اَلْحَمْدُ لِلّٰه رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلاَمُ عَلٰی رَسُوْلِه الْا َٔمِیْنَ، أَمَّا بَعْدُ:
ماہِ رمضان رحمتوں، برکتوں، سعادتوں اور مغفرتوں کا مہینہ ہے جو ہم سے یہ تقاضا کر رہا ہے کہ دیکھنا کہیں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میری تما م تر فضیلتیں سمیٹنے سے محروم نہ رہ جانا …… شاید یہ زندگی کا آخری رمضان ہو…… دوبارہ ایسا بابرکت مہینہ نصیبے میں نہ ہو…… کیا تم دیکھتے نہیں! کتنے ہی ایسے ہیں جو تمھارے ساتھ سحری وافطاری میں شریک ہونے والے اور قیامِ رمضان میں ساتھ کھڑے ہونے والے تھے لیکن …… آج وہ نظر نہیں آرہے۔ کیوں؟…… اس لیے کہ ان کا مقررہ وقت پورا ہو چکا ہے۔
﴿وَلَنْ یُّؤَخِّرَاللہُ نَفْسًا اِذَاجَآءَ اَجَلُھَا﴾ کی صدا آ چکی ہے بلکہ اب تو تم بھی …… اسی قطار میں کھڑے نظر آتے ہو۔ عنقریب …… تمھاری باری بھی آنے والی ہے، پھر کیوں نہ اس زندگی کے بقیہ لمحات و ساعات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو بدل دیں۔
معصیت و نافرمانی کی دلدل سے نکل کر زہدوتقویٰ کے تالاب میں غوطہ زن ہوں، لیکن کیسے؟ ہم اپنی زندگیوں میں کس طرح انقلاب لائیں؟ …… ہاں!…… رب کریم نے ہمیں ایک بہترین موقع عطا کیا ہے اور وہ ’’ماہ رمضان‘‘ ہے۔ ہم کس طرح اس مہینے کے شب و روز گزاریں، تاکہ ہمارا رب رحیم ہم سے راضی ہو جائے اور ہمارے اعمال اس کے ہاں مقبول قرار پائیں؟
تو پھر ضروری ہے کہ درج ذیل باتوں کو ملحوظ رکھاجائے:
توبہ:
سب سے پہلے اپنی سابقہ زندگی پر ایک نظر ڈالیں کہ جس قدر بھی گناہ ہوئے ہیں، اللّٰه اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ہے، خواہ قولاً ہے یا عملاً تو ان سب سے اپنے اللّٰه کے حضور سچے دل سے توبہ کریں، توبہ کا مفہوم ہی یہ ہے کہ گناہ کے کاموں سے لوٹنا، گناہ کا اعتراف اور آیندہ کبھی نہ کرنے کا عزم کرنا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْآ اِلَی اللّٰه تَوْبَۃً نَّصُوْحًا - عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَاالْاَنْھٰرُ﴾
’’اے ایمان والو! اللّٰه کے حضور خالص توبہ کرو کچھ بعیدنہیں کہ تمھارا پروردگار تم سے تمھاری برائیاں دور کر دے اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔‘‘ (التحریم: 8)
ہو سکے تو خوفِ الٰہی سے چند قطرے آنسوؤں کے بھی شامل کر لیں، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’وہ شخص جہنم میں نہیں جائے گا جو اللّٰه کے ڈر سے رویا۔‘‘ (سنن الترمذی: 1633، صحیح)
نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سات قسم کے لوگوں کو قیامت کے دن اللّٰه تعالیٰ اپنا سایہ عطا کرے گا۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جسے تنہائی میں اللّٰه یاد آئے اور اس کے آنسو جاری ہو جائیں۔‘‘
(صحیح بخاری: 660، صحیح مسلم: 1031)
حصولِ تقویٰ:
گناہوں کو چھوڑنے اور نیکی کے کام کرنے پر طبیعت کا مائل ہونا اور اپنے گناہوں کے انجام سے ڈر کر ان سے بچنے کی کوشش کرنا تقویٰ ہے اور ماہِ رمضان کا بڑا اوراہم مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾
’’اے ایمان والو! تم پر رمضان کے روزے فرض کر دیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کئے گئے تھے (اور اس کا مقصد یہ ہے) کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔‘‘ (البقرۃ: 183)
تقویٰ اختیار کرنے کے دنیاوی و اُخروی بہت زیادہ فوائد ہیں جس کا تذکرہ قرآن و سنت میں جا بجا ملتا ہے۔
اللّٰه تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰه یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ﴾
’’جو اللّٰه سے ڈرتا ہے، اللّٰه اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ آسان کر دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کو وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘ (الطلاق: 2، 3)
رسول اللّٰه ﷺ نے فرمایا: ’’ اللّٰه سے ڈرو، اپنی پانچوں نمازیں ادا کرو، اپنے (رمضان کے) مہینے کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو، اپنے حاکموں کی اطاعت کرو! تو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤگے۔‘‘
(سنن الترمذی: 616، حسن)
روزے کی حفاظت:
روزے کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ اگر ہم نے اس سلسلے میں سُستی و کوتاہی کا ثبوت دیا اور صحیح طریقے سے روزے کی حفاظت نہ کر سکے تو ہم اس کی فضیلتوں اور برکتوں سے محروم رہ سکتے ہیں، چنانچہ لازم ہے کہ (روزے کے اجر و ثواب کو ختم کرنے والے اعمال مثلاً) جھوٹ، بہتان چغلی، غیبت اور لڑائی جھگڑے سے بچا جائے، خصوصاً زبان کی حفاظت کی جائے اور تقویٰ اختیار کیا جائے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جنھیں پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام (اللیل) کرنے والے ایسے ہیں جنھیں بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ: 1690، سنن الدارمی: 2722، اسنادہ حسن)
یعنی جوشخص بھی مذکورہ خرافات سے نہیں بچتا اس کا روزہ اسے کچھ فائدہ نہیں دیتا۔
نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل نہیں چھوڑتا تو الله کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ (صحیح بخاری: 1903)
قیام اللیل:
اللّٰه تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو مربوط کرنے کا اہم ذریعہ قیام اللیل ہے اور رمضان میں قیام اللیل فضیلت کے لحاظ سے اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
رسول اللّٰه ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام رمضان کرتا ہے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
(صحیح بخاری: 37)
یہاں ایک بات کا خیال رہے کہ بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ’’قیام رمضان اکیلے اور گھر میں کرنا زیادہ بہتر ہے، لہٰذا ہم گھر میں قیام کریں گے‘‘ لیکن وہ بیچارے ساری رات بسترپر سوئے ہی گزار دیتے ہیں۔(اِلا ماشاء اللّٰه)
اور بعض حضرات قیامِ رمضان باجماعت کو سنت سمجھنے سے ہی انکاری ہیں!
