سورہ البقرۃ، آیات 61 اور 62 کی تفسیر

in urdu •  last year 

السلام علیکم میرے دوستو اور ساتھیو
امید کہ آپ تمام احباب خیر و عافیت سے ہوں گے
میرے بلاغ میں آپ سبھی کا خیر مقدم ہے
مزید کسی تاخیر کے شروع کرتے ہیں آج موضوع کو


20230309_161756.jpg

أعُــــــــوْذُ بِاْلـــلّٰـــــهِ مِـــنَ الْشَّـــــیْـطٰــنِ الْــــــرّجِـــیْمْ

بِسْـــــمِ اْلـــلّٰـــــهِ اْلْــــــرَّحْمٰنِ اْلْــــــرَّحِـــیْمْ

وَاِذۡ قُلۡتُمۡ يٰمُوۡسٰى لَنۡ نَّصۡبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادۡعُ لَنَا رَبَّكَ يُخۡرِجۡ لَنَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ مِنۡۢ بَقۡلِهَا وَقِثَّـآئِهَا وَفُوۡمِهَا وَعَدَسِهَا وَ بَصَلِهَا‌ؕ قَالَ اَتَسۡتَبۡدِلُوۡنَ الَّذِىۡ هُوَ اَدۡنٰى بِالَّذِىۡ هُوَ خَيۡرٌ‌ؕ اِهۡبِطُوۡا مِصۡرًا فَاِنَّ لَـکُمۡ مَّا سَاَلۡتُمۡ‌ؕ وَضُرِبَتۡ عَلَيۡهِمُ الذِّلَّةُ وَالۡمَسۡکَنَةُ وَبَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ‌ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمۡ كَانُوۡا يَكۡفُرُوۡنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقۡتُلُوۡنَ النَّبِيّٖنَ بِغَيۡرِ الۡحَـقِّ‌ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّڪَانُوۡا يَعۡتَدُوۡنَ۞ ؏

ترجمہ:
"اور یاد کرو جب کہ تم نے کہا تھا اے موسیٰ ! ہم ایک ہی کھانے پر صبر نہیں کرسکتے تو ذرا اپنے رب سے ہمارے لیے دعا کرو کہ نکالے ہمارے لیے اس سے کہ جو زمین اگاتی ہے اس کی ترکاریاں اور ککڑیاں اور لہسن اور مسور اور پیاز۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کیا : تم وہ شے لینا چاہتے ہو جو کم تر ہے اس کے بدلے میں جو بہتر ہے ؟ اترو کسی شہر میں تو تم کو مل جائے گا جو کچھ تم مانگتے ہو۔ اور ان پر ذلتّ و خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی گئی۔ اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے۔ یہ اس لیے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے رہے اور اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے۔ اور یہ اس لیے ہوا کہ وہ نافرمان تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے"۔

✍🏻 تفسیر:
آیت ٦١ وَاِذۡ قُلۡتُمۡ يٰمُوۡسٰى لَنۡ نَّصۡبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ
من وسلویٰ کھا کھا کر اب ہم اکتا گئے ہیں۔

فَادۡعُ لَنَا رَبَّكَ يُخۡرِجۡ لَنَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ
یعنی زمین کی پیداوار میں سے ‘ نباتات ارضی میں سے ہمیں رزق دیا جائے۔

مِنۡۢ بَقۡلِهَا وَقِثَّـآئِهَا
یہ لفظ کھیرے اور ککڑی وغیرہ سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

وَفُوۡمِهَا
فُوم کا ایک ترجمہ گیہوں کیا گیا ہے ‘ لیکن میرے نزدیک زیادہ صحیح ترجمہ لہسن ہے۔ عربی میں اس کے لیے بالعموم لفظ ” ثُوم “ استعمال کیا جاتا ہے۔ لہسن کو فارسی میں توم اور پنجابی ‘ سرائیکی اور سندھی میں ” تھوم “ کہتے ہیں اور یہ فوم اور ثوم ہی کی بدلی ہوئی شکل ہے ‘ اس لیے کہ عربوں کی آمد کے باعث ان کی زبان کے بہت سے الفاظ سندھی اور سرائیکی زبان میں شامل ہوگئے ‘ جو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کافی تعداد میں اب بھی موجود ہیں۔

