پارسا کتے

in urdu •  2 years ago 

السلام علیکم میرے پیارے ساتھیو اور دوستو
میرے بلاغ میں آپ سبھی حضرات کا دل و جان سے خیر مقدم ہے
امید کرتا ہوں کہ آپ سب خیر و عافیت سے ہوں گے
تو آئیے بلا کسی تاخیر شروع کرتے ہیں آج کے ٹاپک (موضوع) کو:


20230221_211751.jpg

مریض پر گزشتہ 20 منٹ سے جھکا ہوا ڈاکٹر سیدھا ہوکر مڑا چند ثانیے توقف کے بعد عاشق حسین کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مغموم لہجے میں کہا :

''بزرگو! ہم نے اپنی سی پوری کوشش کی زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں یے کسی بھی وقت کوئی بھی معجزہ رونما ہو سکتا ہے ۔مگر مرض اتنا پرانا تھا اور سلوتریوں نے مرض کو اتنا بگاڑا تھا کہ مریض کے بچنے کی اب کوئی امید نہیں ہے۔ بمشکل 13 گھنٹے جی سکے گا ۔''
عاشق حسین نے نیلی آنکھوں سے جو بہ کثرت رونے سے لال ہوئی تھی ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :
''ڈاکٹر صاحب ، کیا میرے جوان جہان بیٹے کے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔؟ ڈاکٹر نے تاسف کے ساتھ کہا :
''مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ شائد ہی ہم آپ کے بیٹے کو بچاسکیں ۔''
'' اچھا ڈاکٹر صاحب پھر ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم گھر کی راہ لیں۔''
عاشق حسین نے ڈاکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر اس تقاضے پر ششدر رہ گیا۔
حیرت سے کہا : ''بزرگو! آپ کے بیٹے پر جانکنی طاری ہے۔ وہ جان دینے کے کرب میں مبتلا ہے ۔ یہاں ہم اسے ایسی ادویات ڈرپ میں ڈال کر دے رہے ہیں کہ جس سے موت کا عمل کم تکلیف دہ ہوتا ہے۔ درد کا احساس کم ہوتا ہے اور روح قدرے کم تکلیف سے نکل جاتی ہے اور آپ نیم مردہ بیٹے کو گھر لے جانے کی بات کر رہے ہیں ۔''
عاشق حسین نے افسردگی کے ساتھ کہا : ''ڈاکٹر صاحب آپ موت کی تکلیف کی بات کر ریے ہیں لیکن آپ زندگی کے درد سے واقف نہیں ہیں۔کبھی تو غریب رہ کر زندہ رہنے کا تجربہ کر لیجئے۔ کبھی تو غریب کی طرح مر کر دیکھ لیجئے ۔آپ کو کیا معلوم غربت کی زندگی اور غربت کی موت کسی محشر سے کم نہیں ہوتی۔ ہمیں ہسپتال سے جانے کی اجازت دیجئے ۔سرکار پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے۔''
ڈاکٹر نے غصہ ہوکر کہا: '' یہی تو تم لوگوں کی جاہلیت ہے ۔پہلے جوان بیٹے کو خودساختہ ڈاکٹرز، حکیموں اور پیروں فقیروں سے علاج کرواتے ہوئے موت کے منہ میں دھکیلا، ایک سادہ عام سی بیماری کو اتنا پیچیدہ کردیا کہ بیچارہ اس دنیا سے رخصت ہورہا ہے ۔اب اسے چین سے مرنے بھی نہیں دے رہے ہیں۔ کیا یہ آپ کا فرزند ہے یا دشمن۔؟''