ایسے حضرات کی اصلاح کے لیے اس لمبی حدیث کا ایک حصہ پیش خدمت ہے جو آپ ﷺ نے قیامِ رمضان کے بارے میں فرمایا تھا: ’’ یقیناً جب آدمی امام کے ساتھ نماز پڑھ کر فارغ ہو جاتا ہے تو بقیہ رات(بھی ثواب کے لحاظ سے) قیام ہی میں شمار کی جاتی ہے۔‘‘ (سنن ابی داود: 1375، سنن الترمذی: 806، سنن النسائی: 1365، سنن ابن ماجہ: 1337، وسندہ صحیح)
امید ہے کہ اس قدر قیام رمضان باجماعت کی فضیلت جان کر حیلوں اور بہانوں سے احتراز کیا جائے گا۔
تلاوتِ قرآن مجید کی کثرت:
رسول اللّٰه ﷺ نے فرمایا: ’’قرآن (کثرت سے) پڑھا کرو، اس لیے کہ قیامت والے دن یہ اپنے (پڑھنے والے) ساتھیوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔‘‘ (صحیح مسلم: 804)
یہ حقیقت ہے کہ اجروثواب کے لحاظ سے ماہ رمضان میں کیا ہوا عمل زیادہ افضل ہے، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ رمضان میں تو خوب قرآن پڑھتے اور سنتے ہیں اور دیگر مہینوں میں قرآن مجید چھونے کی توفیق بھی نہیں ہوتی۔ (والعیاذبالله)
ذکرِ الٰہی سے زبان تَر رکھنا:
لغویات و فضولیات کو ترک کر کے ہمیشہ اپنی زبان کو اللّٰه تعالیٰ کے ذِکر سے تر رکھنا چاہیے۔
سیدہ عائشہ رضی اللّٰه عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللّٰه ﷺ اپنے تمام اوقات میں اللّٰه کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم: 373)
دوسرے مقام پرآپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیری زبان ہمیشہ اللّٰه کے ذِکر سے تَر رہنی چاہیے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ: 3793 وسندہ حسن)
صبح و شام کے اذکار کی بھی پابندی کرنی چاہیے جیسا کہ دیگر دلائل سے ثابت ہے۔
اعتکاف:
رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا سنتِ نبوی ہے اور یہ تزکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ ہے۔
سیدنا عبداللّٰه بن عمر رضی اللّٰه عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللّٰه ﷺ آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری: 2025، صحیح مسلم: 11171)
آخری عشرہ:
اس عشرے میں اپنی تمام تر توانائی اس پہ خرچ کر دینی چاہیے کہ ہم سے ہمارا اللّٰه راضی ہو جائے اور ہماری کمیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں سے درگزر فرما دے اور نیکیوں کے حصول میں اضافہ اور جذبۂ سبقت ہو۔ (رمضان میں) رسول اللّٰه ﷺ بھلائی میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخاوت کرتے تھے۔ (صحیح بخاری: 6، صحیح مسلم: 2308)
سیدہ عائشہ رضی اللّٰه عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب (آخری) عشرہ شروع ہو جاتا تو رسول اللّٰه ﷺ شب بیداری فرماتے اور اپنے گھروالوں کو بھی بیدارکرتے اور (عبادت کے لیے) کمر کس لیتے۔ (صحیح بخاری: 2224، صحیح مسلم: 1774)
لیلة القدر:
اسی عشرے میں لیلة القدر ہے جس کے بارے میں اللّٰه تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ، وَمَآاَدْرٰکَ مَالَیْلَۃُ الْقَدْرِ، لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ﴾
"ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا اور آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔" (القدر:1، 3)
لہٰذا آخری عشرے میں لیلة القدر کو تلاش کرنا چاہیے، کیونکہ رسول اللّٰه ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص لیلة القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کرے، تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘
(صحیح بخاری:2008، صحیح مسلم:760)
نیز رسول اللّٰه ﷺ نے فرمایا: ’’تم لیلة القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘
(صحیح بخاری: 2020)
ایک اہم بات:
جو سلسلہ رمضان کی مبارک ساعتوں میں قائم کیا جائے وہ بقیہ گیارہ مہینوں میں بھی برقرار رہنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جوشخص رمضان میں قیام اللیل اور اشراق وغیرہ تک کی پابندی کرتا تھا وہ غیر رمضان میں فرض نماز بھی چھوڑ بیٹھے اور پھر اسی معصیت و نافرمانی کی دلدل میں جاگرے جہاں پہلے پھنسا ہوا تھا اور مہینے بھرکے ’’اعمالِ صالحہ‘‘ کی کمائی اکارت کردے۔ (والعیاذ بالله)
