرف مذہب کی بنیاد پر ووٹ دیا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ سماجوادی پارٹی بیشتر انہیں علاقوں سے کامیاب ہوئی ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، بعض جگہوں پر مسلمان تیس سے چالیس فیصد ہیں وہاں بھی سماجوادی کامیاب نہیں ہو پائی کیوں کہ ہندو ووٹ اسے نہ کے برابر ملے.
مسلمانوں نے اس الیکشن میں پوری سمجھداری سے بالکل یکطرفہ ووٹنگ کی ہے، اویسی کی ریلیوں میں بھیڑ ضرور گئی مگر ووٹ دیتے وقت لوگوں نے جذباتیت سے قطع نظر سمجھداری سے کام لیتے ہوئے متحد ہو کر ووٹنگ کی. اب یہ الگ بات ہے کہ صرف ہمارے متحد ہو جانے سے کوئی پارٹی برسر اقتدار نہیں آ سکتی، جب تک دوسروں کا سپورٹ حاصل نہ ہو.
اندھا راشٹر واد وہ نشہ بن چکا ہے جو سارے غم بھلا دیتا ہے. مہنگائی، ڈیزل پیٹرول کی بڑھتی قیمتیں، کورونا دور میں لچر ہیلتھ سسٹم، گنگا میں تیرتی لاشیں، آوارہ جانوروں سے برباد ہوتی فصلیں لوگ یہ سارا غم دھرم اور راشٹر واد کے خوبصورت نعروں میں بھول گئے. فی الحال حزب مخالف کے پاس اس نشے کا کوئی توڑ نہیں ہے
مایاوتی پورے الیکشن کے دوران خاموش رہیں، کچھ خاص چناؤ پرچار بھی نہیں کیا، اس سے یہ ظاہر ہوا کہ دلت طبقے میں بھی ان کی مقبولیت بہ کم ہو چکی ہے، دلت طبقہ نے بھی بیشتر مقامات پر بی جے پی کو ووٹ کیا.
کانگریس نے اس بار الیکشن کیمپین میں ضرور محنت کی، پرینکا گاندھی نے خوشنما نعرے بھی لگائے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا، اندازی ہو رہا ہے کہ یو پی میں کانگریس کو دوباری کھڑا ہونے میں ابھی بہت وقت لگے گا، راہل پرینکا کے بس کا روگ یہ نہیں لگ رہا ہے.
اکھیکیش نے بیشک محنت کی، مذہبی کارڈ سے حتی الامکان خود کو بچائے رکھا، مسلمانوں کی یکطرفہ حمایت بھی ان کو ملی، مگران کے یادو ووٹ بینک میں بی جے پی سیندھ لگا چکی ہے، اس کا اندازہ شاید اکھیکیش کو بھی نہیں رہا ہوگا کہ یادو ووٹ انہیں اتنا کم ملے گا.
ہندوؤں میں براہمن طبقے کے یوگی سے ناراض ہونے کی باتیں گردش کر رہی تھیں مگر نتائج نے یہ بتا دیا کہ یا تو اس ناراضگی کو مندر اور دھرم جیسے مدعوں نے دبا دیا یا اندرون خانہ آر ایس ایس براہمنوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو گئی کہ فی الحال ہمارے پاس یو گی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے.
اویسی صاحب نے یو پی کی سیاست میں انٹری کے لمبے چوڑے دعوے تو کیے مگر اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نظر نہیں آیا. مبارک پور جیسے مسلم علاقے میں گڈو جمالی جیسا مقبول لیڈر بھی انہیں ایک سیٹ نہیں دلا سکا. بہر حال سپا کی ہار میں میرے تجزیے کے مطابق اویسی صاحب کا کوئی رول نہیں، وہ نہ بھی لڑتے تب بھی سپا بہر حال ہارتی.
اب چونک مطلع صاف ہوتا جا رہا ہے اور یو پی میں زعفرانی جھنڈا پھر سے لہرا رہا ہے اس لیے ہمیں آگے کی پلاننگ بہت سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے، احتیاط کے ساتھ ہر قدم اٹھانا چاہیے اور اللہ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ ہمیں ظالموں کے ظلم اور شرارتوں سے محفوظ رکھے.