سلفیت اور شیرشاہ آبادی ایک جائزہ

in urdu •  last year 

السلام علیکم میرے پیارے ساتھیو اور دوستو
میرے بلاغ میں آپ سبھی حضرات کا دل و جان سے خیر مقدم ہے
امید کرتا ہوں کہ آپ سب خیر و عافیت سے ہوں گے
تو آئیے بلا کسی تاخیر شروع کرتے ہیں آج کے ٹاپک (موضوع) کو:


20230301_220544.jpg

اللہ رب العالمین نے تمام مخلوقات میں انسان کو بالعموم اشرف و اعلیٰ مقام عطا فرمایا،کیونکہ ما بہ الامتیاز کچھ خوبیاں اور خصویات ایسی ہیں جو صرف انسانوں کا خاصہ ہے ۔ اسی لیے انہیں احکامات الٰہی کی سمع و اطاعت کا مکلف بنایا گیا ہے۔ ان کی رشد و ہدایت کے لئے لیے اللہ تعالی نے نے انبیائے کرام کی کی بعثت کا انتظام و انصرام فرمایا۔ نبیوں کی بعثت کا یہ سلسلہ اللہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم مسلم پر اختتام پذیر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا، آپ کی امت خیر امت ہے، جن خصائص و امتیازات کی بنیاد پر اللہ تعالی نے امت مسلمہ کو خیر امت کے لقب سے ملقب کیا تھا ان کو نظر انداز کرنے اور ترک کرنے کے پاداش میں اپنی تاریخ کے چند مراحل طے کرنے کے بعد یہ امت ایک عظیم سیاسی انتشار کا شکار ہو گئی، جس نے آگے چل کر لا متناہی دینی اختلافات کی کی ایک مہیب شکل اختیار کر لی۔ اسباب و عوامل کچھ بھی رہے ہوں لیکن ایک ناقابل انکار تلخ حقیقت ہے کہ خلیفہ سوم ذو النورین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت (جس کو تاریخ اسلامی میں میں فتنہ کبریٰ کے نام سے جانا جاتا ہے) کے بعد نئے افکار و نظریات کے حامل مختلف جماعتیں اور بے شمار فرقے کے نت نئے ناموں کے ساتھ وجود میں آنے شروع ہو گئے تھے۔ جن کا تسلسل ختم ہونے کے بجائے آئے وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا اور تا ہنوز جاری ہے۔نتیجۃً امت آپس میں بری طرح الجھ گئی اور اپنی سیاسی توانائی و صلاحیت کو باہمی تصادم اور ٹکراؤ میں ضائع کر دیا اور کر رہی ہے۔(سلفیت کا تعارف:7، تصرف یسیر کے ساتھ)۔ اور یہ آپسی تصادم حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی صحیح حدیث جس میں نبی آخر الزماں فرماتے ہیں: "سالت ربي ثلاث خصال فأعطاني منهن اثنين ومنعني الثالثة، سألته أن لا يهلكنا بما أهلك الأمم قبلنا، فأعطانيها، وسألته ألا يظهر علينا عدوا، فأعطانيها، وسألته ألا يلقي بيننا سيفاً فمنعنيها"(سنن الترمذي:2175, نسائي:3/216). کی روشنی میں خشیت الہی کی بنا پر نہ گزیر تھا لیکن اس صورت حال میں بھی فرمان نبوی: "لا تزال طائفة من أمتی یقاتلون علی الحق ظاہرین إلی یوم القیامة" کے مصداق ہمیشہ اور ہر دور میں ایک جماعت ایسی رہی ہے جس نے کسی قسم کے خارج اثرات کو قبول کئے بغیر اپنے آپ کو اول سے مضبوط رکھنے کی کوشش کی، کتاب و سنت سے تعلق اور رشتے کو مضبوط رکھتے ہوئے عقیدہ و عمل کو ہر طرح کی آمیزش سے محفوظ رکھا اور اسی جماعت نے بعد میں بطور علامت اور دوسروں سے امتیازی حیثیت حاصل کرنے کی غرض سے لفظ "سلف" کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی نسبت کی۔
محترم قارئین! میں نے اس مختصر مقالہ میں لفظ "سلف" اور اس کی طرف منسوب لفظ "سلفی" و "السلفیت" کا لغوی و اصطلاحی مفہوم واضح کرنے نیز اس کا شرعی حیثیت سے تعارف کرانے کی کوشش کی ہے.
سلف: لغت میں سلف عربی زبان کا ایک کثیر الاستعمال لفظ ہے، جو لغوی اعتبار سے لفظ "سالف" کی جمع ہے اور خود لفظ سلف کی جمع "أسلاف" آتی ہے. سلف يسلف سلفاً و سلوفا کے معنی ہیں گزرنا، آگے ہونا کیا جاتا ہے۔سلف له عمل صالح، اس سے عمل صالح كا صدور پیلہے ہوا، سلف القوم، وہ قوم سے آگے ہو گیا. لسان العرب میں ابن منظور سلف کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: سلف گزرے ہوئے ان آباواجداد اور قربتداروں کو کہا جاتا ہے جو علم و فضل اور عمر میں فوقیت رکھتے ہیں۔(لسان العرب: 9/15). المعجم الوسیط میں بھی سلف کے یہی معنی بیان کئے گئے ہیں، مزید ایک معنی یہی بتلایا گیا ہے کہ ہر وہ عمل صالح جسے انسان پہلے بھیج رکھا ہو(المعجم الوسیط: 1/444). علامہ ابن الاثیر نے سلف کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: "سلف کا اطلاق کسی بھی فرد کے ان کے آباؤ اجداد اور قرابتداروں پر ہوتا ہے جو پہلے وفات پا چکے ہیں۔ اسی لیے تابعین عظام کی جماعت کو "سلف صالح"کہا جاتا ہے.
اس مختصر لغوی تشریح سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ لغت میں سلف کا اطلاق عموماً گزرے ہوئے آباؤ اجداد(پرکھوں) پر ہوتا ہے, خواہ وه نیک ہوں یا بد، اسی وجہ سے بسا اوقات اس کے ساتھ لفظ "صالح" کا بطور صفت اضافہ کیا جاتا ہے تاکہ غیر صالح لوگ اس سے خارج ہوجائیں۔ چنانچہ اسی لفظ سلف کی طرف نسبت کرتے ہوئے "سلفی" مستعمل ہے.
المعجم الوسیط ج 1/444میں "سلفی" اس کو کہا جاتا ہے جو شرعی احکام میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کرتا ہے، ان دونوں کے علاوہ کو حجت نہیں مانتا۔
سلف اصطلاح میں: سلف کے اصطلاحی مفہوم کی تعیین و تحدید میں علماء کے مختلف آراء بیان کی جاتی ہیں، لیکن جملہ تعریفات کا خلاصہ یہی نکلتا ہے کہ یہ سلف کا اطلاق اصطلاح میں صحابہ کرام يا صحابہ کرام وتابعین عظام یا صحابہ و تابعین کے ساتھ تبع تابعین اور ان ائمہ پر ہوتا ہے جن کے علم وفضل، امامت اور اتباع کتاب وسنت کی شہادت دی گئی ہے۔ ذیل میں علماء کی بعض آراء کا ذکر کیا جاتا ہے:
1- سلف سے مراد صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہے، مشہور مغربی عالم ابن ابی زید القیروانی کی کتاب "الرسالہ" کے بیشتر شارحین نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔
2- سلف سے مراد صحابہ کرام اور تابعین عظام ہیں۔ علامہ غزالی صاحب احیاء علوم الدین نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ متکلمین کے مقابلے میں مذہب سلف کی حقانیت اور اس کی برتری کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "مذہب سلف سے میری مراد صحابہ و تابعین کا مذہب ہے"(الجام العوام عن علم الکلام:3)
3- سلف سے مراد صحابہ کرام، تابعین عظام اور اتباع تابعین ہے یعنی اسلام کی ابتدائی تین صدیاں جن کی افضلیت و برتری کی شہادت خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے آپ نے فرمایا: میری امت کا بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے پھر اس کے بعد کا زمانہ ہے، راوی حضرت عمران بن حصین کہتے ہیں مجھے یاد نہیں رہا کہ آپ نے اپنے بعد دو صدیاں ذکر کی یا نہیں۔(صحیح بخاري، فضائل اصحاب النبی: 3650).