اس لئے ضروری ہے کہ اس مبارک مہینے میں اپنا احتساب کرتے ہوئے ہمیشہ کے لئے صراطِ مستقیم کا انتخاب کر لیں اور اپنا ہر لمحہ ہر لحظہ قرآن و سنت کے مطابق گزار کر آخرت میں اللہ کے ہاں سرخرو ہو جائیں۔ ان شاء اللّٰه
اللّٰه تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے دین کے لیے چن لے اور ہم سے راضی ہو جائے۔ (آمین)
ماہِ رمضان کے فضائل و احکام ایک نظر میں
جونہی ماہِ رمضان کا آغاز ہوتا ہے: ((فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّۃِ)) جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ((غُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَھَنَّم)) دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ((سُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ)) (سرکش) شیطانوں کو جھکڑ دیا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری: 1898، 1899)
اور جوشخص ایمان اور ثواب کی نیت سے اس مہینے (رمضان) کے روزے رکھے تو اس کے گزشتہ تمام (صغیرہ) گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری:1901)
روزہ دار ہی وہ خوش قسمت ہے جس کے لئے جنت کے آٹھ دروازوں میں سے ’’الریان‘‘ نامی دروازہ مخصوص ہے۔ (صحیح بخاری:1896)
اس کے برعکس ایسے آدمی کی ناک خاک آلودہ قرار دی گئی جس نے (اپنی زندگی میں) رمضان کا مہینہ پایا، لیکن بخشش سے محروم رہا۔ (سنن الترمذی: 3545 و سندہ حسن)
بڑے ہی نصیبے والا ہے وہ شخص جو ’’ماہ رمضان‘‘کی تمام تر فضیلتیں کماحقہ اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ اللھم اجعلنا منہ
چاند دیکھ کر روزہ رکھنا:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور اسی کو دیکھ کر روزہ افطار کرو اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کی گنتی میں تیس دن پورے کر لو۔‘‘ (صحیح بخاری: 1909، صحیح مسلم: 1081)
روزے کی نیت:
اس میں کوئی شک نہیں کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، لیکن نیت دل کے قصد وارادے کا نام ہے نہ کہ زبان سے خود ساختہ الفاظ کا ادا کرنا جیسا کہ ’’وَبِصَوْمِ غَدٍ نَوَیْتُ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ‘‘ عوام میں مشہور ہے، حالانکہ یہ بے اصل ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
سحری کے مسائل:
رسول اللّٰه ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کا کھانا فرق (کرتا) ہے۔‘‘ (صحیح مسلم: 2096)
مزید ارشاد فرمایا: ’’سحری کھاؤ، کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔‘‘ (صحیح بخاری: 1923، صحیح مسلم:1095)
سحری کب تک کھا سکتے ہیں؟
رسول اللّٰه ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور کھانے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہو (تو اذان کی وجہ سے) اسے رکھ نہ دے بلکہ اس سے اپنی ضرورت پوری کرے۔‘‘ (سنن ابی داود: 2350 وسندہ حسن)
مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللّٰه سحری کے وقت کے تعین میں لکھتے ہیں: ’’جب کوئی شخص اذان سنے اور اسے معلوم ہو کہ یہ اذان فجر ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ کھانے پینے سے رک جائے۔ اگر مؤذن طلوع فجر سے قبل اذان دے رہا ہو تو پھر رک جانا واجب نہیں بلکہ کھانا پینا جائز ہے۔‘‘ (فتاوی اسلامیہ 2/ 173 طبع دار السلام)
مذکورہ بالا حدیث نبوی کا تعلق ایسے حضرات کے لئے ہے جو دیر سے بیدار ہوں جب کہ شیخ ابن باز رحمہ اللّٰه کا فتویٰ ان متساہلین کے لئے ہے جو پیٹ بھر کے کھانے کے باوجود اذان ختم ہونے تک کھاتے رہتے ہیں۔ (واللّٰه اعلم بالصواب)
حالتِ جنابت میں سحری کھانا:
حالتِ جنابت میں سحری کھا کر بعد میں غسل کیا جا سکتا ہے۔ دیکھئے صحیح مسلم (1109/80)
تقاضائے روزہ:
روزے کا تقاضا ہے کہ جھوٹ، بہتان، چغلی، غیبت، لڑائی، جھگڑے سے بچا جائے اور تقویٰ کو اپنا یا جائے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جنھیں پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام (اللیل) کرنے والے ایسے ہیں جنھیں بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔‘‘(سنن الدارمی:2722، إسنادہ حسن/ طبع دار المعرفہ)
