السلام علیکم میرے پیارے ساتھیو اور دوستو
میرے بلاغ میں آپ سبھی حضرات کا دل و جان سے خیر مقدم ہے
امید کرتا ہوں کہ آپ سب خیر و عافیت سے ہوں گے
تو آئیے بلا کسی تاخیر شروع کرتے ہیں آج کے ٹاپک (موضوع) کو:
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ۛ فِيْهِ ۛ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ ۞
ترجمہ:
"یہ الکتاب ہے اس میں کچھ شک نہیں ۔ ہدایت ہے پرہیزگار لوگوں کے لیے" ۔
✍🏻 تفسیر:
ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْه ” یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ “
آیت کے اس ٹکڑے کے دو ترجمے ہوسکتے ہیں۔ پہلے ترجمے کی رو سے یہ ہے وہ کتاب موعود جس کی خبر دی گئی تھی کہ نبی آخر الزماں آئیں گے اور ان کو ہم ایک کتاب دیں گے۔ یہ گویا حوالہ ہے محمد رسول اللّٰــــــــــــــــہ ﷺ کے بارے میں پیشین گوئیوں کی طرف کہ جو تورات میں موجود تھیں۔ آج بھی ” کتاب مقدس “ کی کتاب استثناء Deuteronomy کے اٹھارہویں باب کی اٹھارہویں آیت کے اندر یہ الفاظ موجود ہیں کہ : ” میں ان بنی اسرائیل کے لیے ان کے بھائیوں بنی اسماعیل میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا “۔ تو یہ بائبل میں حضرت محمدﷺ کی پیشین گوئیاں تھیں۔ آگے چل کر سورة الاعراف میں ہم اسے تفصیل سے پڑھ بھی لیں گے۔ یہاں اس بات کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ یہی وہ کتاب موعود ہے کہ جو نازل کردی گئی ہے محمد رسول اللّٰــــــــــــــــہ ﷺ پر۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں ہر شے اپنی جگہ پر یقینی ہے ‘ حتمی ہے ‘ اٹل ہے ‘ اور یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو یہ دعویٰ لے کر اٹھی ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ جو کتابیں آسمانی کہلائی جاتی ہیں ان کے اندر بھی یہ دعویٰ کہیں موجود نہیں ہے ‘ انسانی کتابوں میں تو اس کا سوال ہی نہیں ہے۔
پہلے ترجمہ کی رو سے ” ذٰلِکَ الْکِتٰبُ “ ایک جملہ مکمل ہوگیا اور ” لَا رَیْبَ فِیْہِ “ دوسرا جملہ ہے۔ جبکہ دوسرے ترجمہ کی رو سے ” ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ “ مکمل جملہ ہے۔ یعنی ” یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔
📕 “ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ”
یعنی ان لوگوں کے لیے جو بچنا چاہیں۔ تقویٰ کا لفظی معنی ہے بچنا۔ ” وَقٰی۔ یَقِی “ کا مفہوم ہے ” کسی کو بچانا “ جبکہ تقویٰ کا معنی ہے خود بچنا۔ یعنی کج روی سے بچنا ‘ غلط روی سے بچنا اور افراط وتفریط کے دھکوں سے بچنا۔ جن لوگوں کے اندر فطرت سلیمہ ہوتی ہے ان کے اندر یہ اخلاقی حس موجود ہوتی ہے کہ وہ بھلائی کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ہر بری چیز سے بچنا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو قرآن مجید کے اصل مخاطبین ہیں۔ گویا جس کے اندر بھی بچنے کی خواہش ہے اس کے لیے یہ کتاب ہدایت ہے۔
سورة الفاتحہ میں ہماری فطرت کی ترجمانی کی گئی تھی اور ہم سے یہ کہلوایا گیا تھا : اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ” اے پروردگار ! ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت بخش “۔ آیت زیر مطالعہ گویا اس کا جواب ہے : ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ لو وہ کتاب موجود ہے کہ جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہ ان تمام لوگوں کے لیے ہدایت کے تقاضوں کے اعتبار سے کفایت کرتی ہے جن میں غلط روی سے بچنے کی خواہش موجود ہے۔