عاشق حسین نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا :''ڈاکٹر صاحب اگر یہ چین سے مر گیا تو دنیا والے مجھے چین سے جینے نہیں دیں گے۔ میرے بیٹے کی درد ناک موت میں میری آبرومندانہ زندگی چھپی ہوئی ہے۔ ہمارے گاوں تک بس کا کرایہ 120 روپے ہے اور ایمبولینس والے 6 ہزار مانگتے ہیں۔ بس والے میت کی ٹکٹ نہیں کاٹتے اور نہ ہی مردے کو سیٹ دیتے ہیں۔ البتہ رستے میں اگر سواری مرجائے تو لاش کو اتارنے کا نہیں کہتے ۔آپ نے 13 گھنٹے مزید زندہ رہنے کا کہا ہے اور یہ تجہیز و تکفین کے لیئے مناسب وقت ہے ۔ایمبولینس کا کرایہ آخری رسومات پر خرچ کرلوں گا اور بس میں انشاللہ اسے موت بھی جلد آجائیگی ۔ جانکنی کے عذاب کا دورانیہ بھی کم ہوجائے گا ۔''
ڈاکٹر یہ سب کچھ سن کر سن ہوگیا ۔ بنا کچھ کہے چل پڑا ۔عاشق حسین بیٹے کو ٹکٹکی باندھے اس وقت تک دیکھتا رہا جب تک آنکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوؤں نے اس کا چہرہ ڈھانپ نہ لیا تھا ، اتنے میں نرس نے آکر عاشق حسین کو ڈسچارج سلپ تمھاتے ہوئے کہا:
'' بابا جی آپ مریض کو لیکر جاسکتے ہیں۔''
عاشق حسین بوجھل دل اور شکست خوردہ قدموں کے ساتھ گاؤں کی طرف چل پڑا۔ بس میں دوران سفر اب بھی وہ گاؤں سے کوسوں دور تھا وہ تجہیز و تکفین کے پورے انتظامات کو ذہن میں ترتیب دے چکا تھا۔ آج جمعہ مبارک کا دن تھا ۔صبح کے 10 بج ریے تھے۔اسے امید تھی کہ گاؤں پہنچتے پہنچتے اس کے بیٹے نے جان دے چکی ہوگی ۔ گاؤں والے انا”فانا” قبر کھود کر تیار کرلیں گے ۔کفن، عرق گلاب، سخات کا صابن، مولوی صاحب کی جائے نماز اور دیگر تمام لوازمات گاؤں کے بازار میں "سلام دکاندار” کے پاس دستیاب ہوتے ہیں۔ اس نے انگلیوں پر موٹا موٹا حساب لگاتے ہوئے تخمینہ ساڑھے چار ہزار کا نکالا ۔ اس کے علاوہ قل تک اور بعد میں بھی فاتحہ پڑھنے کے لیئے آنے والے مہمانوں اور دور پاس کے رشتہ داروں کے لیئے آٹے، دودھ ، پتی، چائے اور گھی شکر کا خرچہ اس کے حساب سے کوئی ڈھائی ہزار بن رہا تھا اور تقریبا اتنی ہی رقم اس کے پاس بچی ہوئی تھی ۔جو اس نے بیٹے کے علاج معالجے کے لیئے گھر کا آخری اثاثہ بیل بیچتے ہوئے کھری کی تھی ۔
انسانوں سے جانور اچھے ہوتے ہیں ضرورت کے وقت تو کام آجاتے ہیں۔اس نے لمبی سانس لیتے ہوئے سوچا ۔ورنہ انسان تو مشکل میں منہ موڑ لیتے ہیں اور خوامخوا کے لیئے اشرف المخلوقات بنے پھرتے ہیں۔ ورنہ کہاں جانور اور کہاں انسان ۔۔۔۔
جوں جوں گاؤں قریب آتا جارہا تھا توں توں اس کی پریشانی بڑھ رہی تھی۔ اس نے جنازے کا وقت ظہر کی نماز ادا ہوتے ہی طے کیا تھا اور مغرب تک ساری رسومات ادا ہو چکی ہوں گی ۔ مغرب پڑھنے کے بعد مسجد میں گاؤں والوں اور مہمانوں کو جو کھانا اس نے دینا تھا اس کا انتظام اس سے نہیں ہو پارہا تھا ۔کسی سے ادھار لینا تو ناک کٹنے والی بات تھی۔ چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام تھا۔ شرم کی بات تھی ۔زندگی بھر گاؤں والے طعنہ دیتے کہ بیٹے کو ادھارے کا کفن پہنایا تھا ۔مسکینوں کی طرح زمین میں گاڑا تھا ۔بغیر رسومات ادا کئے جانے کے دفنانا تھوڑا ہوتا ہے۔ گاڑنا ہی تو ہوتا ہے۔ اس نے شکر ادا کیا کہ اس نے مردہ بیٹے کو گاؤں لانے کی بجائے جاں بلب بیٹے کو لانے کا فیصلہ کیا ۔ورنہ گاؤں میں شلوار بھی اترتی اور بیٹے کی بخشش بھی نہ ہوتی ۔