یعنی جو مذکورہ خرافات سے نہیں بچتا اس کا روزہ اسے کچھ فائدہ نہیں دیتا، نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کو نہیں چھوڑتا تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ (صحیح بخاری:1903)
جن کاموں سے روزہ نہیں ٹوٹتا:
مباحات روزہ، غسل کرنا، مسواک کرنا، بھول کرکھانا یا پینا، سینگی لگوانا، سرمہ لگانا، کنگھی کرنااورتیل لگانا وغیرہ، دیکھئے صحیح بخاری کتاب الصوم۔
روزہ جلدی افطار کرنا:
رسول اللّٰه ﷺ نے فرمایا: ’’ہمیشہ وہ لوگ بھلائی میں رہیں گے جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری: 1957، صحیح مسلم: 1098)
معلوم ہوا کہ وہ لوگ خطاپر ہیں جو قصداً روزہ دیر سے افطار کرتے ہیں اور اسے احتیاط کا نام دیتے ہیں۔
افطاری کی دعا:
((ذَھَبَ الظَّمَاءُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللّٰه)) [سنن ابی داؤد: 2357، اسنادہ حسن]
اس کے علاوہ جو دعا عوام میں مشہور ہے وہ سنداً صحیح نہیں۔
قیام اللیل (تراویح):
رسول اللّٰه ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام رمضان کرتا ہے، اس کے گزشتہ (صغیرہ) گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
(صحیح بخاری: 37)
قیام اللیل، تہجد، تراویح ایک ہی نماز کے نام ہیں، لیکن عموماً رمضان کی رات کو کیا جانے والا قیام تراویح کے نام سے معروف ہے اور اس کی تعداد گیارہ رکعات: [(3+8) 1+2+2+2+2+2] ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللّٰه عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللّٰه ﷺ عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے۔ آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم: 736)
ام المومنین رضی اللّٰه عنہا مزید فرماتی ہیں کہ رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللّٰه ﷺ گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری: 2013)
ایسے ہی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللّٰه عنہ نے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم الداری رضی اللّٰه عنہما کو حکم دیا کہ لوگوں کو (رمضان میں رات کے وقت) گیارہ رکعات پڑھائیں۔ (موطأ امام مالک 1/ 114 ح 229، السنن الکبری للبیہقی 1/ 293 وقال النیموی الحنفی
’’اسنادہ صحیح‘‘
آثار السنن:ص350)
معلوم ہوا کہ تراویح کی تعداد گیارہ رکعات (3+8) ہی ہے۔
اور واضح رہے کہ پورا ماہ رمضان امام کے ساتھ نماز تراویح ادا کرنا مسنون اور افضل ہے۔ دیکھئے سنن ترمذی (806) جو حضرات اسے بدعت کہتے ہیں ان کا قول بے دلیل ومردود ہے۔
غیر اہل حدیث اور آٹھ تراویح:
غیر اہل حدیث کے اکابرنے بھی آٹھ رکعات تراویح کو تسلیم کیا ہے۔
خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی لکھتے ہیں: ’’اور سنت موکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعات تو بالاتفاق ہے، اگر خلاف ہے تو بارہ میں‘‘ (براہین قاطعہ ص 95)
عبدالشکور لکھنوی دیوبندی نے اپنی کتاب علم الفقہ (ص 198) میں آٹھ رکعا
Please read in English language
Praise be to God, Lord of the worlds, and prayer, and peace be upon the Messenger of God, may God bless him and grant him peace.
The month of Ramadan is a month of blessings, bliss, bliss and forgiveness which demands of us not to be deprived of all my virtues this time as usual …… maybe this will be the last Ramadan of life … Don't have such a blessed month again …… Don't you see! There are many people who used to join you in breaking the fast and standing together during Ramadan, but today they are not visible. Why? Because their time has come.
The voice of (Allah) has finally come to the soul, but now you too are standing in the same line. Soon your turn is coming too, so why not take advantage of the remaining moments and hours of this life and change yourself.
