Zakat ka nisab

in zakat •  2 years ago 

What is Nisaab
نصاب
Sona chandi aur rupya paisa me us taime zakat farz hota hai jab wo nisaab ko pahunch jaye aur un par mukammal ek saal guzar jaye,

سونے ، چاندی اور روپئے پیسے میں اس وقت زکوۃ فرض ہوتی ہے جب کہ وہ نصاب کو پہنچ جائیں ، اور اور مال نصاب کو پہونچ جانے کے بعد ایک سال تک اتنا مال اس کے پاس رہے,

What is Nissab ?

’’ نصاب ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ مال اتنی مقدار میں ہو جس پر شریعت نے زکوۃ فرض کیا ہے ، اور وہ حسب ذیل ہے :
(۱) چاندی
silver
: چاندی کا نصاب بموجب حدیث رسول 200درہم ہے ، اس دور میں رائج پیمانے کے اعتبار سے ایک درہم کا وزن 2.975گرام بتایا گیا ہے۔
اس حساب سے 200درہم کا وزن (2.975 × 200= ) 595گرام چاندی قرار پائے گا ۔
اب اگر کسی شخص کے پاس 595گرام یا اس سے زائد خالص چاندی ہو اور اس پر سال گزر چکا ہو تو اس پر ڈھائی فیصد یعنی چالیسواں حصہ زکوۃ نکالے گا ۔ مثلا اگر خالص چاندی کا دام بازار میں
000 70(ستر ہزار) روپیہ کیلو ہے تو 595گرام چاندی کا دام (بحساب ایک گرام برابر = / 70 × 595= ) =41650؍روپیہ ہوا ، اور اس پر ڈھائی فیصد یعنی = / 1041؍ روپیہ زکوۃ ہوئی ۔
(۲) سونا : سونے کا نصاب 20؍ دینار یا مثقال ہے ، تحقیق کے مطابق ایک دینار کا وزن 4.25گرام بتایا جاتا ہے، اس حساب سے 20دینار کا وزن (4.25 × 20 = ) 85گرام سونا قرار پائے گا ۔
اب اگر کسی شخص کے پاس 85گرام یا اس سے زائد خالص سونا ہو اور اس پر سال گزر چکا ہو تو اس پر ڈھائی فیصد یعنی چالیسواں حصہ زکوۃ ہوگی ۔
مثال کے طور پر اگر خالص سونے کا دام بازار میں = / 5200 روپیہ فی گرام ہے تو 85گرام سونے کا دام ( بحساب =/5200 × 85 = ) 442000؍روپیہ ہوا ، اب اس پر ڈھائی فیصد یعنی11050؍ روپیہ زکوۃ ہوئی ۔
(۳) کرنسی نوٹ : آج کے دور میں کاروبار اور لین دین وغیرہ میں کرنسی نوٹوں کا رواج عام ہے ، روپیہ ، پونڈ ، ڈالر ، ریال اور بہت ساری کرنسیاں رائج ہیں ، سونے کے دینار اور چاندی کے درہم کے بدل کے طور پر یہ کرنسیاں استعمال ہوتی ہیں، ان کرنسیوں کا سونے یا چاندی کی قیمت سے موازنہ کیا جائے گا ، پس اگر بقدر نصاب ہوں تو بتفصیل مذکور ان کرنسیوں کی بھی زکوۃ نکالی جائے گی ۔