گلابو کمہار کے ساتھ یہی تو ہوا تھا ۔ بیوی کی موت پر جنازے کے بعد نہ مولویوں میں سخات بانٹ سکا، نہ ہی امام مسجد کو جائے نماز خرید کر دے سکا اور نہ ہی تدفین کے بعد لوگوں کو کھانا کھلا سکا ۔مولوی صاحب تو صاف بات کرنے کے عادی تھے۔انہوں نے تو برملا کہا تھا کہ
''گلابو کمہار کی بیوی کی بخشش نہیں ہوگی اور اگر پھر بھی کوئی نیکی کام آگئی اور بخشش ہو بھی گئی تو عذاب قبر تو تا قیامت پکاہے۔ بے چارہ گلابو کمہار! بیوی بھی جہنمی اور وہ بھی ۔
آج تک کسی سے آنکھ ملانے کا قابل نہیں ہے۔عاشق حیسن کو جھرجھری سی آگئی اور ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو داد دی کہ بیٹے کو جانکنی کی حالت میں ہسپتال سے نکالا ،ورنہ اگر یہی پیسے ایمبولینس پر خرچ ہوتے تو اس کا انجام بھی گلابو کمہار جیسا ہوتا اور بیٹا بھی عذاب قبر سہتا۔
اچانک عاشق حسین کو زبردست جھٹکا لگا۔ ڈرائیور نے اتنے زور سے بریک دبائی تھی کہ سڑک پر ٹائروں کے نشانات پڑ گئے تھے اور پہیوں کے گھسنے کی کریہہ آواز بھی دور تک سنائی دی گئی تھی۔
مگر ڈرائیور پھر بھی ان تین کتوں کو نہیں بچا سکا تھا جو جفتنی کتیا کا تعاقب کرتے ہوئے کتیا سمیت چلتی بس کی زد میں آگئے تھے۔ جنس کی شدت ہمیشہ حواس چھینتی ہے۔ محبت اور عقل اسی لئے تو ایک دوسرے کی ضد ہے آگ اور پانی ہے، چوہے بلی کا کھیل ہے ۔محبت میں جنسی نا آسودگی پاگل پن طاری کرتی ہے ۔دیوانہ بناتی ہے ۔محبت میں خود سپردگی تتلیوں کی گود میں سونا ہے۔ رنگ و نور میں نہانا ہے ۔محبتوں میں جسمانی ملاپ بارش کی معصوم ادا ہے۔ کلی کا چٹکنا ہے ۔ بن جسمانی لمس کے محبت زہنی مرض ہے۔ آسیب ہے۔
بریک لگنے کی شدت سے سواریاں ایک دوسرے پر لڑھک گئی تھیں ۔بس میں یک دم سے افراتفری مچ گئی۔ سواریوں کے شور وغوغا نے آسمان سر پر اٹھا دیا۔
تین کتے، ایک کتیا اور عاشق حسین کا بیٹا؛ایک ساتھ مرگئے۔ ادھر تین کتے اور ایک کتیا بس کے نیچے آکر کوچ کرگئے اور ادھر عاشق حسین کے بیٹے کی روح اوپر پرواز کر گئی۔
عاشق حسین نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھتے ہوئے رب کا شکریہ بھی ادا کردیا کہ تین کتوں اور ایک کتیا کے ساتھ ساتھ اس کے بیٹے کی جان بھی نکال دی۔
اس نے دل ہی دل میں عزرائیل کو بھی بڑی داد دی، کس چابکدستی سے لوگوں کی مشکلات آسان کردیتا ہے۔ اگر عزرائیل نہ ہوتا تو خدا جانے لوگ کیسے جیتے۔ ؟
بیٹے اور کتوں کے مرنے کا وقت اور مقام جیسے اس کے زہن میں نقش ہو کر رہ گیا ۔
کنڈیکٹر نے جلدی جلدی مرے ہوئے کتوں کو ٹانگوں سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے سڑک کے کنارے ڈال دیا اور بس روانہ ہوئی۔ تقریبا 5 منٹ بعد بس عاشق حسین کے گاؤں کے سٹاپ پر رکی ۔سٹاپ کے قریبی گھر سے چارپائی منگوا کر عاشق حسین نے گاؤں والوں کی مدد سے بیٹے کی لاش چارپائی پر رکھی اور گھر کی راہ لی بس اس گاؤں کے واحد سواریوں کو اتارنے کے بعد دھواں اگلتے ہوئے اور غوں غوں کی آوازیں نکالتے اگلی منزل کی طرف رینگنے لگی تھی۔