Get out of the mire of disobedience and disobedience and dive into the pool of piety, but how? How do we revolutionize our lives? …… Yes! …… God has given us a great opportunity and that is the month of Ramadan. How can we spend the nights and days of this month, so that our Merciful Lord may be pleased with us and our deeds may be acceptable to Him?
Then it is important to keep the following in mind:
- Repentance: *
First of all take a look at your previous life that no matter how many sins you have committed, you have disobeyed Allah and His Messenger, whether in word or deed. It is to turn away from sinful deeds, to confess sin, and to never commit it again.
Almighty Allah says:
Those Amnon Tobu )yayha to God Tawbah nsuha - asy rbkm their ykfr ankm syatkm uydklkm reviews from heaven ththaalanhr(
O you who believe! Repent sincerely to Allah. It is not far off that your Lord will remove from you your evil deeds and will admit you to Gardens beneath which rivers flow. ”(Al-Tahrim: 8)
If possible, add a few drops of tears out of fear of Allah, because the Holy Prophet said: "He who cries out of fear of Allah will not go to Hell." (Sunan al-Tirmidhi: 1633, Sahih)
He also said: “On the Day of Resurrection, Allah will give His shadow to seven kinds of people. One of them is the person who remembers Allah in solitude and sheds tears.
(Sahih Bukhari: 660, Sahih Muslim: 1031)
- Achieving Taqwa: *
It is taqwa to have a natural inclination to forsake sins and to do good deeds and to try to avoid them for fear of the consequences of one's sins.
Almighty Allah says:
O you who believe!
O you who believe! The fast of Ramadan is prescribed for you, as it was prescribed for those before you (and its purpose is that) piety should be inculcated in you. ”(Al-Baqarah: 183)
There are many worldly and otherworldly benefits of piety which are mentioned in the Qur'an and Sunnah.
Allaah says (interpretation of the meaning):
موَمَنْ يَّتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وََّرَزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ﴾
"Whoever fears Allah, Allah makes easy for him the way out (of difficulties) and provides for him from a place from which he has no illusions." (Divorce: 2, 3) )
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “Fear Allaah, perform your five daily prayers, fast your (Ramadan) month, pay Zakat on your wealth, and obey your rulers! Then you will enter the Paradise of your Lord. "
(Sunan al-Tirmidhi: 616, Hasan) - Safety of fasting: *
It is very important to observe the fast, because if we show negligence in this regard and do not observe the fast properly, then we may be deprived of its virtues and blessings. Actions that eliminate the reward of God, such as lying, slander, backbiting and fighting should be avoided, especially the tongue should be protected and piety should be adopted.
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “How many fasting people get nothing but thirst and how many stay up (nights) who get nothing but waking up.” (Sunan Ibn Majah: 1690). Sunan al-Darmi: 2722, Asnada Hasan)
That is, whoever does not escape from the aforesaid superstitions, his fast does not benefit him at all.
Also, the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “Whoever does not stop lying and does not act upon it, then Allaah has no need for him to be hungry or thirsty.” (Saheeh Bukhari: 1903) - Stay up the night: *
Qiyam-ul-Layl is the most important means of connecting the relationship with Allah Almighty and Qiyam-ul-Layl in Ramadan is even more important in terms of virtue.
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “Whoever observes Ramadaan in a state of faith and with the intention of reward, his past sins are forgiven.”
(Sahih Bukhari: 37)
One thing to keep in mind here is that some people think that "Ramadan is better to stay alone and at home, so we will stay at home" but they spend the whole night sleeping in bed. Allah)
And some people refuse to consider the establishment of Ramadan in congregation as Sunnah!
For the correction of such people, there is a part of this long hadith which he said about the establishment of Ramadan: (Sunan Abi Dawood: 1375, Sunan Al-Tirmidhi: 806, Sunan Al-Nisa'i: 1365, Sunan Ibn Majah: 1337, Wasinda Sahih)
It is hoped that such tricks and excuses will be avoided by knowing the virtue of staying in congregation during Ramadan.
Abundance of Quran recitation: *
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “Recite the Qur'aan (frequently), for on the Day of Resurrection it will come as an intercessor for your (reciting) companions.” (Saheeh Muslim: 804)
It is a fact that in terms of rewards, what is done in the month of Ramadan is better. (والعیاذبالله)Keeping the tongue from the remembrance of God: *
Abandoning nonsense and nonsense, one should always keep one's tongue wet with the remembrance of Allah Almighty.
Ayesha (may Allah be pleased with her) narrates that the Messenger of Allah (may peace be upon him) used to mention Allah in all his time.
(Sahih Muslim: 373)
In another place, he said: "Your tongue should always be above the remembrance of Allah." (Sunan Ibn Majah: 3793 Wasinda Hasan)
Morning and evening dhikr should also be observed as proved by other arguments.I'tikaf: *
I'tikaaf in the last ten days of Ramadan is a Sunnah of the Prophet and it is the best means of self-purification.
Abdullah ibn Umar (may Allah be pleased with him) narrates that the Messenger of Allah (may peace be upon him) used to observe I'tikaaf in the last ten days. (Sahih Bukhari: 2025, Sahih Muslim: 11171)Last decade: *
In this decade, we should spend all our energy on pleasing our God and forgiving our shortcomings, shortcomings and mistakes, and increase the attainment of good deeds and the spirit of superiority. The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) used to be more generous (in Ramadaan) than good wind. (Sahih Bukhari: 6, Sahih Muslim: 2308)
Ayesha (may Allah be pleased with her) narrates that when the (last) ten days had started, the Messenger of Allah (may peace be upon him) would wake up at night and would wake up his family and tighten his grip (for worship). (Sahih Bukhari: 2224, Sahih Muslim: 1774)Laylat al-Qadr: *
In this decade is Laylat al-Qadr, about which Allah says:
ِنِنَّا َْنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَآاَدْرَكَ مَالَيْلَۃُ الْقَدْرِ ، لَيْلَۃُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْرْ
We revealed this (Qur'an) on Shab-e-Qadr and do you know what Shab-e-Qadr is? Shab-e-Qadr is better than a thousand months. (Al-Qadr: 1, 3)
Therefore, Laylat al-Qadr should be sought in the last decade, because the Messenger of Allah (saw) said: "Whoever stays in Laylat al-Qadr with faith and with the intention of reward, his previous sins will be forgiven."
(Sahih Bukhari: 2008, Sahih Muslim: 760)
Also, the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “Seek Laylat al-Qadr in the odd nights of the last ten days of Ramadaan.”
(Sahih Bukhari: 2020)One important thing: *
The chain that is established in the blessed hours of Ramadan should be maintained in the remaining eleven months. Let it not happen that a person who used to observe Qiyam-ul-Layl and Ishraq etc. in Ramadan, left the obligatory prayers in non-Ramadan and then woke up in the same mire of disobedience and disobedience where he was trapped for a month and did good deeds. The earnings of (والعیاذ بالله)
Therefore, in this blessed month, it is necessary to choose the straight path while holding yourself accountable and spend your every moment according to the Qur'an and Sunnah and become a servant of Allah in the Hereafter. In Sha Allah
May Allah Almighty choose us for His religion and be pleased with us. (Amen)Virtues and rules of the month of Ramadan at a glance *
As soon as the month of Ramadan begins: ((فُتِّحَتْ َْبْوَابُ الْجَنَّۃِ)) The gates of Paradise are opened and ((غُلِّقَتْ َْبْوَابُ جَهَنَّم)) Is shaken. (Sahih Bukhari: 1898, 1899)
And whoever fasts this month (Ramadan) with the intention of faith and reward, then all his past (minor) sins are forgiven. (Sahih Bukhari: 1901)
The fasting person is the lucky one for whom one of the eight gates of Paradise, Al-Rayyan, is reserved. (Sahih Bukhari: 1896)
On the contrary, the nose of a man who found the month of Ramadan (in his life) was polluted, but was deprived of forgiveness. (Sunan al-Tirmidhi: 3545 and Sindh Hasan)
Very fortunate is the person who embraces all the virtues of the month of Ramadan. Oh my godFasting after seeing the moon: *
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “Fast when you see the moon, and break your fast when you see it. 1081)Intention of fasting: *
There is no doubt that actions depend on intentions, but intention is the name of the intention of the heart and not the utterance of self-made words with the tongue, such as “ It is untrue and untrue.Sehri issues: *
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “There is a difference between our fasts and the fasts of the People of the Book.”
