السلام علیکم میرے دوستو اور ساتھیو
امید کہ آپ تمام احباب خیر و عافیت سے ہوں گے
میرے بلاغ میں آپ سبھی کا خیر مقدم ہے
مزید کسی تاخیر کے شروع کرتے ہیں آج موضوع کو
گذرتے عہد کے منظرنامے کا اگر عالمی سطح پر ہمہ جہت اور تیز رفتار تبدیلیوں کے تناظر میں بصیرت افروز اور مدبرانہ جائزہ لیاجائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح ہمارے سامنے آتی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار ارتقائی پرواز اور اس کے نتیجہ میں کمپیوٹر اور سیٹلائٹ کے وسائل سے پیدا کردہ گلوبل ویلیج میں ایک نئے اور منصوبہ بند رجحان کے زیر اثر ایک نئے استعمار کو جنم دیا جارہاہے اور یہ سب کالونائزیشن (Colonisation) جس کے تشویش انگیز حد تک نہایت گہرے فکری اور منطقی نتائج نے نوجوانوں کے فکر و اثر اور ان کے نظریہتہذیب کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے جس کو میڈیا کی حد درجہ اثر انگیز اور زبردست ابلاغی قوت و وسعت کی مکمل حمایت و سرپرستی حاصل ہے اور اسی کے ذریعہ نوجوان سوچ کو جس طرف چاہتے ہیں موڑ دیاجاتاہے، جس قاتل کو جب چاہتے ہیں امن کا سفیر بناکر پیش کردیاجاتاہے اور جس کو چاہتے ہیں نت نئے سرٹیفکٹ جاری کرکے بنیاد پرست متعصب دہشت گردہ انتہا پسند جیسی من گھڑت فرضی اور بے اصل اصطلاحات چسپاں کرکے دنیا میں نہ صرف بدنام بلکہ الگ تھلگ کردینے کی کوششوں میں اپنی تمام تر ذہنی فکری اور جسمانی قوت لگادی جاتی ہیں، انسانیت کی نگہبانی کا خوشنما عنوان لگاکر انسانیت نوازی کا ڈھنڈورہ پیٹنے والی یہ سیاہ رو قوتیں جس نئے استعماری اور دجالی نظام سے عالم کو روشناس کرارہی ہیں اس کا منتہائے مقصود در اصل عالمی سطح پر ایک ایسی حکمرانی اور غلبہ کا خواب ہے جس میں طویل مدتی منصوبہ بندیوں کی جد و جہد کی عملی تکمیل کی خواہش اور اہداف تک جلد سے جلد رسائی کے لیے گذشتہ چار صدیوں کی تعمیری محنتوں اور تخریبی کوششوں کا رنگ شامل ہے، اٹھارہویں صدی کے صنعتی انقلاب کو اس میں اساسی حیثیت حاصل ہونے کے ساتھ مقصدی اہمیت کے تناظر میں جنگ عظیم اول جنگ عظیم دوم کے علاوہ اس دورانیہ میں دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں تسلسل کے ساتھ کہیں مذہب کی بنیاد پر تو کہیں قومیت کی اساس پر، کہیں لسانی و تہذیبی اختلاف اور ٹکراوکو بہانہ بناکر دنیاکو جنگوں میں مصروف رکھنا اور خون آلود انسانیت پر زبردست کاروباری منفعتوں کے ایمپائر کھڑے کرنے کے ساتھ دنیا میں آبادی کے تناسب کو اپنے مقررہ اور مستحکم کرنے جیسے متعدد مقاصد کے نفاذ کی مساعی دراصل اسی پلاننگ کا حصہ ہیں اور اس خوں آشام نظام فکر و عمل اور عالمی سطح پر جگ روشن نتائج و مظاہر کی اگر بات کی جائے تو قول و عمل کے دوہرے معیارات، انسانیت سوز اقدامات، خودساختہ بیماریوں کا پھیلاو، اور اس سے وابستہ مختلف الانواع نیز دور رس نتائج کو محیط ناقابل تصور منفعتیں، دراصل اسی استعماری سوچ اور نیو ورلڈ آرڈر (New World Order) کے زیر اثر ایک نظام فکر و عمل کے تحت ایک عالمی حکمرانی کی منصوبہ سازیوں کے ہی ترکیبی عناصر کے مختلف رنگ و آہنگ ہیں، اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ان سیاہ رو شیطانی قوتوں اور ان کے اہداف کے درمیان اگر کوئی سدراہ ہے تو وہ اسلام ہی ہے جس کے دامن میں دنیا کے ہر عہد و قرن کے تمام مسائل کے منصفانہ اور سہل العمل حل کی قوتیں موجود ہیں، معاشرت، معیشت، ریاست، سیاست، اقدار و روایات، تہذیب و تمدن، حرب و ضرب، امن و جنگ غرض دنیاکا کوئی اہم و غیر اہم مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کے حوالے سے اسلام میں راہ نما اصول نہ پائے جاتے ہوں، ایسے مطابقت رکھنے والے منزل من اللہ نظام عمل کی موجودگی اولیاءالشیطان کی نظروں میں ہمیشہ خار اور اہداف کے حصول اور ظالمانہ اغراض میں رکاوٹ سمجھی جاتی رہی ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ حیات انسانی کے ہر گوشہ عمل کو محیط اور بلاقید عہد و قرن فطرت انسانی کے تقاضوں سے ہم آہنگ اسلامی نظام کے عالمی نفاذ کے خطرات سے خوف زدہ ہیں جو ان کے عالمی حکمرانی کے قیام میں رکاوٹ کا باعث ہے، اور اسلام کے برخلاف جنوں خیز کاروائیوں کی بنیادی علت دراصل لاشعوری طور پر ان کی خوفزدگی اور اس کے نتیجہ میں اسلام اور مسلمانوں کے برخلاف منصوبہ بند شدت پسندانہ پے درپے اقدامات اور ردعمل کے طور پر عالمی سطح پر قبولیت اسلام کے رجحانات میں اضافہ کے تکوینی اسباب حقائق بھی اسی عالمی کشمکش میں پوشیدہ ہیں، نائن الیون برپا کیے جانے کے تخریبی مقاصد کے علی الرغم یورپ امریکہ آسٹریلیا کے علاوہ دنیا کے متعدد ممالک میں علی رؤوس الاشہار رجوع الی الاسلام کا شعوری اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جس میں اکثریت کا تعلق نوجوان نسل سے ہے، اطلاعات کے مطابق مذکورہ ممالک میں کلام اللہ اور کتب سیرت مطہرہ کی طلب میں حیرت انگیز اضافہ درج کیا گیا ہے جس کا تسلسل آج بھی باقی ہے۔
حاصل یہ کہ اسلام اور باطل قوتوں کی یہ آویزش کوئی نئی نہیں ہے بلکہ اس کا آغاز توطلوع اسلام کے لحظہ اول سے ہی ہوچکا تھا جب کہ رسول آخر الزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی مرتبہ کوہ صفا سے توحید خالص کی بنیاد پر اسلام کے نظام عمل کی خشت اساس کو اقراءسے متعارف کرایا تھا تو طبقہاولیاءالشیطان کے اس دور کے سرخیل ابوجہل و ابولہب اور ان کے ہمنواؤں نے مکہ میں اپنی جابرانہ اور ظالمانہ عملداری کے من چاہے نظام و اہداف کے لیے خطرے کی بو کو محسوس کرلیا تھا چنانچہ ہر گذرتے عہد کے ساتھ وقت یہ ثابت کرتا رہا کہ باطل نظام کے مقابل اسلام کا منصفانہ نظام ان کے لیے زلزلہ انگیز ہے جس کی براہ راست زدان کے مفادات پر پڑتی ہے، یہ ضرور ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ شکل و عمل اور طریقے بدلتے رہے لیکن نظام اسلام اور شعائر اسلام کو کسی بھی طور تباہ و برباد کردینے کی خواہش و جذبات اور کوششوں میں کبھی کوئی فرق واقع نہیں ہوا، صرف وقت اور عہد بدلے ہیں مطالبات ہمیشہ اپنی مکمل یکسانیت کے ساتھ اسی طرح قائم رہے، اللہ کے رسول حضرت نوح علیہ السلام کے حوالے سے قرآن کریم شہادت پیش کرتاہے: وَ قَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِرُسُلِہِملَنُخرِجَنَّکُممِّناَرضِنَا او لَتَعُودُنَّ فِی مِلَّتِنَا (سورہ ابراہیم:13) اور کہا ان لوگوں نے جو کافر ہوئے تھے اپنے رسولوں سے ہم لازماً نکال باہر کریں گے تمہیں اپنی زمین سے یا تمہیں لوٹنا ہوگا ہمارے دین میں، کیا فرق ہےشدھی کرن کا یہی مطالبہ تو آج بھی ہے گھر واپسی کرلو یا ہمارے ملک سے نکل جاو، بہرحال تبدیلی وقت کے ماسوا عمل اور ردعمل میں کبھی کوئی فرق واقع نہیں ہواہے، مثلاً کسی بھی تحریک کو فنا کرنے کے لیے اولین ہتھیار تضحیک و تذلیل اور استہزاءاور عدم توجہ کا ہے، دوسرا لالچ و طمع کے وسائل کو بروئے عمل لانے کا ہے، تیسرا سازشیں رچنے بدنام کرنے اور خوف و دہشت میں مبتلا کردینے کی کوششوں کا ہے اور چوتھا ہجوم و حملہ آوری کا ہے، اسلام کے لمحہ اول کے آغاز میں رسول آخر الزماں مصطفی و مجتبیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہُ علیہ وسلم کا کوہ صفا سے توحید ربانی کے پہلے اعلان کا ردعمل اس دور کے اولیاءالشیطان بوجہل و بولہب اور ہمنواوں کی جانب سے تضحیک و تمسخر اور تذلیل و مذاق و دل لگی کی صورت میں سامنے آیا، کسی نے العیاذ باللہ جنات کا سایہ تجویز کیا تو کسی نے علامات جنوں اور مرگی کا دورہ قرار دے کر علاج کا مشورہ دیا، تحریک اسلام کے بال و پر موثر انداز میں نمایاں ہونے پر دوسرا رد عمل طمع و لالچ کے بشری تقاضوں کے زیر اثر حسب خواہش مال و زر، اقتدار و مناصب اور قبیلہ قریش یا دیگر قبائل کے حسب منشاءو پسند کسی بھی خوبرو خاتون سے نکاح کی پیشکش اور اس کے جواب داہنے ہاتھ پر چاند اور بائیں ہاتھ پر سورج رکھ دینے جیسے مسکت جواب کے ساتھ سنگ و آہن سے مضبوط عزم و پختگی کے ساتھ نظام الہٰی کے قیام کے لیے عزم بالجزم کا اظہار، تیسرا مرحلہ مختلف سازشوں کے ساتھ ساتھ ان کے اعوان و انصار پر ہیبت ناک تشدد و بربریت کے مظاہرے سماجی و معاشرتی بائیکاٹ، شمشیر بدست تلاش اور جان سے مار دینے کی تدابیر او ر اس کے ردعمل میں بحکم علیم و خبیر ہجرت کے لیے پابہ رکاب ہوجانا، اور پھر چوتھا رد عمل غزوات وسرایا اور ہجوم و حملہ آوری سے عبارت تاریخ کا تسلسل ہے، غرض کہ عہد و وقت کوئی بھی رہا ہو مدمقابل باطل قوتوں کے نہ حق کو فنا کردینے کے جذبے خواہش او رکوششوں میں کبھی کوئی فرق آیا اور نہ مذکورہ طریقہعمل کی ترتیب ہی بدلی، تاریخ اسلام کے مختلف ادوار میں اسلام کی متعدد و مختلف محسن شخصیات کے احوال و سوانح اس حقیقت کی صداقت پر شاہد ہیں، اور اسی کے ساتھ یہ بھی ایک سچائی ہے جس کو امام الہجرة حضرت مالک بن انس رحمہ اللہ کے معروف قول لَا یَصلِحُ اٰخِرُ ھٰذِہِ الاُمَّةِ اِلَّا بِمَا صَلُحَ بِہ اَوَّلُہَا کی روشنی میں اس مختصر تعبیر سے مفصل انداز میں سمجھا جاسکتاہے کہ اس امت کے آخری حصے کی اصلاح نہیں ہوسکے گی مگر اسی طریقے پر جس پر کہ پہلے حصے کی اصلاح ہوئی تھی، چنانچہ عہد رواں میں اسلام کے آفاقی پیغام کو عملاً برپا کرنے کے لیے لامحالہ اولاً ہمیں پہلے خود کو نبی کریم علیہ الصلوٰة و السلام کی سیرت اور حیات طیبہ کے سنجید اور شعوری مطالعہ کی طرف التزاما رجوع کرنا ہوگا اور تمام تر قوتوں کو اسی منبع و سوت سے فکری اور دفاعی قوت حاصل کرنا ہوگا بعد ازاں اپنی نوجوان و نوخیز نسل کی تربیت سیرت النبی کی پاکیزہ روایات اور انہی پاک خطوط کی روشنی میں انجام دینے کے عزم و ارادے کی پختگی کو عملی قوت فراہم کرنے کے حوالے سے زندگی کا اولین اور ترجیحی مقصد و فریضہ قرار دے کر عہد حاضر کی ہجوم انگیز یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے صبر و مصابرت کے نہج سے آغاز کرنا ہوگا، چنانچہ آج ہمارا معاشرہ جن شدائد اور عناد و مسائل سے دوچار ہے اس کے لیے جہاں ایک طرف حل کی تحقیق کرنی ہوگی وہیں اس کے نفاذ کے عملی راستوں کو ہموار کرنے کے لیے ترجیحی بنیاد پر اولاً اپنی ذات کے نقائص کا خود احتسابی کے ساتھ ادارک بھی کرنا ہوگا اور اصلاح ذات کے فطری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے پھر قرآنی اصولِ اصلاح وَ اَنذِرعَشِیرَتَک الاَقرَبِینَ کی طرف قدم بڑھانا ہوگا، مختصر یہ کہ حیات انسانی کا کون سا اہم وغیر اہم پہلو ایسا ہے جس کی عمل تطبیق کا نمونہ ہمیں سیریت میں نہ ملتا ہو کیونکہ ازروئے شہادت قرآن وَ اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِی±مٍ (سورة القلم: 4) اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزین اور اخلاق الٰہیہ سے متصف ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو باری تعالیٰ نے تمام انسانوں کے حق میں خلق عظیم اور اسوہ جلیل اور بے مثل سیرت اور سب کے لیے قابل تقلید نمونہ، انسان سازی اور شخصیت و کردار کی تشکیل کے لیے ایک ماڈل آف لائف بنایا ہے، اللہ رب العزت کو کونسا انسان پسند ہے اس انسان کے اخلاق اور اعمال کیا ہوں اس انسان کے اطوار اور طریقے کیا ہوں اور اس انسان کی عادات اور خصلتیں کیا ہوں اور انسان کے اندر کون کون سی انسانی صفات ہوں کہ وہ انسان اپنے وجود میں بھی انسان لگے اور انسانیت کا قابل فخر نمائندہ ہو اور انسانیت کے حق میں قابل رشک ہو اور اللہ کا بھی فرمانبردار ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اطاعت گزار ہو۔ وہ انسان بنے جس کے لیے قرآن نے کہا: وَ لَقَد اکَرَّمنَا بَنِیاٰدَمَ اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔
مختصر یہ کہ موجودہ ملکی و عالمی احوال کے تناظر میں بار بار اس اہم اور قابل ذکر پہلو کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو اپنی نافعیت اور مرتب ہونے والے دور رس نتائج کے لحاظ سے نہایت ضروری اور لازمی ہے کہ اسلام کی اصل خوبی یہ ہے کہ اس کی تعلیمات اور اصول و قوانین کو دور دور تک بھی انتہاپسندی سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس عدل و قسط اور اعتدال اس کے نمایاں اوصاف ہیں تمام انسانی مسائل کا معتدل بامعنی اور نہایت مفید حل ہی تعلیمات اسلام کا امتیاز ہے: قرآن کریم ایک ایسے صلح جو اور امن پسند معاشرہ کا تصور پیش کرتاہے جہاں صبر و تحمل، برداشت و شکیبائی اور باہم میل جول اور الفت و محبت کی حکمرانی ہو، چنانچہ قرآن کریم صلح و امن کی اہمیت کو مختلف انداز و پیرائے میں بیان کرتے ہوئے انتہا پسندی کی جابہ جا حوصلہ شکنی کرتاہے، یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ افراد کے اعمال حجت نہیں اصل حجت تعلیمات قرآنی اور اس کی عمل تفسیر نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام کے اسوہ مکرم کی اتباع ہے، وَلَا تُفسِدُوا فِی الاَرضِ بَعدِ اِصلَاحِہَا وَ ادعُوہُ خَوفاً وَّ طَمَعًا اِنَّ رَحمَتِ اللّٰہِ قَرِیب مِّنَ المُحسِنِینَ اور زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ کرو، اور اللہ سے ڈرتے ہوئے اور امید رکھتے ہوئے دعاءکرو، بے شک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔ وَلَا تَبخَسُو النَّاسَ اَش
یَائَہُموَ لَا تَعثَوا فِی الاَرضِ مُفسِدِینَ اور لوگوں کو چیزیں کم نہ کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے ہوئے حد سے تجاوز نہ کرو۔ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ ال±مُف±سِدِی±نَ اور اللہ فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیں کرتاہے۔
لب لباب یہ ہے کہ سیرت طیبہ کا شعوری مطالعہ جہاں ایک طرف ہمیں معاشرتی زندگی میں ہر طرح کے تعصب اور انتشار سے پاک ماحول بنانے کی راہنمائی فراہم کرتاہے ساتھ ہی ایسے ہر عمل سے اجتناب کرنے کی ترغیب دیتاہے جس سے معاشرے میں انتہا پسندی کو جگہ مل سکے لہٰذا انسانیت کا دین ہونے کے ناطے اسلام تمام انسانوں کو اجتماعیت میں پرونا چاہتا ہے اور اسی تناظر میں عدل اجتماعی کو اسلام کی روح قرار دیاگیا ہے، حاصل کلام یہ تعلیمات قرآنی سے غفلت اور درخشاں سیرت مطہرہ سے لاعلمی کے نتیجہ میں موجودہ دور کے ذہنی انتشار، فکری پراگندگی اور پریشان حالی کے موجودہ ماحول میں شعائر اسلام کی عملی حفاظت میں ہی سکون قلب مضمر ہے۔