وہ لوگ کون ہیں ؟ اب یہاں دیکھئے تاویل خاص کا معاملہ آجائے گا کہ اس وقت رسول اللہ کی تیرہ برس کی محنت کے نتیجہ میں مہاجرین و انصار کی ایک جماعت وجود میں آگئی تھی ‘ جس میں حضرات ابوبکر ‘ عمر ‘ عثمان ‘ علی ‘ طلحہ ‘ زبیر ‘ سعد بن عبادہ اور سعد ابن معاذ جیسے نفوس قدسیہ شامل تھے۔ تو گویا اشارہ کر کے دکھایا جا رہا ہے کہ دیکھو یہ وہ لوگ ہیں ‘ دیکھ لو ان میں کیا اوصاف ہیں۔
📕 الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ ۞
ترجمہ:
"جو ایمان رکھتے ہیں غیب پر اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں" ۔
✍🏻 تفسیر:
آیت ٣ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بالْغَیْبِ
یہ متقین کے اوصاف میں سے پہلا وصف ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ بس جو کچھ ہماری آنکھوں سے نظر آ رہا ہے ‘ حواس خمسہ کی زد میں ہے بس وہی کل حقیقت ہے۔ نہیں ! اصل حقیقت تو ہمارے حواس کی سرحدوں سے بہت پرے واقع ہوئی ہے۔
کنفیوشس ٥٥١ تا ٤٧٩ ق م چین کا بہت بڑا حکیم اور فلسفی تھا ‘ اس کی تعلیمات میں اخلاقی رنگ بہت نمایاں ہے۔ اس کا ایک جملہ ہے :
There is nothing more real than what can not be seen ; and there is nothing more certain than what can not be heard.
یعنی وہ حقائق جو آنکھوں سے دیکھے نہیں جاسکتے اور کانوں سے سنے نہیں جاسکتے ان سے زیادہ یقینی اور واقعی حقائق کوئی اور نہیں ہیں۔ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ اللّٰــــــــــــــــہ کے ساتھ اپنا ایک ذہنی و قلبی اور روحانی رشتہ استوار کرنے کے لیے نماز قائم کرتے ہیں۔
وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ یعنی خیر میں ‘ بھلائی میں ‘ نیکی میں ‘ لوگوں کی تکالیف دور کرنے میں اور اللّٰــــــــــــــــہ کے دین کی سربلندی کے لیے ‘ اللّٰــــــــــــــــہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
آیت نمبر 4
📕 وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ ۞
ترجمہ:
"اور جو ایمان رکھتے ہیں اس پر بھی جو (اے نبی) آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے اور آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں" ۔
✍🏻 تفسیر:
وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ
وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ
” اور اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آپ ﷺ سے پہلے نازل کیا گیا۔ “
یہ بہت اہم الفاظ ہیں۔ عام طور پر آج کل ہمارے ہاں یہ خیال پھیلا ہوا ہے کہ سابقہ آسمانی کتب تورات اور انجیل وغیرہ کے پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ‘ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ ” کوئی ضرورت نہیں “ کی حد تک تو شاید بات صحیح ہو ‘ لیکن ” کوئی فائدہ نہیں “ والی بات بالکل غلط ہے۔ دیکھئے قرآن کے آغاز ہی میں کس قدر اہتمام کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ ایمان صرف قرآن پر ہی نہیں ‘ اس پر بھی ضروری ہے جو اس سے پہلے نازل کیا گیا۔ سورة النساء کوئی چھ ہجری میں جا کر نازل ہوئی ہے ‘ اور اس کی آیت ١٣٦ کے الفاظ ملاحظہ کیجیے :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا باللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ
” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! ایمان لاؤ اللّٰــــــــــــــــہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللّٰــــــــــــــــہ نے اپنے رسول اکرم ﷺ پر نازل کی ہے اور ہر اس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کرچکا ہے۔ “
چنانچہ تورات ‘ انجیل ‘ زبور اور صحفِ ابراہیم علیہ السلام پر اجمالی ایمان کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ البتہ چونکہ ہم سمجھتے ہیں اور مانتے ہیں کہ ان کتابوں میں تحریف ہوگئی ہے لہٰذا ان کتابوں کی کوئی شے قرآن پر حجت نہیں ہوگی۔ جو چیز قرآن سے ٹکرائے گی ہم اس کو ردّ کردیں گے اور ان کتابوں کی کسی شے کو دلیل کے طور پر نہیں لائیں گے۔ لیکن جہاں قرآن مجید کی کسی بات کی نفی نہ ہو رہی ہو وہاں ان سے استفادہ میں کوئی حرج نہیں۔ بہت سے حقائق ایسے ہیں جو ہمیں ان کتابوں ہی سے ملتے ہیں۔ مثلاً انبیاء علیہ السلام کے درمیان زمانی ترتیب Chronological Order ہمیں تورات سے ملتی ہے ‘ جو قرآن میں نہیں ہے۔ قرآن میں کبھی حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر بعد میں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پہلے آجاتا ہے۔ یہاں تو کسی اور پہلو سے ترتیب آتی ہے ‘ لیکن تورات میں ہمیں حضرات ابراہیم ‘ اسحاق ‘ یعقوب ‘ انبیاء بنی اسرائیل موسیٰ اور عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام کی تاریخ ملتی ہے۔ اس اعتبار سے سابقہ کتب سماویہ کی اہمیت پیش نظر رہنی چاہیے۔
وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ
یہاں نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ باقی سب چیزوں کے لیے تو لفظ ایمان آیا ہے جبکہ آخرت کے لیے ” ایقان “ آیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کے عمل کے اعتبار سے سب سے زیادہ مؤثرّ شے ایمان بالآخرۃ ہے۔ اگر انسان کو یہ یقین ہے کہ آخرت کی زندگی میں مجھے اللّٰــــــــــــــــہ کے حضور حاضر ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے تو اس کا عمل صحیح ہوگا۔ لیکن اگر اس یقین میں کمی واقع ہوگئی تو توحید بھی محض ایک عقیدہ Dogma بن کر رہ جائے گی اور ایمان بالرسالت بھی بدعات کو جنم دے گا۔ پھر ایمان بالرسالت کے مظاہر یہ رہ جائیں گے کہ بس عید میلاد النبی ﷺ منا لیجیے اور نعتیہ اشعار کہہ دیجیے ‘ اللہ اللہ خیر صلا۔ انسان کا عمل تو آخرت کے یقین کے ساتھ درست ہوتا ہے۔ّ
وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ کے الفاظ میں یہ مفہوم بھی ہے کہ ” آخرت پر انہی کا یقین ہے “۔ یہاں گویا حصر بھی ہے۔ اس اعتبار سے کہ یہودی بھیّ مدعی تھے کہ ہم آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں تضاد contrast دکھایا جا رہا ہے کہ آخرت پر یقین رکھنے والے تو یہ لوگ ہیں ! تاویل خاص کے اعتبار سے یہ کہا جائے گا کہ یہ لوگ تمہاری نگاہوں کے سامنے موجود ہیں جو محمد رسول اللّٰــــــــــــــــہ ﷺ کی تیرہ برس کی کمائی ہیں۔ جو انقلاب نبوی ﷺ کے اساسی منہاج یعنی تلاوت آیات ‘ تزکیہ اور تعلیم کتاب و حکمت کا نتیجہ ہیں۔
🤲🏻 بارک اللّٰــــــــــــــــه لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم