!السلام علیکم دوستو
امید کرتا ہوں کہ آپ حضرات بخیر و عافیت ہوں گے
میں محمد عالم حاضر ہو گیا ہوں اور ایک سلگتا موضوع لیکر
مجھے یقین ہے کہ آپ کو گذشتہ مضامین پسند آئے ہوں گے
زکاۃ کے ٹکڑے اور ہم
آج کل یہ عام طور پر دیکھنے کو ملتا ہے ہر ہر محلے ہر ہر گاؤں ہر ہر قصبے میں رمضان کے شروع ہوتے ہی محصل زکوۃ کی جماعت گردش کرنے لگتی ہے اور ہم ان سبھی کو اپنے زکوۃ کی رقم کو انتہائی ٹکڑے ٹکڑے میں بانٹ کر دینا شروع کر دیتے ہیں۔ مانگنے والا جن میں بعض تو واقعی مستحق زکوۃ ہوتا ہے جبکہ بعض اس کا مستحق بھی نہیں ہوتا اور ہم انہیں اپنی زکوۃ کی رقم دے دیتے ہیں۔ ہم جب تصدیق کرتے ہیں تو بعض واقعی درست ہوتا اور تصدیق کرنے سے ان کی دل آزاری بھی ہو جاتی ہے تو وہیں بعض غیر مستحقین جن سے ہم دل آزاری کے خوف سے تصدیق بھی نہیں کرنا چاہتے اور وہ اس کا فائدہ اٹھا کر ہماری زکوۃ کی رقم حاصل کر لیتا ہے۔ اب سوال یہ بنتا ہے کہ ہر سال اربوں روپے زکوۃ میں نکالنے کے باوجود بھی ہم ترقی کیوں نہیں کر پاتے ؟ غرباء ہمیشہ غریب ہی کیوں رہ جاتے ہیں؟ اربوں روپے نکالنے کے باوجود بھی ہم تعلیمی شرح میں ہمیشہ پیچھے کیوں رہ جاتے ہیں؟ ترقی ہمارا مستقبل کیوں نہیں بن پاتی ہے؟ کیا ہم صرف اسی لئے زکواۃ کی ادائیگی کرتے ہیں کہ ہمیں ہر سال سبھوں کو ٹکروں میں زکوٰۃ ادا کر مستحقین کو تا حیات ہم مستحقین ہی بنائے رکھیں؟
ہم اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ہر گلی محلے شہر قصبے میں ایسے متعدد گھرانےہیں جو اکیلے یا دو چار دس لوگوں کے صرف زکوٰۃ کی رقوم سے چھوٹے موٹے ادارے چلا سکتے ہیں اور ہر جگہ ایسے متعدد چھوٹے موٹےادارے قائم بھی ہیں لیکن ان اداروں کی امداد بھی ہم نہایت چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں کرتے ہیں کیونکہ ہمیں اور بھی ادارے کو اپنی زکواۃ کی رقم دے کر ان کی رسید حاصل کرنی ہوتی ہے۔ وہیں ان چھوٹے اداروں کا حال بھی کسی سے چھپا نہیں یہ ایسے ادارے ہوتے ہیں جہاں ہم دوسروں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے مشورے تو دیتے ہیں لیکن جب بات اپنے بچوں کی تعلیم کی ہو تو ہم معیاری ادارے کی تلاش کرتے ہیں گر کوئی غلطی سے ان چھوٹے اداروں میں داخلے کا مشورہ بھی دیتا ہے تو ہم اسے ایسی کھڑی کھوٹی سناتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔ میرا بچہ یہیں پڑھے گا؟ میں اپنے بچوں کی تعلیم اعلیٰ اداروں سے کراؤں گا کہ ایسے ادارے سے کراؤں گا، فقیر سمجھ رکھا ہے کیا؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ نا جانے کتنے ہی تعصبانہ جملے سے ہم سامنے والے سے مخاطب ہوتے ہیں۔
تو میرا سوال آپ سے ہے کہ اگر یہ چھوٹے ادارے اتنے ہی نا اہل ہیں تو پھر اس کے قائم کرنے کی ضرورت ہی کیوں؟ اگر ضرورت ہے تو یہاں معیاری تعلیم پر توجہ کیوں نہیں؟ اور اگر معیاری تعلیم بھی ہے تو انہیں اعلیٰ ادارے کی طرف گامزن کیوں نہیں کیا جاتا؟ اور اگر ہمیشہ اسی منہج پر قائم رکھنا ہے تو چونکہ چھوٹے ادارے ہیں ان کے اخراجات بھی کم ہیں تو محلے و مضافات کے چند رؤسا و مخیر حضرات اپنے زکوۃ کی رقم سے اس ادارے کے خرچ کی ذمہ داری کیوں نہیں لیتے؟ کیوں ٹکڑے ٹکڑے میں اپنی رقوم خرچ کر کے ان چھوٹے سے اداروں کو بھی دور دراز اور در در زکواۃ کے لئے سفر کراتے ہیں؟
کیا ہم اپنی رقم یکمشت خرچ کر کے یا چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر چند بچوں کی ، چھوٹے موٹے ادارے کی مکمل ذمہ داری اپنے سر لے کر انہیں تعلیم و ترقی کے اس عروج پر نہیں پہونچا سکتے کہ کل کو انہیں زکوۃ پر پلنے اور زکوۃ مانگنے کی ضرورت نہ پڑے بلکہ وہ بھی ہماری اور آپ کی طرح اپنی زکوۃ ادا کرنے کے اہل ہو جائیں۔ ہزاروں بچے ایسے ہوتے ہیں جو مالی اسباب کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیمی سفر کو ادھورا چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کیا ان کی اس نا مکمل تعلیم کے ذمہ دار ہم اور آپ نہیں ہیں؟
بڑے بڑے ادارے تو جب ایک بار ترقی کی راہ ہموار کر لیتے ہیں تو پھر الحمد للہ تنزلی کی طرف نہیں آتے کیونکہ ان کے پھر مختلف و متعدد مضبوط ذرائع بن چکے ہوتے ہیں کہ بحر حال مالی کمی کے شکار تو نہیں ہونے پائیں۔
تو ہم کیوں نہ اپنے چھوٹے اداروں کو اس راہ پر گامزن کریں اور اپنی زکوۃ کی رقوم کو ٹکڑے ٹکڑے میں چھینٹنے سے بہتر کسی ایسی جگہ صرف کریں کہ ہر سال کسی کی ترقی، کسی کی غربت سے مالی فراہمی، کسی کی معاشی زندگی کا آغاز، کسی کی خوشگوار ازدواجی زندگی کی شروعات، کسی کی مرض سے مکمل شفاء یابی کے لئے مالی فراہمی، کسی کی تعلیمی رکاوٹ کی دوری ہماری زکوۃ کی رقم سے ہو جائے۔ اگر ہماری خود کی رقم اس قدر نہیں ہے تو دو چار دس لوگ مل کر ایک مشن کی تکمیل میں اپنا رقم صرف کریں۔ ان شاءاللہ تنگی بھی دور ہوگی، اور مسلمانوں کی شرح تعلیم و شرح ترقی میں بھی اضافہ ہوگا۔