علامہ شوکانی وغیرہ بلکہ اکثر اہل علم نے اسی قول کو ترجیح دیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے انداز تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ آپ بھی اسی جانب میلان رکھتے ہیں۔ بعض معاصر محققین نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے، جس کو ابتدائی تین صدیوں کے ساتھ خاص مانا گیا ہے۔ چنانچہ ایک محقق ڈاکٹر جنید لکھتے ہیں (مذکورہ مسئلے میں) قطعی اور صحیح موقف میرے خیال میں یہ ہے کہ سلف کی تحدید میں پہلی تین صدیوں سے ہمیں تجاوز نہیں کرنا چاہیے، متقدمین کے بارے میں خواہ ہم کتنا ہی حسن ظن رکھیں لیکن تیسری صدی ھجری کے بعد رو نما ہونے والے آراء و افکار کو سلفی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ اسلامی سرمایہ کو تیسری صدی کے بعد سے ہی شدید جھٹکے لگے ہیں اور نفس پرستی کا بازار گرم ہوا ہے۔

لیکن بعض دیگر مواقع پر علامہ ابن تیمیہ تبع تابعین کے بعد آنے والے بعض آئمہ مثلاً امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ کو بھی سلف کے مفہوم میں شامل مانا ہے۔ مشہور حنبلی عالم علامہ ابن رجب (م 795ھ) نے بھی امام احمد بن حنبل اور ان کے عہد تک کے آئمہ کرام کو سلف قرار دیا ہے جو بعد کے لوگوں کے لئے قدوہ اور نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام اسحاق بن راھویہ رحمہم اللہ یا ان موصوفین کے عہد تک پائے جانے والے علماء ہی متعین طور پر ایسے قابل اقتدا سلف شمار کیے جا سکتے ہیں جن کے زریں اقوال کو اس زمانہ میں قلم بند کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ ان موصوفین کے بعد بے شمار ناخوشگوار واقعات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اس لیے ہر شخص کو مکمل طور پر محتاط رہنا ضروری ہو گیا ہے۔ (سلفيت کا تعارف: معمولی تصرف کے ساتھ).

اب سوال یہ ہے کہ کیا مفہوم سلف کی تحدید میں زمانہ کا اعتبار کافی ہے؟ قرون مفضلہ سے متعلق وارد عمران بن حصین کی حدیث کو بنیاد بناکر علی الاطلاق پہلی تین صدیوں کو سلف کا نام دیا جاسکتا ہے؟ اور اس دور میں پائے جانے والے تمام افراد کو لائق اتباع اور قابل اقتدا سلف کہا جا سکتا ہے؟

یقیناً بغیر تردّد کے اس کا جواب نفی ہی میں ہوگا، یعنی سلف کا مفہوم متعین کرنے کے لیے محض سبقت زمانی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ کتاب و سنت سے موافقت ضروری ہے۔ لہذا کسی ایسے فرد کو سلف میں شمار نہیں کیا جائے گا جس کی رائے یا مذہب کتاب و سنت سے متصادم یا اس کے مخالف ہو، خواہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا تابعین عظام رحمہم اللہ کے درمیان ہی اس نے زندگی گزاری ہو۔ کیونکہ تاریخ اسلامی کا ادنی علم رکھنے والے ہر صاحب علم کو خوب معلوم ہے کہ قرون مفضلہ میں بھی بہت سے خواہشات نفس کی پیروی کرنے والے بدعتی سرغنہ اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام اور اسلامی تعلیمات کو گزند پہنچانے والے منافقین کا وجود رہا ہے۔ جنہوں نے آئینہ کے مانند اسلام کے صاف شفاف چہرہ کو داغدار بنانے کی کوشش کی۔ لہٰذا ہر پیشوا ہمارے لئے قابل اقتدا نہیں ہو سکتا بلکہ قدوه اور نمونہ وہی سلف صالح ہو سکتے ہیں جو مذکورہ اوصاف کے حامل ہوں گے۔ یعنی تعارف صحابہ کرام، تابعین عظام اور اتباع تابعین جنہوں نے ایسے مبارک عہد میں زندگی گزاری جس کی کی فضیلت و برتری کی شہادت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ اور ساتھ ہی ان آئمہ کو بھی خدوہ و نمونہ کی حیثیت حاصل ہے جن کا کتاب و سنت سے تعلق لوگوں میں معروف اور جن کی امامت و دیانتداری امت کے نزدیک مسلم ہے، جو خود بدعت کے کاموں سے گریز کرتے اور لوگوں کو باز رکھنے کی جدوجہد فرماتے تھے۔ اس بنا پر ہر وہ شخص جو ائمہ مذکورین کے عقائد، فقہ اور اصول کو لازمی طور پر اپناتا ہے اسے آئمہ سلف کی جانب منسوب کیا جائے گا۔ زمانی یا مکانی اعتبار سے کتنی دوری کیوں نہ پائی جاتی ہو۔ اور ہر وہ شخص جو ان کی مخالفت کرتا ہے اسے سلف کی جانب منسوب نہیں کیا جائے گا خواہ سلف کے درمیان ہی موجود رہا ہو اور زمانی یا مکانی اعتبار سے کوئی بعد اور دوری نہ پائی جاتی ہو۔

سلفیت اور شیرشاہ آبادی: الحمدللہ شیر شاہ آبادی برادری کا منہج اور عقیدہ وہی ہے جو حدیث میں وارد قرون مفضلہ کی تین صدیوں کے لوگوں کا ہے۔ اس لئے بجا طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ شیر شاہ آبادی کمیونٹی عقیدے کے لحاظ سے من حیث المجموع اہلحدیث اور سلفی ہے، اور قول و عمل میں منہج سلف کو اختیار کرنے میں اپنی کامیابی اور فخر محسوس کرتی ہے۔
خلاصہ کلام: سلفیت بطور ایک منہج فکر اور مسلک کے تمام مسلمانوں کے ساتھ اتحاد اور محبت کی دعوت، تمام ائمہ کرام اور مذاہب فقہ سے استفادہ، تزکیہ نفس و سلوک، غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت، اہل بدعت و معاصی کی حکمت کے ساتھ اصلاح، استعماری قوتوں کا مقابلہ، ہر دور میں پیدا ہونے والے فتنوں کے قلع قمع کرنے اور ہمیشہ اجتہاد اور جدید کی دعوت سے عبارت ہے۔ دنیا کی کوئی سلفی تنظیم اگر ان میدانوں میں کوتاہی کرتی ہے یا بنیادی مقاصد سے دور ہو جاتی ہے اور اپنے فرائض صحیح طور پر انجام نہیں دیتی تو سے نصیحت کی جائے اور اللہ سے دعا کی جائے، مگر اس کے خلاف بغاوت سے کچھ حاصل نہیں۔

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!