سخت محنت کا پھل
دو دوست علی اور اسلم ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ علی بہت مذہبی تھا اور خدا کو بہت سمجھتا تھا۔ جبکہ اسلم بہت محنتی تھا۔ ایک بار دونوں نے مل کر ایک بیکار زمین خریدی۔ جس پر وہ اپنی فصل کاشت کرکے اپنا گھر بنانا چاہتا تھا۔
اسلم کھیت میں بہت محنت کرتا تھا لیکن علی نے کچھ نہیں کیا اور صرف خدا سے اچھی فصل کی دعا کی۔ اسی طرح ، وقت گزرتا گیا۔ کچھ دیر کے بعد، کھیت کی فصل پک کر تیار ہوگئی۔
فصل کو بازار لے جاکر بیچ دیا گیا اور انھیں اچھی رقم ملی۔ گھر آتے ہی اسلم نے علی سے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ رقم مل جائے گی کیونکہ میں نے کھیتوں میں زیادہ محنت کی ہے۔
یہ سن کر علی نے یہ کہا کہ مجھے آپ سے زیادہ رقم ملنا چاہئے کیونکہ میں نے خدا سے دعا کی تبھی ہمیں اچھی فصل حاصل ہوئی۔ خدا کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔ جب یہ دونوں اس مسئلے کو حل نہیں کرسکے تو دونوں ہی رقم بانٹنے کے لئے گاؤں کے سردار کے پاس چلے گئے۔
سردار نے ان دونوں کی ساری باتیں سن کر ان میں سے ہر ایک کو چاول کا ایک تھیلی دیا جس میں کنکر ملا دیئے گئے تھے۔ سردار نے کہا کہ کل صبح تک آپ دونوں کو اس سے چاول اور کنکر الگ کرنا پڑے گا اور پھر میں فیصلہ کروں گا کہ اس رقم سے زیادہ کس کو ملے گا۔
وہ دونوں چاول کی بوری لے کر اپنے گھر گئے۔ اسلم رات بھر جاگتا رہا اور چاول اور کنکر الگ کرتا رہا۔ لیکن علی چاول کی بوری لے کر مسجد میں گیا اور کنکروں کو چاول سے الگ کرنے کے لئے خدا سے دعا کرتا رہا۔
اگلے دن ، اسلم نے جتنا چاول اور کنکر الگ کیا تھا، لے کر سردار کے پاس گیا۔ یہ دیکھ کر چیف خوش ہوا۔ علی وسی کی وسی بوری لے کر سردار کے پاس آگیا۔
سردار نے علی سے کہا کہ آپ اسے دکھائیں کہ آپ نے کتنے چاول صاف کیے ہیں؟ علی نے کہا کہ مجھے خدا پر پورا پورا بھروسہ ہے کہ تمام چاول صاف ہوچکے ہوں گے۔ جب بوری کھولی گئی تو چاول اور کنکر ایک جیسے تھے۔
سردار نے علی سے کہا کہ خدا تب ہی مدد کرتا ہے جب آپ سخت محنت کریں۔ زمیندار نے اس رقم کا ایک بڑا حصہ اسلم کو دیا۔ اس کے بعد علی نے بھی اسلم کی طرح کھیت میں سخت محنت کرنا شروع کی اور اس بار اس کی فصل پہلے کی نسبت بہتر رہی۔
کہانی کا اخلاقی سبق
ہم اس کہانی سے یہ سیکھتے ہیں کہ خدا بھی ان کی مدد کرتا ہے جو محنت کرتے ہیں