وَعَدَسِهَا وَ بَصَلِهَا‌ ؕ
اب جو سالن کے چٹخارے ان چیزوں سے بنتے ہیں ان کی زبانیں وہ چٹخارے مانگ رہی تھیں۔ بنی اسرائیل صحرائے سینا میں ایک ہی طرح کی غذا ” مَنّ وسلویٰ “ کھاتے کھاتے اکتا گئے تھے ‘ لہٰذا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہمیں زمین سے اگنے والی چٹخارے دار چیزیں چاہئیں۔

قَالَ اَتَسۡتَبۡدِلُوۡنَ الَّذِىۡ هُوَ اَدۡنٰى بِالَّذِىۡ هُوَ خَيۡرٌ‌ ؕ
مَن وسلویٰ نباتات ارضی سے کہیں بہتر ہے جو اللہ کی طرف سے تمہیں دیا گیا ہے۔ تو اس سے تمہارا جی بھر گیا ہے اور اس کو ہاتھ سے دے کر چاہتے ہو کہ یہ ادنیٰ چیزیں تمہیں ملیں ؟

اِهۡبِطُوۡا مِصۡرًا فَاِنَّ لَـکُمۡ مَّا سَاَلۡتُمۡ‌ ؕ
لفظ ” اِہْبِطُوْا “ پر آیت ٣٨ کے ذیل میں بات ہوچکی ہے کہ اس کا معنی بلندی سے اترنے کا ہے۔ ظاہر بات ہے یہاں یہ لفظ آسمان سے زمین پر اترنے کے لیے نہیں آیا ‘ بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہوگا کہ کسی بستی میں جا کر آباد ہوجاؤ ! settle down somewhere اگر تمہیں زمین کی پیداوار میں سے یہ چیزیں چاہئیں تو کہیں آباد settle ہوجاؤ اور کاشت کاری کرو ‘ یہ ساری چیزیں تمہیں مل جائیں گی۔

وَضُرِبَتۡ عَلَيۡهِمُ الذِّلَّةُ وَالۡمَسۡکَنَةُ وَبَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ‌ ؕ
وہ اللہ کے غضب میں گھرگئے۔

بنی اسرائیل وہ امت تھی جس کے بارے میں فرمایا گیا : وَاَ نِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ البقرۃ اسی امت کا پھر یہ حشر ہوا تو کیوں ہوا ؟ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے ! انہیں کتاب دی گئی تھی کہ اس کی پیروی کریں اور اسے قائم کریں۔

سورة المائدۃ میں فرمایا گیا : 👇🏿

وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ ؕ
{آیت ٦٦}
” اگر یہ اہل کتاب تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کرتے جو ان کی جانب ان کے رب کی طرف سے اتاری گئیں تو کھاتے اپنے اوپر سے اور اپنے قدموں کے نیچے سے۔ “

یعنی ان کے سروں کے اوپر سے بھی نعمتوں کی بارش ہوتی اور زمین بھی ان کے لیے نعمتیں اگلتی۔ لیکن انہوں نے اس کو چھوڑ کر اپنی خواہشات ‘ اپنے نظریات ‘ اپنے خیالات ‘ اپنی عقل اور اپنی مصلحتوں کو مقدمّ کیا ‘ اور اپنے تمرد ‘ اپنی سرکشی اور اپنی حاکمیت کو بالاتر کیا۔ جو قوم دنیا میں اللہ کے قانون ‘ اللہ کی ہدایت اور اللہ کی کتاب کی امین ہوتی ہے وہ اللہ کی نمائندہ representative ہوتی ہے ‘ اور اگر وہ اپنے عمل سے غلط نمائندگی misrepresent کرے تو وہ اللہ کے نزدیک کافروں سے بڑھ کر مغضوب اور مبغوض ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ کافروں کو دین پہنچانا تو اس مسلمان امت کے ذمہّ تھا۔ اگر یہ خود ہی دین سے منحرف ہوگئے تو کسی اور کو کیا دین پہنچائیں گے ؟ آج اس مقام پر موجودہ امت مسلمہ کھڑی ہے کہ تعداد میں سوا ارب یا ڈیڑھ ارب ہونے کے باوجود ان کے حصے میں عزت نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ دنیا کے سارے معاملات G- 7 اور G- 15 ممالک کے ہاتھ میں ہیں۔ سکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان کو ویٹو کا حق حاصل ہے ‘ لیکن کوئی مسلمان ملک نہ تو سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن ہے اور نہ ہی G- 7 ‘ G- 9 یا G- 15 میں شامل ہے۔ گویا ع ” کس نمی پرسد کہ بھیا کیستی ! “ ہماری اپنی پالیسیاں کہیں اور طے ہوتی ہیں ‘ ہمارے اپنے بجٹ کہیں اور بنتے ہیں ‘ ہماری صلح اور جنگ کسی اور کے اشارے سے ریموٹ کنٹرول انداز میں ہوتی ہیں۔ یہ ذلت اور مسکنت ہے جو آج ہم پر تھوپ دی گئی ہے۔ ہم کہتے ہیں کشمیر ہماری شہ رگ ہے ‘ لیکن اس کے لیے جنگ کرنے کو ہم تیار نہیں ہیں۔ یہ خوف نہیں ہے تو کیا ہے ؟ یہ مسکنت نہیں ہے تو کیا ہے ؟ اگر اللہ پر یقین ہے اور اپنے حق پر ہونے کا یقین ہے تو اپنی شہ رگ دشمن کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ہمت کرو۔ لیکن نہیں ‘ ہم میں یہ ہمت موجود نہیں ہے۔ ہمارے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر خبریں آتی رہیں گی کہ قابض بھارتی فوج نے ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں میں اتنے کشمیریوں کو شہید کردیا ‘ اتنی مسلمان عورتوں کی بےحرمتی کردی ‘ لیکن ہم یہاں اپنے اپنے دھندوں میں ‘ اپنے اپنے کاروبار میں ‘ اپنی اپنی ملازمتوں میں اور اپنے اپنے کیریئرز میں مگن ہیں۔ بہرحال متذکرہ بالا الفاظ اگرچہ بنی اسرائیل کے لیے آئے ہیں کہ ان پر ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی مسلطّ کردی گئی ‘ لیکن اس میں آج کی امت مسلمہ کا نقشہ بھی موجود ہے ؂

خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں گفتہ آید در حدیث دیگراں !

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمۡ كَانُوۡا يَكۡفُرُوۡنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقۡتُلُوۡنَ النَّبِيّٖنَ بِغَيۡرِ الۡحَـقِّ‌ ؕ
ہمارے ہاں بھی مجددین امت کو ‘ قتل بھی کیا گیا اور ان میں سے کتنے ہیں جو جیلوں میں ڈالے گئے۔ متعدد صحابہ کرام رضی اللّٰــــــــــــــــہ عنہم اور سینکڑوں تابعین مستبد حکمرانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ ائمۂ دین کو ایسی ایسی مار پڑی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ہاتھی کو بھی ایسی مار پڑے تو وہ برداشت نہ کرسکے۔ امام احمد بن حنبل رح کے ساتھ کیا کچھ ہوا ! امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے جیل میں انتقال کیا اور وہاں سے ان کا جنازہ اٹھا۔ امام دار الہجرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے کندھے کھینچ دیے گئے اور منہ کالا کر کے انہیں اونٹ پر بٹھا کر پھرایا گیا۔ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ ‘ کو پس دیوار زنداں ڈالا گیا۔ سید احمد بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ساتھیوں کو خود مسلمانوں نے شہید کروا دیا۔ ہماری تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ اب نبی تو کوئی نہیں آئے گا۔ ان کے ہاں نبی تھے ‘ ہمارے ہاں مجددین ہیں ‘ علماء حق ہیں۔ انہوں نے جو کچھ انبیاء علیہ السلام کے ساتھ کیا وہی ہم نے مجددین کے ساتھ کیا۔

ذٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّڪَانُوۡا يَعۡتَدُوۡنَ۞
ان کو یہ سزا ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے اور حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے دی گئی۔ اللہ تعالیٰ تو ظالم نہیں ہے نعوذ باللہ ‘ اللہ تعالیٰ نے تو انہیں اونچا مقام دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی ” خیر امت “ قراردیا۔ ہم نے بھی جب اپنا مشن چھوڑ دیا تو ذلت اور مسکنت ہمارا مقدر بن گئی۔ اللہ کا قانون اور اللہ کا عدل بےلاگ ہے۔ یہ سب کے لیے ایک ہے ‘ ہر امت کے لیے الگ الگ نہیں ہے۔ اللہ کی سنت بدلتی نہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کے سبب ان کا جو حشر ہوا آج وہ ہمارا ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں میری کتاب ” سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی ‘ حال اور مستقبل “ کے نام سے موجود ہے ‘ اس کا مطالعہ کیجیے !

اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَالَّذِيۡنَ هَادُوۡا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِئِـيۡنَ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَلَهُمۡ اَجۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ ۞

ترجمہ:
"یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوگئے اور نصرانی اور صابی جو کوئی بھی ایمان لایا (ان میں سے) اللہ پر اور یوم آخر پر اور اس نے اچھے عمل کیے تو ان کے لیے (محفوظ) ہے ان کا اجر ان کے رب کے پاس اور نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ غمگین ہوں گے۔"

✍🏻 تفسیر:
اب وہ آیت آرہی ہے کہ جس سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ نجات اخروی کے لیے ایمان بالرسالت ضروری نہیں ہے۔

اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا
اور اس سے مراد ہے جو ایمان لائےٌ محمد رسول اللہ ﷺ پر۔

وَالَّذِيۡنَ هَادُوۡا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِئِـيۡنَ
صابی وہ لوگ تھے جو عراق کے علاقے میں رہتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ہم دین ابراہیمی پر ہیں۔ لیکن ان کے ہاں بھی بہت کچھ بگڑ گیا تھا۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل بگاڑکا شکار ہوگئی تھی اسی طرح وہ بھی بگڑ گئے تھے اور ان کے ہاں زیادہ تر ستارہ پرستی رواج پاگئی تھی۔

مَنۡ اٰمَنَ بِاللهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَلَهُمۡ اَجۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ ۞
ان لوگوں کو نہ تو کوئی خوف دامن گیر ہوگا اور نہ ہی وہ کسی حزن سے دوچار ہوں گے۔ ظاہر الفاظ کے اعتبار سے دیکھیں تو یہاں ایمان بالرسالت کا ذکر نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے غلط استدلال کرتا ہے تو اس کا پہلا اصولی جواب تو یہ ہے کہ بعض احادیث میں ایسے الفاظ بھی موجود ہیں : مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰــــــــــــــــہ دَخَلَ الْجَنَّۃَ تو کیا اس کے یہ معانی ہیں کہ صرف لا الٰہ الاّ اللہ کہنے سے جنت میں داخل ہوجائیں گے ‘ کسی عمل کی ضرورت نہیں ؟ بلکہ کسی حدیث کا مفہوم اخذ کرنے کے لیے پورے قرآن کو اور پورے ذخیرۂ احادیث کو سامنے رکھنا ہوگا۔ کسی ایک جگہ سے کوئی نتیجہ نکال لینا صحیح نہیں ہے۔ لیکن اس کے علاوہ چھٹے رکوع کے آغاز میں یہ اصولی بات بھی بیان کی جا چکی ہے کہ سورة البقرۃ کا پانچواں رکوع چھٹے رکوع سے شروع ہونے والے سارے مضامین سے ضرب کھا رہا ہے ‘ جس میں ٌ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ پر نازل ہونے والے قرآن پر ایمان لانے کی پرزور دعوت بایں الفاظ موجود ہے :

وَاٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ

” اور ایمان لاؤ اس کتاب پر جو میں نے نازل کی ہے ‘ جو تصدیق کرتے ہوئے آئی ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے ‘ اور تم ہی سب سے پہلے اس کا کفر کرنے والے نہ بن جاؤ۔ “