He further said: “Eat sehri, because eating sehri is a blessing.” (Sahih Bukhari: 1923, Sahih Muslim: 1095)How long can you eat sehri? *
The Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, said: 2350 وسنده حسن)
Grand Mufti Shaykh Ibn Baaz (may Allah have mercy on him) writes in determining the time of Sehri: If the muezzin is giving the call to prayer before dawn, then it is not obligatory to stop, but it is permissible to eat and drink. ”
The aforesaid hadith of the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) is for those who wake up late, while Shaykh Ibn Baaz (may Allaah have mercy on him) said: (Allah knows best)Breakfast in the state of janabah: *
In the state of janabah, one can eat sehri and perform ghusl later. Watch Sahih Muslim (1109/80)Fasting requirements: *
Fasting requires that one avoid lying, slander, gossip, backbiting, fighting, quarreling, and adopt piety.
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “How many fasting people get nothing but thirst and how many stay up (nights) who get nothing but waking up.” (Sunan al-Darmi: 2722) Hassan
That is, fasting does not benefit the one who does not escape from the aforesaid superstitions. Also, the Prophet (peace be upon him) said: (Sahih Bukhari: 1903)Things that do not break the fast: *
Fasting, bathing, brushing, forgetting to eat or drink, putting on horns, applying cold, combing and applying oil, etc., see Sahih Bukhari Kitab al-Soom.Breaking the fast early: *
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “Those who hasten to break the fast will always be in goodness.” (Saheeh Bukhari: 1957, Saheeh Muslim: 1098)
It turned out that those who deliberately break the fast late are on the wrong side and call it precaution.Iftar prayer: *
((ذَهَبَ الظَّمَاءُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللّٰه))
Besides, the prayer that is popular among the people is not authentic.Qiyam al-Layl (Taraweeh): *
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “Whoever observes Ramadaan in a state of faith and with the intention of reward, his past (minor) sins are forgiven.”
(Sahih Bukhari: 37)
Qiyam-ul-Layl, Tahajjud, Taraweeh are the names of the same prayers, but the Qiyam of Taraweeh, which is usually performed on the night of Ramadan, is known as: 2 + 2].
Ayesha (may Allah be pleased with her) narrates that after completing the Isha prayer, the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) used to recite eleven rak'ahs till morning and people used to call this prayer Atma. He used to greet every two rak'ahs and recite one witr. (Sahih Muslim: 736)
Umm Al-Mumineen (may Allah be pleased with her) adds that whether it is Ramadan or non-Ramadan, the Messenger of Allah (may peace be upon him) did not recite more than eleven rak'ahs. (Sahih Bukhari: 2013)
Similarly, Umar ibn al-Khattab (may Allah be pleased with him) ordered Abi ibn Ka'b and Tamim al-Dari (may Allah be pleased with them) to recite eleven rak'ahs to the people (at night in Ramadan). (Mawta Imam Malik 1/114 AH 229, Sunan Al-Kubra for Bayhaqi 1/293 and Al-Nimawi Al-Hanafi
"Certificates are valid"
آther السنن: ص 350)
It turned out that the number of Taraweeh is only 11 rak'ats (3 + 8).
It should be noted that it is better to perform Taraweeh prayers with the Imam throughout the month of Ramadan. See Sunan al-Tirmidhi (806).Non-Ahlul-Hadeeth and the eight Taraweehs: *
The Akbaris of non-Ahlul-Hadeeth have also accepted eight rak'ats of Taraweeh.
Khalil Ahmed Saharanpuri Deobandi writes:
Abdul Shakoor Lucknow Deobandi in his book Alam-ul-Fiqh (p. 198) has eight rak'ahs