عاشق حسین نے گاؤں والوں اور رشتہ داروں کے حوالے تجہیز و تکفین کے انتظام کرتے ہوئے چھوٹے بھائی کو ساری نقد رقم بھی ہاتھ میں تمھا دی ۔خواتین کے بین اور گاؤں والوں کی با آواز بلند انتظامات بارے باتوں کے دوران عاشق حسین ایک بڑی بوری میں ایک عدد کلہاڑی ، تیز دار والی چھری اور کام والے میلے اور بوسیدہ کپڑے رکھ کر خاموشی کے ساتھ نکل گیا ۔
تھوڑی دیر بعد وہ جائے حادثہ پر موجود تھا ۔
سڑک پر ویرانی چھائی ہوئی تھی وہ جلدی جلدی چاروں مرے ہوئے کتوں کو ٹانگوں سے کھینچتے ہوئے سڑک کنارے گنے کے کھیتوں میں اندر تک لے گیا ۔بجلی کی سی سرعت کے ساتھ اس نے چاروں کتوں کو کاٹ کر بوری میں ڈالا اور کپڑوں کے اوپر پہنے ہوئے میلے اور خون آلود ملبوس کو اتار کر ماچس کی تیلی سلگا دی۔ گھر داخل ہوکر اس نے بڑی بیٹی کو گوشت حوالے کرکے میت کا کھانا تیار کرنے کے بارے میں اچھی طرح سمجھایا اور باہر نکل کر فاتحہ کے لیے آنے والوں میں گھل مل گیا ۔تدفین بھی شان سے ہوئی۔ چار پیٹی صابن بانٹا گیا اور آئے ہوئے تمام مولویوں میں جائے نماز، سفید ٹوپیاں اور تسبیح بھی تقسیم کی گئیں۔ مغرب کے بعد سارے گاوں کو مسجد ہی میں چھوٹا گوشت کھلایا گیا۔ گرم گرم تندوری روٹیوں کے ساتھ سب نے پیٹ بھر کر کھایا خوب واہ واہ ہوئی۔ سب نے لذت کی تعریف کی۔
عاشق حسین مطمئن تھا کہ انشاللہ میت کا ایسا کھانا گاؤں میں کسی کے باپ نے بھی اب تک نہیں دیا ہوگا اور نہ ہی آئندہ سو سالوں میں کھلا سکے گا۔ عاشق حسین نے ایک بھرا ہوا خوانچہ مولوی صاحب کے گھر بھی بجھوایا خوب دعائیں ہوئیں اور مرحوم کو شہید کا درجہ بھی عطا ہوا ۔اگلی صبح فجر پڑھ کر بھری مسجد میں مولوی صاحب نے عاشق حسین کو مخاطب کیا ''بھائی عاشق حسین رات کو تو بڑی عجیب بات ہوئی میں نے اور ملانی جی نے اکھٹے ایک ہی خواب دیکھا کہ تیرا برخوردار جنت کی باغوں میں چہل قدمی کر رہا ہے۔ خوش و خرم ہے۔ میں نے تو بس صرف یہی دیکھا۔ مگر ملانی جی کہہ رہی تھی کہ اسے شہید نے کہا کہ ابا کی حویلی بھی وہ جنت میں دیکھ چکا ہے جس کی سفید موتیوں کی چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے ۔''
تمام جماعت عش عش کر اٹھی۔ عاشق حسین زیر لب مسکرایا اسے پہلی مرتبہ نجس کتے کی پارسائی کے زور کا علم ہوا تھا ۔ واقعی جنت کا ہر راستہ پیٹ سے گزرتا ہے اور جہنم بھوک کی پیداوار ہے ۔
عاشق حسین نے دل ہی دل میں ان چاروں کتوں کا شکریہ ادا کیا کہ نجس ہونے کے باوجود اس کی انا اور دین کو قائم رکھا۔ اس کے بیٹے اور اسے جنت تک لے جانے کا سبب بنے پہلی مرتبہ اس کے دل سے کتوں کے لیے دعا نکلی اگر ان کتوں نے آج اس کی پردہ پوشی نہ کی ہوتی تو انسان تو اسے برہنہ کرچکے ہوتے۔