  • تنبیہ* : واضح رہے کہ اس وقت سونا اور چاندی کے دام میں کافی تفاوت ہے ، جیسا کہ اوپر کی مثالوں میں آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ چاندی کا نصاب ( ستر ہزار روپیہ فی کیلو اگر دام ہے تو ) = 41650؍روپیہ ہوتا ہے ، جبکہ سونے کا نصاب ( اگر =/5200؍ روپیہ فی گرام ہے تو ) = / 442000؍روپیہ ہوتا ہے۔
    ایسی صورت میں جمع کردہ روپئے نصاب کو کب پہنچیں گے = /41560؍ پر یا = / 442000؍ پر ؟
    اس سلسلے میں اہل علم کے دونوں طرح کے اقوال ملتے ہیں، کچھ لوگوں نے کاغذی نوٹوں کے نصاب کے سلسلے میں سونے کے نصاب کو اصل قرار دیا ہے ، لیکن اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ چونکہ چاندی کا نصاب متفق علیہ اور ثابت بالسنۃ المشہورۃ ہے اور اس کو اختیار کرنے سے فقیروں اور محتاجوں کی ضروت پوری کرنے میں زیادہ مدد ملے گی ، ساتھ ہی ساتھ احتیاط کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اختلاف اور شک وشبہ سے بچتے ہوئے چاندی کے نصاب کو اصل مانا جائے ، یا وقت اور زمانے کا لحاظ کرتے ہوئے یہ کاغذی نوٹ ، سونے اور چاندی میں سے جس نصاب کو پہلے پہنچ جائیں ان کی زکوۃ نکالی جائے ۔
    (۴) سامان تجارت : تجارتی مقاصد سے جمع کئے ہوئے سامانوں میں بھی نصاب کو پہنچنے اور حولان حول ( سال گزرنے ) پر زکوۃ واجب ہوتی ہے ۔ موجودہ دور میں اس جانب سے بڑی غفلت ہے ، اور عام طور پر دوکاندار حضرات اس طرف توجہ نہیں دیتے ۔
    تجارتی سامانوں کی زکوۃ ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دوکاندار اپنی پونجی کا تخمینہ لگائے اور دوکان یا اور جہاں بھی دوکان کا سامان ہے اس کی قیمت لگائے ، اگریہ قیمت نصاب کو پہنچتی ہے تو سال پورا ہونے پر اس میں ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرے۔
    لہذا ہر دوکاندار کو چاہئے کہ سال میں ایک بار بالتفصیل اپنی دوکان کا حساب کرے اور اپنے پاس موجود سامان تجارت کی مالیت مقرر کرکے اس کو نوٹ کرلے اور پھر سال پورا ہونے کے بعد ( اگر نصاب میں ہے تو ) اس میں ڈھائی فیصد زکوۃ نکالے۔
    دوکانداری کا معاملہ بڑا پُرپیچ ہوتا ہے ۔ نقد ، ادھار ، بقایا اور اس طرح کے دسیوں مسائل در پیش ہوتے ہیں جن کی وجہ سے دوکان کی مالیت کا اندازہ لگانے میں کافی دشواری پیش آتی ہے۔
    مولانا عبد اللہ سعود سلفی ( ناظم جامعہ سلفیہ بنارس ) نے ان مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی عمدہ تحقیق فرمائی ہے اور دوکانداروں کے مسائل کو بڑی حد تک عمل کے لئے آسان بنا دیا ہے، ذیل میں ان کی تحریر ملاحظہ فرمائیں :
    ’’ تجارت میں اپنی اصل پونجی یا سرمایہ پر ہی زکوۃ ہے ، آج کل کاروبار ادھار لین دین پر بھی چلتا ہے، جس کی وجہ سے دوسرے کی رقم بھی اپنے سرمایہ کے ساتھ کاروبار میں لگی ہوتی ہے ، اس کو الگ کرنے کے بعد جو اپنی خاص اصل رقم ہو اسی پر زکوۃ ہے۔
    مثلا : آپ نے کچھ روپئے سے کاروبار شروع کیا ، اس سے کچھ مال خریدا اور کچھ ادھار لیا ، اور گاہک کو مال بیچ دیا، گاہک سے آپ کو کچھ پیمنٹ ملا اس سے پھر مال خریدا اور پھر کسی کو بیچا ، اس طرح سے کاروبار چلتا ہے ، ایک سال بعد جب زکوۃ نکالنے کا وقت آیا تو اب مسئلہ پیدا ہوا کہ کتنی زکوۃ ہونی چاہئے ، اور اس کو کیسے نکالا جائے۔
    تو آیئے ذرا جوڑا جائے ، مندرجہ ذیل باتیں دھیان میں رکھنی ہوںگی ۔
    (۱) آپ کے پاس کچھ اسٹاک ہے ۔ مثلا :(اس کی قیمت ہے ) Rs.10,000/-
    (۲) گاہک کو مال بیچا ہے اس کا پیسہ ابھی ملنا باقی ہے مثلا: Rs.1,70,000/-
    (۳) دوسرے سے مال خریدا ہے اس کو پیسہ دینا باقی ہے مثلا :Rs.1,00,000/-
    (۴) آپ کے پاس کچھ نقد موجود ہے ۔ مثلا : Rs.2000/-
    (۵) کچھ بینک بیلنس ہے مثلا : Rs.10,000/-
    (۶) کچھ پیمنٹ میں ملی چک ہے جس کا وقت ابھی نہیں آیا ہے ۔ مثلا : Rs.25000/-
    (۷) کچھ رقم کسی کو ادھار دی ہے جو ملنی باقی ہے، مثلا : Rs.5000/-
    (۸) کچھ مال خراب ہو گیا اس کے بکنے کی امید نہیں مثلا : Rs.30000/-
    (۹) کچھ مال خراب ہو گیا ہے جو کم دام میں بکے گا ، مثلا : Rs.1000/-
    چار ہزار کا 25% میں
    (۱۰) کچھ گاہک بے ایمان ہو گئے ،رقم ڈوبنے کا خطرہ ہے ، مثلا : Rs.10,000/-
    (۱۱) کچھ دوسرے کی رقم بھی اپنے کاروبار میں لگا رکھی ہے،مثلا : Rs.40,000/-
    (۱۲) کچھ اپنی رقم دوسری جگہ بھی انوسٹ کررکھا ہے،مثلا : Rs.30,000/-
    مندرجہ بالا تمام کاروباری چیزوں کو اور نقد وغیرہ کو دو حصہ میں بانٹا جائے گا ، ایک لینا یعنی جو ہم کو ملنا ہے یا ہمارا ہے ۔ دوسرا دینا جو دوسرے کا ہے یا ملنے کی امید نہیں ۔ آگے مذکورہ سیریل نمبر کے مطابق لکھ رہا ہوں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو ۔

دینـــــــا

(3) دوسرے کا دینا : 100,000/-
(8) ڈیڈ اسٹاک : نہیں بکے گا : 30,000/-
(10) گاہک کے یہاں پھنس گیا : 10,000/-
(11) دوسرے کی رقم جو
اپنے کاروبار میں لگی ہے : 40,000/-
ٹوٹل دینا : 1,80,000/-

لینا:

(1) اسٹاک: 10,000
(2)گراہک سے لینا: 1,70,000
(4)نقد موجود: 2,000
(5)بینک بیلنس: 10,000
(6)پوسٹ ڈیٹیڈ چک: 25,000
(7)رقم ادھار دی ہے5,000 :
(9)چار ہزار روپئے کا خراب مال جو چوتھائی میں بکے گا: 1,000
(12)رقم جو دوسری جگہ لگی ہے: 30,000
ٹوٹل لینا:2,53,000
دینا کی رقم کم کیا:(-) 1,80,000
کل اپنی رقم ہوئی:73,000
جس پر ڈھائی فی صد یعنی 1825؍روپئے زکاۃ ہوئی۔
جو رقم گاہک کے یہاں پھنس گئی ہے اگر دو تین سال بعد مل جائے تو اس سال کی زکوٰۃ نکالتے وقت اس کو اپنے سرمایہ میں شامل کر کے اسی سال کی زکوٰۃ دیں گے ، وقفہ کے سال کی زکوٰۃ نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ہمارے اختیار میں نہیں تھی" (انتہی)

مصارف زکوۃ:

زکوۃ کن کن لوگوں کو دی جائے گی اس کو قرآن میں صراحت سے بیان کر دیا گیا ہے ، سورۂ توبہ کی آیت نمبر ۶۰ میں کہا گیا ہے : ’’ صدقات ( زکوۃ ) (۱) فقیروں کے لئے ہے ، (۲) مسکینوں کے لئے ہے اور ( ۳) ان لوگوں کے لئے ہے جو زکوۃ کی بابت کام کرتے ہیں ( مثلا وصول کرنا ، اسے لکھنا پڑھنا یا اس کی حفاظت وتقسیم وغیرہ کا کام ) اور ( ۴) ان لوگوں کے لئے جن کے دل کو ڈھارس بندھانی ہو ( مثلا نو مسلم یا وہ کافر جس کو اسلام کی طرف مائل کرنا مقصود ہو ) اور ( زکوۃ صرف کی جائے گی (۵) گردن آزاد کرانے میں ، اور ( ۶) قرض دار کے قرض ادا کرانے میں ، اور (۷) اللہ کے راستہ میں ، اور (۸) مسافر (کی مصیبت دور کرنے ) کے لئے ۔ یہ اللہ کی طرف سے باندھا ہوا فریضہ ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ ( سورہ توبہ ، آیت نمبر : ۶۰ )
مصارف زکوۃ کے سلسلے میں چند امور قابل توجہ ہیں :
۱ - زکوۃ کے اولین حقدار وہیں کے لوگ ہیں جہاں کی زکوۃ ہے ، البتہ اگر وہاں کی ضرورت سے زائد ہو یا یہ کہ دوسری جگہ کے لوگوں کو کوئی سخت ضرورت پیش آجائے مثلا قحط سالی اور بھک مری وغیرہ تو ایسی صورت میں اسے ان دوسرے علاقوں میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔
۲ - اپنے اعزہ واقرباء اگر زکوۃ کے مستحق ہیں تو صدقہ ، خیرات وزکوۃ میں سب سے پہلے ان ہی کا حق ہے اور اس طرح صدقہ کرنے والوں کو دوہرے ثواب کی بشارت دی گئی ہے ایک صدقہ کا ثواب دوسرے صلہ رحمی کا۔
۳ - البتہ زکوۃ ان رشتہ داروں کو نہیں دے سکتے جن کی کفالت کی ذمہ داری خود زکوۃ دینے والے پر ہے جیسے اولاد ، بیوی ، والدین۔
۴ - غیر مسلم کو زکوۃ کا مال نہیں دیا جائے گا الا یہ کہ وہ ’’ مؤلفۃ القلوب ‘‘ میں سے ہو یعنی اسے اسلام کی طرف راغب کرنا ہو۔
۵ - اگر شوہر فقیر ہو تو بیوی اپنے مال کی زکوۃ شوہر کو دے سکتی ہے۔
۶ - اگر کسی شخص نے کسی آدمی کو مستحق سمجھ کر زکوۃ دے دیا اور اسے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مستحق نہیں تھا تو وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہو گیا ، البتہ زکوۃ دینے سے پہلے معلومات کرلینی چاہیے۔
۷ - اگر کسی مسلمان کا کسی غریب شخص پر قرض ہو تو یہ جائز نہیں کہ اسے زکوۃ میں شمار کرکے اسے قرض سے بری کردے۔

قرض
اگر کسی شخص کا مال دوسروں کے پاس بطور قرض کے ہو خواہ وہ نقد ہو یا سامان تجارت کی شکل میں ، تو ایسا شخص اپنے پاس موجودہ مال کی زکوۃ نکالتے وقت دیکھے گا کہ دوسروں کے ذمہ اس کا جو قرض ہے اس کے ملنے کی امید ہے یا نہیں۔ اگر امید ہو تو اس قرض کو شمار کرکے اپنے پاس موجودہ مال یا سامان تجارت میں شامل کرلے گا اور کل کی زکوۃ نکالے گا ۔
لیکن اگر اس کا قرض ایسی جگہ ہے جہاں سے ملنے کی امید کم ہے مثلا ایسے شخص کے یہاں ہے جو اس کا انکار کر رہا ہے ، یا انکار نہیں کر رہا ہے مگر اس قدر مفلوک الحال ہے کہ اس سے قرض ادا کرنے کی توقع نہیں ہے تو ایسے قرض کی زکوۃ اس روز ادا کرے گا جب وہ اس کے ہاتھ میں آجائے اور کئی سال کے بعد ملنے پر بھی صرف ایک سال کی زکوۃ ادا کرے گا ۔واللہ اعلم
٭٭٭

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!
Sort Order:  
  ·  2 years ago  ·  


** Your post has been upvoted (1.95 %) **

Thank you 🙂 @tomoyan
https://blurtblock.herokuapp.com/blurt/upvote