اب فصاحت اور بلاغت کا یہ تقاضا ہے کہ ایک بات بار بار نہ دہرائی جائے۔ البتہ یہ بات ہر جگہ مقدر understood سمجھی جائے گی۔ اس لیے کہ ساری گفتگو اسی کے حوالے سے ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے اب یوں سمجھئے کہ آیت زیر مطالعہ میں ” فِیْ اَیَّامِھِمْ “ یا ” فِیْ اَزْمِنَتِھِمْ “ اپنے اپنے دور میں کے الفاظ محذوف مانے جائیں گے۔
گویا :

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالنَّصٰرٰی وَالصّٰبِءِیْنَ مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً [ فِیْ اَ یَّامِھِمْ ] فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ۚ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ

یعنی نجات اخروی کے لیے اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے نبی پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ چناچہ جب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں آئے تھے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے جو بھی یہودی موجود تھے ‘ جو اللہ پر ایمان رکھتے تھے ‘ آخرت کو مانتے تھے اور نیک عمل کرتے تھے ان کی نجات ہوجائے گی۔ لیکن جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کے بعد ان علیہ السلام کو نہیں مانا تو اب وہ کافر قرار پائے۔ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام رسولوں پر ایمان نجات اخروی کے لیے کافی تھا ‘ لیکنٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد آپ ﷺ پر ایمان نہ لانے والے کافر قرار پائیں گے۔

آیت زیر مطالعہ میں اصل زور اس بات پر ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ کسی گروہ میں شامل ہونے سے نجات پا جاؤ گے ‘ نجات کسی گروہ میں شامل ہونے کی وجہ سے نہیں ہے ‘ بلکہ نجات کی بنیاد ایمان اور عمل صالح ہے۔ اپنے دور کے رسول پر ایمان لانا تو لازم ہے ‘ لیکن اس کے ساتھ اگر عمل صالح نہیں ہے تو نجات نہیں ہوگی۔ قرآن مجید کے ایک مقام پر آیا ہے : وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ۚ {الاعراف : ٣٤} ” اور ہر امت کے لیے ایک خاص معینّ مدت ہے “۔ ہر امت اس معینہّ مدت ہی کی مکلف ہے۔ ظاہر ہے کہ جو لوگٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے فوت ہوگئے ان پر تو آپ ﷺ پر ایمان لانے کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ بعثت نبوی ﷺ سے قبل ایسے موحدین مکہ مکرمہ میں موجود تھے جو کعبہ کے پردے پکڑ پکڑ کر یہ کہتے تھے کہ اے اللہ ! ہم صرف تیری بندگی کرنا چاہتے ہیں ‘ لیکن جانتے نہیں کہ کیسے کریں۔ حضرت عمر رض کے بہنوئی اور فاطمہ رض بنت خطاب کے شوہر حضرت سعید بن زید رض جو عشرہ مبشرہّ میں سے ہیں کے والد زید کا یہی معاملہ تھا۔ وہ یہ کہتے ہوئے دنیا سے چلے گئے کہ : ” اے اللہ ! میں صرف تیری بندگی کرنا چاہتا ہوں ‘ مگر نہیں جانتا کہ کیسے کروں۔ “

سورۃ الفاتحہ کے مطالعہ کے دوران میں نے کہا تھا کہ ایک سلیم الفطرت اور سلیم العقل انسان توحید تک پہنچ جاتا ہے ‘ آخرت کو پہچان لیتا ہے ‘ لیکن آگے وہ نہیں جانتا کہ اب کیا کرے۔ احکام شریعت کی تفصیل کے لیے وہ ” ربّ العَالَمِین “ اور ” مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ “ کے حضور دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہے کہ : اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اسی صراط ‘ مستقیم کی دعا کا جواب یہ قرآن حکیم ہے ‘ اور اس میں سورة البقرۃ ہی سے احکام شریعت کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے کہ یہ کرو ‘ یہ نہ کرو ‘ یہ فرض ہے ‘ یہ تم پر لازم کیا گیا ہے اور یہ چیزیں حرام کی گئی ہیں۔

بارک اللّٰــــــــــــــــه لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!