अस्सलाम अलैकुम मेरे प्यारे साथियों और दोस्तों!
मैं अपने संदेश में आप सभी का स्वागत करता हूँ!
आशा है आप सभी अच्छी तरह से होंगे!
तो बिना देर किए चलिए शुरू करते हैं आज का टॉपिक:


डॉक्टर, जो पिछले 20 मिनट से मरीज के ऊपर झुका हुआ था, सीधा हो गया और कुछ सेकंड रुकने के बाद आशिक हुसैन के कंधे पर हाथ रखा और उदास स्वर में कहा:

"वरिष्ठ! हमने पूरी कोशिश की, जीवन और मृत्यु भगवान के हाथ में है, कोई भी चमत्कार कभी भी हो सकता है।लेकिन बीमारी इतनी पुरानी थी और सिलुट्रिस ने बीमारी को इतना बढ़ा दिया था कि मरीज के बचने की कोई उम्मीद नहीं थी। वह मुश्किल से 13 घंटे ही जिंदा रह पाएगा।
आशिक हुसैन ने बार-बार रोने से लाल हो रही अपनी नीली आँखों से डॉक्टर की ओर देखा और कहा:
"डॉक्टर साहब, क्या मेरे जवान बेटे के बचने की कोई संभावना नहीं है?" डॉक्टर ने उदास होकर कहा:
"मुझे बड़े अफसोस के साथ कहना पड़ रहा है कि हम आपके बेटे को बचाने में सक्षम हो सकते हैं।"
"ठीक है, डॉक्टर, फिर हमें घर जाने की अनुमति दें।"
आशिक हुसैन ने डॉक्टर को संबोधित किया और कहा। इस अनुरोध पर डॉक्टर हैरान रह गए।
उसने आश्चर्य से कहा: "वरिष्ठ! आपका बेटा खतरे में है। वह मर रहा है। यहां हम उसे ड्रग ड्रिप पर डाल रहे हैं जिससे मरने की प्रक्रिया कम दर्दनाक हो जाती है। दर्द का एहसास कम हो जाता है और आत्मा थोड़ी कम दर्द के साथ चली जाती है और आप आधे-अधूरे बेटे को घर ले जाने की बात कर रहे हैं।

आशिक हुसैन ने उदास होकर कहा: "डॉक्टर, आप मौत के दर्द की बात करते हैं, लेकिन आपको जीवन के दर्द का एहसास नहीं है। कभी-कभी आपको गरीब और जिंदा होने का अनुभव करना चाहिए।" कभी किसी गरीब की तरह मरने की कोशिश करो क्या आप जानते हैं कि गरीबी की जिंदगी और गरीबी की मौत किसी दुखदायी से कम नहीं होती। हमें अस्पताल से जाने दीजिए। सरकार पर और बोझ नहीं डाल सकते।"
वैद्य ने क्रोधित होकर कहाः "यह तुम लोगों की नादानी है। पहले जवान बेटे का इलाज स्व-निर्मित वैद्यों, हकीमों और रंकों ने किया। उन्होंने उसे मौत के मुँह पर ढकेल दिया, और एक साधारण-सी सामान्य बीमारी को इतना जटिल बना दिया कि गरीब आदमी इस दुनिया में है।" अब वे उसे चीन से मरने भी नहीं दे रहे हैं। यह आपका बेटा है या दुश्मन?
आशिक हुसैन ने रोते हुए कहा: "डॉक्टर, अगर मैं चीन से मर गया, तो दुनिया के लोग मुझे चीन से जीने नहीं देंगे।" मेरे बेटे की दर्दनाक मौत में मेरा गरिमामय जीवन छिपा है। हमारे गांव के लिए बस का किराया 120 रुपये है और एंबुलेंस का किराया 6,000 रुपये है। बस कंडक्टर मृत व्यक्ति के लिए टिकट नहीं लेते हैं या मृत व्यक्ति को सीट नहीं देते हैं। लेकिन रास्ते में अगर सवार मर जाए तो शव को नीचे उतारने को नहीं कहते।आपने 13 घंटे और जीने को कहा है और अंतिम संस्कार और दफनाने का यही उचित समय है।जल्द ही आएगा। जनकनी की सजा की अवधि भी कम की जाएगी।

डॉक्टर ने यह सब सुना। आशिक हुसैन बिना कुछ कहे अपने बेटे को तब तक देखता रहा जब तक उसकी आँखों से आंसू उसके चेहरे पर नहीं आ गए, तभी नर्स ने आकर आशिक हुसैन को डिस्चार्ज स्लिप देते हुए कहा:
"बाबा जी, आप मरीज को ले जा सकते हैं।"
आशिक हुसैन भारी मन और टूटे पैरों के साथ गाँव की ओर चल पड़ा। बस में सफर के दौरान वह अभी गांव से कुछ किलोमीटर दूर ही था, उसने मन ही मन अंतिम संस्कार की सारी व्यवस्था कर रखी थी। आज शुक्रवार था। सुबह के 10 बज रहे थे। उसे उम्मीद थी कि जब तक वह गांव पहुंचेगा, उसका बेटा मर चुका होगा। गाँव के लोग अन्ना "फना" की कब्र खोद कर तैयार करेंगे। कफ़न, गुलाब जल, सखत साबुन, मौलवी साहब की दरी और अन्य सभी सामान गाँव के बाजार में "सलाम दुकानदार" के पास उपलब्ध हैं। मोटे हिसाब से गणना करके, अनुमान साढ़े चार हजार थे। इसके अलावा कल तक और उसके बाद भी फातिहा पढ़ने आए मेहमानों और दूर के रिश्तेदारों के लिए आटा, दूध, पत्ते, चाय और घी शक्कर का खर्च वह करीब ढाई हजार बना रहा था। और लगभग उतनी ही रकम उसके पास बची थी, जो उसने अपने बेटे के इलाज के लिए घर की आखिरी संपत्ति बेचते समय खरीदी थी।
इंसान से बेहतर तो जानवर होते हैं, जरूरत पड़ने पर काम आते हैं। लंबी सांस लेते हुए उसने सोचा। नहीं तो इंसान मुसीबत में मुंह मोड़कर अशरफ-उल-मुखवा बनकर फिरता है। नहीं तो कहां जानवर और कहां इंसान?

जैसे-जैसे गाँव नजदीक आ रहा था, उसकी चिंता बढ़ती जा रही थी। उसने ज़ुहर की नमाज़ पढ़ते ही जनाज़े का वक़्त मुक़र्रर कर दिया था और मग़रिब तक तमाम रस्में अदा कर दी जातीं। मग़रिब की नमाज़ के बाद मस्जिद में गाँव वालों और मेहमानों को जो खाना देना था, उसकी व्यवस्था करने में वह असमर्थ था। पानी में डूबने की बात सामने आई। यह शर्म की बात थी। जीवन भर गांव वाले ताने मारते कि बेटे ने उधार का कफन पहना है। उसे गरीबों की तरह जमीन में गाड़ दिया गया। बिना कर्मकांड किए उसे दफनाना दुर्लभ है। इसे बनवाना है। उन्होंने धन्यवाद देते हुए कहा कि उन्होंने मृत बेटे को गांव लाने की बजाय मृत बेटे को लाने का फैसला किया नहीं तो गांव में सलवार उतर जाती और बेटे को बख्शा नहीं जाता.
गुलाबो कुम्हार के साथ भी यही हुआ है। वह अपनी पत्नी के जनाज़े के बाद न तो मौलवियों में दान बाँट सकता था, न मस्जिद के इमाम के लिए नमाज़ के लिए जगह ख़रीद सकता था और न ही दफ़नाने के बाद लोगों को खाना खिला सकता था।मौलवी खुलकर बात करने का आदी था। बिरमाला ने कहा था
"फूल कुम्हार की पत्नी को क्षमा नहीं किया जाएगा, और भले ही एक अच्छा काम किया गया हो और उसे क्षमा कर दिया गया हो, तो कब्र की सजा न्याय के दिन तक रहेगी। बेचारा गुलाब का कुम्हार! पत्नी नारकीय है और वह भी।
आज तक वो किसी से आँख नहीं मिला पा रहे हैं.आशिक हसन घबरा गए और एक बार फिर खुद को बधाई दी कि उन्होंने अपने बेटे को होश में अस्पताल से बाहर निकाला था, नहीं तो ये पैसे अगर एंबुलेंस पर ख़र्च होते तो, यह उसका अंत होता।गुलाबू कुम्हार की तरह होता और उसके बेटे को कब्र की सजा मिलती।

अचानक आशिक हुसैन को जोरदार झटका लगा। ड्राइवर ने इतनी जोर से ब्रेक लगाए कि टायरों के निशान सड़क पर रह गए और पहियों की खड़खड़ाहट की आवाज दूर तक सुनाई दी।
लेकिन कुत्ते का पीछा कर रहे तीन कुत्तों को ड्राइवर अभी तक नहीं बचा सका और कुत्ते समेत चलती बस की चपेट में आ गया. सेक्स की तीव्रता हमेशा भारी होती है। इसलिए प्यार और तर्क एक दूसरे के विपरीत हैं। आग और पानी बिल्ली और चूहे का खेल है। प्यार में यौन बेचैनी पागलपन पैदा करती है। रंग और रोशनी में नहाना प्रेम में शारीरिक मिलन बारिश का मासूम प्रतिफल है। चुटकी भर कली होती है। शारीरिक स्पर्श का प्रेम एक मानसिक रोग है। क्षति होती है।
ब्रेक की गंभीरता के कारण यात्री एक-दूसरे पर लुढ़क गए और बस में अफरा-तफरी मच गई। सवारियों के शोर ने आकाश को उपर उठा दिया।
तीन कुत्ते, एक कुतिया और आशिक हुसैन का बेटा एक साथ मरे. इसी बीच तीन कुत्ते और एक कुतिया बस के नीचे आ गए और भाग गए, तो आशिक हुसैन के बेटे के हौसले उड़ गए।
आशिक हुसैन ने इनन्ना लिल्लाह वैना इलिया रजिउं पढ़ते हुए तीन कुत्तों और एक कुतिया के साथ अपने बेटे की जान बचाने के लिए भी भगवान का शुक्रिया अदा किया।
उन्होंने मन ही मन अजरेल की तारीफ भी की कि वह किस हुनर ​​से लोगों की मुश्किलें आसान करते हैं। यदि अजरेल न होता, तो परमेश्वर जानता है कि लोग कैसे रहते। ?
बेटे और कुत्तों की मौत का समय और जगह उसके दिमाग में अंकित हो गया।

कंडक्टर ने जल्दी से मरे हुए कुत्तों को पैरों से खींच कर सड़क के किनारे फेंक दिया और बस चल पड़ी। करीब 5 मिनट के बाद बस आशिक हुसैन के गांव स्टॉप पर रुकी।स्टॉप के पास एक घर से खाट मंगवाकर आशिक हुसैन ने ग्रामीणों की मदद से अपने बेटे के शव को खाट पर रख दिया और एकमात्र यात्रियों को छोड़ने के लिए घर चला गया। उसके बाद, वह अगली मंजिल की ओर रेंगने लगा, धुआँ उगलने लगा और कर्कश आवाज करने लगा।
आशिक हुसैन ने गाँव वालों और रिश्तेदारों के लिए अंतिम संस्कार की व्यवस्था की और सारा पैसा अपने छोटे भाई को दे दिया।कई कुल्हाड़ी, तेज चाकू और काम के कपड़े और सड़े हुए कपड़े छोड़कर वह चुपचाप निकल गया।
कुछ देर बाद वह दुर्घटनास्थल पर मौजूद थे।
सड़क सुनसान थी, वह जल्दी से चार मरे हुए कुत्तों को पैरों से घसीट कर सड़क के किनारे गन्ने के खेतों में ले गया, उसने खून से सने मेले और खून से सने कपड़े उतारे और माचिस की पोटली जलाई। घर में घुसकर उन्होंने मांस अपनी बड़ी बेटी को सौंप दिया और मृतक के लिए खाना बनाने का तरीका अच्छी तरह समझाया और बाहर जाकर फातिहा के लिए आए लोगों से घुलमिल गए. आए हुए सभी मौलवियों को साबुन के चार पैकेट बांटे गए और नमाज की चटाई, सफेद टोपी और तस्बीह भी बांटी गई। मगरिब के बाद पूरे गांव को मस्जिद में ही छोटा-छोटा मांस खिलाया गया। गरमा गरम तंदूरी रोटियों के साथ सबने जी भर कर खाया। सभी ने स्वादिष्टता की सराहना की।

आशिक हुसैन को इस बात का संतोष था कि ईश्वर ने चाहा तो गाँव में किसी के भी पिता ने मृतक को ऐसा भोजन नहीं दिया होगा और न ही वह अगले सौ वर्षों में इसे खा सकेगा। आशिक हुसैन ने भी मौलवी साहब के घर पर पूरा काफिला जलाया और खूब दुआएं हुई और मरने वाले को शहीद का दर्जा दिया गया।अजीब ​​बात हुई मैलानी जी और मैंने एक साथ एक ही सपना देखा कि तेरी महबूब जन्नत के बागों में चल रही है . यह खुश है। बस इतना ही मैंने देखा। लेकिन मैलानी जी कह रही थीं कि उन्हें शहीद ने बताया कि उन्होंने स्वर्ग में अब्बा की हवेली भी देखी है, जिसके सफेद मोती आंखों को चकाचौंध कर देते हैं।
पूरी मंडली जल्दी उठ गई। आशिक हुसैन होठों के नीचे मुस्कुराया, उसे पहली बार एक नापाक कुत्ते की परहेज़गारी की ताकत का पता चला था। दरअसल, स्वर्ग का हर रास्ता पेट से होकर गुजरता है और नरक भूख की उपज है।
आशिक हुसैन ने अपवित्र होने के बावजूद अपने अहंकार और धर्म को अक्षुण्ण रखने के लिए इन चारों कुत्तों का तहे दिल से शुक्रिया अदा किया। उनके बेटे और उन्हें स्वर्ग ले जाने की वजह से पहली बार उनके दिल से कुत्तों के लिए दुआ निकली, अगर आज इन कुत्तों ने उन्हें न ढका होता तो इंसान उन्हें नंगा कर देते।

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!