السلام علیکم میرے دوستو اور ساتھیو
امید کہ آپ تمام احباب خیر و عافیت سے ہوں گے
میرے بلاغ میں آپ سبھی کا خیر مقدم ہے
مزید کسی تاخیر کے شروع کرتے ہیں آج موضوع کو
علمی اسفار: متاع ایماں کے بعد علم سب سے گراں مایہ متاع اور سب سے قیمتی اثاثہ و سرمایہ ہے ،باری تعالی کے عطایا و نوازشات میں اس سے اعلی وبالا اور کوئی نوازش نہیں ہے ،یہ وہ گوہر ثمین ہے جو ذوات انسانی میں سمو کر انہیں عظمتوں سے ہمکنار کرتا ہے ،شخصیتوں کو جلا بخشتا ہے اور ان کے ذکر کو لافانی بنادیتاہے ،اس جوہر کمیاب کی قدر وقیمت کا اندازہ لگانا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے ،اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی حکمت اور اپنے اندازہ سے علوم ومعارف کے خزینوں کو کائنات میں یہاں وہاں پھیلا رکھا ہے ،لہذا وہ کائنات کا سیر کرنے ، موجودات کون کا مطالعہ کرنے ،اور اطراف عالم میں بکھرے ہوئے علم وحکمت کے لعل وگہر کو سمیٹنے کی باربار دعوت دیتا ہے ،تاکہ لوگ ہر ایک ذرۀ کائنات کا جائزہ لیں اور اس میں ودیعت کردہ علوم ومعارف کے خزائن کو حاصل کرکے ان سے تعمیر عالم اور مصالح عباد وبلاد کے قیام کا کام لیں ،اور جو علم اس نے اپنے بندوں کو سکھائے ہیں اور ان کے سینوں میں محفوظ کیا ہے ان کے حصول کے لئے بھی اللہ تعالی نے ہمیں اپنے گھروں کی راحت وآرام سے دست بردار ہوکر عازم سفر ہونے اور دوران سفر کی تمام صعوبتوں اور کلفتوں کو گوارا کرنے کا حکم فرمایا ہے اور ان علمی اسفار کو اس نے جنت کے سفر ، جہاد کے سفر اور حج کے سفر جیسا پاکیزہ و مقدس سفر قراردیا ہے ، اور جس علم سے اللہ تعالی کی ذات کا عرفان ہو ،اس کے خلق وتدبیر کی عقدہ کشائی ہو ،اس کے اسماء وصفات کی شناخت ہو اور اس کے دین وشریعت کے اسرار ورموز کی معرفت ہو وہ علم اور اس کی طلب وتلاش کا مقام ومرتبہ اتنا بلند وبالا ہونا بھی چاہئے کہ اس پر بلندیوں کو رشک آئے ،اور اہل ذوق اس تک رسائی کے شوق میں اس راہ کی تمام کلفتوں اور مشقتوں کو برغبت گوارا کرکے اپنا نام عظمتوں کے مسافرین میں سرفہرست درج کرانے کے لئے سب کچھ قربان کردیں ،اور ہم دیکھتے ہیں کہ دنیائے علم کے سب سے مصفی و مزکی قلوب واذہان اور سب سے اعلی واقوی عقول و افہام کے حامل ہمارے اسلاف کرام اس علم کی طلب وتلاش میں کوچہ کوچہ ،قریہ قریہ ،اور خطہ خطہ دیوانوں کی طرح پھرا کرتے تھے ،وہ علم وفن کے قدردان اور شرائع واحکام کے مقام آشنا تھے اس لئے ان کی طلب میں زمین وآسمان کو ایک کردیا اور اس کے صلے میں انہیں ایسی عزت وعظمت حاصل ہوئی جس کے سامنے ساری عظمتیں ہیچ اور ساری رفعتیں سرنگوں نظر آتی ہیں۔
علمی اسفار اسلام کی نگاہ میں : سفر وسیاحت حصول علم کا سب سے اہم وسب سے کارآمد ذریعہ ہے ،جب اسلام میں علم کو عقیدہ وعمل پر برتری حاصل ہے ،وہ دفاع دین کا سب سے موقر ذریعہ اور اس کی نشر واشاعت کا سب سے موثر وسیلہ اور جہاد کا قائم مقام عمل ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے حصول کے اسباب وذرائع کا مقام اس سے کسی طرح کمتر نہ ہوگا ،اسی لئے اللہ تعالی نے امت کے بعض افراد کو جہاد سے استثناء فراہم کرتے ہوئے انہیں طلب علم میں سرگرداں رہنےکا حکم فرمایا ہے،ارشاد باری تعالی ہے :( وما کان المؤمنون لینفروا کافة فلولا نفر من کل فرقة منھم طائفةلیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذارجعوا الیھم لعلھم یحذرون) [التوبة :122 ] اور یہ بات مناسب نہیں کہ تمام ہی مومنین جہاد کے لئے نکل پڑیں ،ایسا کیوں نہ ہو کہ ہرجماعت کے کچھ لوگ نکلیں تاکہ تفقہ فی الدین حاصل کریں اور جب اپنی قوم میں واپس ہوں تو انہیں اللہ سے ڈرائیں تاکہ وہ برائیوں سے مجتنب ہوجائیں۔یزید بن ہارون رحمہ اللہ کابیان ہے کہ میں نے حماد بن زید رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ کیا قرآن میں اللہ تعالی نے اصحاب حدیث کا ذکر فرمایا ہے تو انہوں نے کہا کیوں نہیں ،کیا تم نے اللہ تعالی کا قول نہیں سنا (لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم)[التوبة :122]یہ آیت علم وفقہ کے لئے سفر کرنے والے تمام لوگوں کے لئے ہے کہ جب وہ لوٹ کر آئیں تو لوگوں کو تعلیم دیں[شرف اصحاب الحدیث ،ص 147]،امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے عبد الرزاق کو اس آیت :(فلولا نفر من کل فرقة) کے بارے میں فرماتے سنا کہ اس سے مراد اصحاب حدیث ہیں [مرجع سابق ،ص 148]ؐ ،عکرمہ مولی ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ اللہ تعالی کے قول :(السائحون)[التوبة :112]یعنی میری خاطر زمین میں چلنے والے کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس سے مراد طلبہ حدیث ہیں [مرجع سابق ،ص 149]۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں طلب علم کی خاطر گھر سے محلہ یا شہرکی مسجد تک آنے کو جہاد اور حج کے مساوی عمل قراردیا ہے ،تو جو خوش بخت حضرات دوردراز کے بلاد وامصار کاسفر کرتے ہیں اور اپنے اقدام سے دشت وصحرا کی پیمائش کرتے ہیں ان کی رفعت وبلندی کا کون اندازہ لگاسکتا ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی مقام ہے :" جو شخص میری اس مسجد تک محض علم سیکھنے یا سکھانے کے لئے آیا تو وہ مجاہدین فی سبیل اللہ کے مقام پر فائز ہے "[صحیح الترغیب والترھیب ،کتاب العلم، 87]۔اور ایک حدیث میں ہے :" جو صبح مسجد آئے اور اس کا مقصد محض علم سیکھنا یا سکھانا ہو تو اس کے لئے حج کا ثواب ہے "[صحیح الترغیب : 86] ،ایک حدیث میں ہے :" جو اپنے گھر سے طلب علم کے لئے نکلا وہ واپسی تک معرکہ جہاد میں ہے "[صحیح الترغیب :88] ،اس حدیث میں گھر سے نکل کر جانے کی دوری طے نہیں ہے ،گھر سے نکل کر محلہ کی مسجد یا مدرسہ آئے یا شہر کی مسجد یا مدرسہ آئے ،یا کہیں دور کی مسجد یا مدرسہ جائے سب فضیلت میں شامل ہیں ، البتہ اگر کوئی دور دراز کے ممالک وبلاد کا سالہاسال کے لئے سفر کرے تو اس کے بلندی مقام میں کتنے مدارج ومنازل کا اضافہ ہو تاجائےگا ؟ایک حدیث میں راہ علم کے سالکین کو راہ جنت کا مسافر قراردیا گیا ہے [صحیح الترغیب :70] اور ایک حدیث میں "ما من خارج من بیته فی طلب العلم الا وضعت له الملائکة أجنحتھا رضا بما یصنع " کا لفظ ہے [صحیح الترغیب :85]یہ اور اس طرح کی دیگر احادیث مبارکہ سے راہ علم کے سالکین اور سفینہ حکمت ومعرفت کے مسافرین کا مقام و مرتبہ مبرہن ہوتا ہے ،اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے بلندی درجات ورفعت مقام میں ان کا کوئی شریک وسہیم نہیں ہے۔
سفر علم اور ہمارے اسلاف کرام : علم کے لئے قطع سفر اللہ تعالی کی متعین کردہ سنت ہے ،اس نے علم کو جس شرف وقدر سے نوازا ہے اور اس کو دنیا کے طول وعرض میں جس طرح پھیلایا ہے اس کا لازمی تقاضا ہے کہ اہل ذوق اس کی تلاش و جستجو کے لئے اہل علم اور مقامات عرفاں کا قصد کریں ،اسی سنت کے مطابق اللہ تعالی نے اپنے نبی موسی علیہ السلام کو خضر کے پاس بھیجا ،اسی سنت کے مطابق علم کے پروانے قرب وبعد سے افراد وجماعات اور وفود کی شکل میں نبی اکرم واعلم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرہوا کرتے تھے ،اور اسی سنت الہیہ کے زیر اثر ہمہ وقت صحابہ کرام کی ایک جماعت پروانوں کی طرح شمع رسالت کے گرد منڈلایا کرتی تھی ،اور اسی سنت جاریہ کے مطابق صحابہ کرام اور تابعین عظام کےبے مثال علمی اسفار ہوئے ،اور چونکہ اسلاف کرام علم وفن کے مرتبہ شناس اور اس کے مقام آشنا تھے لہذا انہوں نے طلب علم وتلاش عرفاں میں جو صحرا نوردی و آبلہ پائی کی اور جن مصائب وشدائد کا سامنا کرکے دنیائے علم کے چہار جانب کا طواف کیا اور جس مفلسی میں روایت ودرایت کی پر خار وادیوں اور پر خطر راہوں کو صبر وشکیبائی کے اظہار اور لذت وطمانینت کے احساس لطیف کے ساتھ طے کیا یہ سب انہی کے لئے خاص تھا ،ان کے عہد مثالی کے سوا انسانی تاریخ کے کسی بھی دور میں ایسی دیوانگی ومہم جوئی اور اس نوع کے سفر وسیاحت کی کوئی مثال نہیں ملتی ،ان کے عہد زریں کے بعد نہ وہ مئے رہے اور نہ وہ میخانے ، نہ وہ صحرا رہے اور نہ وہ دیوانے ،نہ وہ جنون طلب رہا اور نہ وہ حوصلہ صحرا پیمائی ، پس آئیے طلب وتلاش کی راہ میں ہم اپنے اسلاف کرام کے نقوش پا کوتلاش کرتے ہیں اور کتب تراجم وطبقات کے زریں صفحات میں ان کی بے مثال فنائیت وفدائیت کے بکھرے ہوئے جلووں کا مشاہدہ کرکے اپنے قلوب واذہان کو جلا بخشتے ہیں اور اپنے عزائم اور حوصلوں کو بلند پروازی اور تاریخ سازی کے آداب سکھاتے ہیں۔
طلب کی راہ میں گر بے خودی نہیں ہوتی
قسم خدا کی ،خدا آگہی نہیں ہوتی
1_علمائے سلف بحار علوم سے جرعہ کشی کرنے اوراحادیث وآثار کے خزینوں سے بامراد ہونے کے لئے وادئ علم کی سیاحت اور مقامات عرفاں کی زیارت کو ضروری تصور کرتے تھے ، جیساکہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ" علم تلاش سے بڑھتا ہے اور سوال سے حاصل ہوتا ہے "[العلم والعلماء ترجمہ جامع بیان العلم ،ص 74] اور ابن شبیب رحمہ اللہ کا قول ہے : " طبیعت تربیت سے بنتی ہے اور علم تلاش سے ملتا ہے[مرجع سابق ،ص 63] ،اور ہمارے ائمہ کے بیشتر علمی رحلات طلب علوم وحصول معارف کے لئے ہی ہوا کرتے تھے ،اور اس راہ میں وہ اپنی عمر عزیز کے کتنے ہی ماہ وسال کو قربان کردیا کرتے تھے ،ہرایک مرکز علم کی زیارت سے مشرف ہونے کی کوشش فراواں کرتے اور اہل ذوق کی طرف سے جوالة الارض وطواف عالم کے لقب عالی سے سرفراز کئے جاتے ۔
2_بعض سلف کا کہنا تھا کہ علمائے حدیث کے علمی اسفار کی وجہ سے آسمانی بلائیں ٹل جاتی ہیں اور اللہ تعالی کی طرف سے بخشش و غفران عطا ہوتا ہے ،بعض کا قول ہے :" اصحاب حدیث کے علمی اسفار کی وجہ سے اللہ تعالی اس امت سے بلا کو روک دیتا ہے "[شرف أصحاب الحدیث ،ص 149]،اور زکریا بن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :" میں نے عبد اللہ بن مبارک کو خواب میں دیکھا تو ان سے پوچھا کہ اللہ تعالی نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ انہوں نے کہا کہ سفر حدیث کی بنا پر مجھے معاف فرمادیا [الرحلة فی طلب الحدیث للخطیب البغدادی ،رقم 16،ص90]۔
3_بعض اسلاف حدیث کی سماعت کے بعد صرف تحقق و تثبت کے لئے دور دراز کا سفر کر جایا کرتے تھے ،ابو العالیہ رحمہ اللہ کابیان ہے کہ ہم لوک بصرہ میں اصحاب رسول کی کوئی حدیث سنتے تو اس پر انحصار کرنے کے بجائے مدینہ جاکر خود ان کی زبان سے اس روایت کو سنا کرتے تھے [الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع رقم :684ج2 ،ص224 ]،ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے ملنے کی خاطر مصر کا سفر محض اس لئے کیا تھا تاکہ اس حدیث سے متاکد ہوسکیں جس کو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا اور صحابہ میں ان کے اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے سوا اورکوئی نہیں بچا تھا[الرحلة فی طلب الحدیث،رقم 34_38]۔
4_بعض اسلاف کرام صرف ایک حدیث کی طلب میں کئی ایام و لیالی کی قربانی دے دیا کرتے تھے اور بعض نہایت طویل سفر کی صعوبتوں کو بھی برغبت گوارا کرلیا کرتے تھے ،سعید بن مسیب رحمہ اللہ کا قول ہے :" میں ایک حدیث کے لئے کئی ایام ولیالی کا سفر کرلیا کرتاتھا [جامع بیان العلم وفضلہ،رقم395،ص569۔ والحث علی طلب العلم والاجتھاد فی جمعہ،ص61]،اور ابو قلابہ رحمہ اللہ کابیان ہے کہ میں تین روز تک مدینہ میں ایک شخص کی آمد کا منتظر رہا تاکہ اس کے پاس موجود ایک حدیث سن سکوں[الجامع لاخلاق الراوی،رقم1690] ،اور علی بن صالح اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن امام شعبی رحمہ اللہ نے ایک حدیث سنائی پھر مجھ سے کہا کہ میں نے یہ حدیث یوں ہی تمہیں سنادی جب کہ اس سے کم تر درجہ کی حدیث کے لئے لوگ مدینہ تک کا سفر کیا کرتے تھے [جامع بیان العلم ،رقم396 ،ص573],اور اما شعبی رحمہ اللہ ہی کا قول ہے :" اگر کوئی آدمی اقصائے شام سے اقصائے یمن کا سفر حکمت کی کسی ایک بات کے لئے بھی کرتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کا سفر ضائع نہیں ہوا [جامع بیان العلم ،رقم400 ،ص578،الرحلة فی طلب الحدیث ،رقم 27ص96],اور امام شعبی رحمہ اللہ ہی کا بیان ہے کہ ایک بار مسروق رحمہ اللہ نے ایک آیت کی تفسیر کے لئے بصرہ کا سفر کیا ،وہاں اس کی تفسیر جاننے والے کے بارے میں دریافت کیا تو بتایا گیا کہ وہ شام چلے گئے ،وہیں سے وہ شام کے لئے نکل پڑے اور وہاں اس شخص سے مل کر تفسیر سے آگاہ ہوئے [الحث علی طلب العلم والاجتھاد فی جمعہ،ص61]،تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ ایک حدیث شام میں ایک صحابی کے پاس ہے ،انہوں نے اسی وقت ایک اونٹ خریدا ،اس پر زین کسا اور شام کی طرف نکل پڑے ،ایک ماہ کی لمبی مسافت طے کرنے کے بعد وہ عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں شام پہنچے اور خبر بھجوایا کہ جابر چوکٹ پر کھڑا ہے ،عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ بھاگتے ہوئے باہر آئے اور گلے سے لگا لیا ،جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مظالم کے تعلق سے ایک حدیث آپ کے پاس ہے جس کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا اسی کے لئے حاضر ہواہوں،پس انہوں نے پوری حدیث انہیں سنائی [ملاحظہ کریں :جامع بیان العلم رقم 565،ص 389_399]،اسی طرح ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ صرف ایک حدیث سے متاکد ہونے کے لئے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس مصر جا پہنچے تھے [مرجع سابق رقم567 ،ص392]۔
5_بعض ائمہ سند عالی کے لئے طویل ترین سفر کی صعوبتوں کو برغبت گوارا کرلیا کرتے تھے،سند عالی یہ ہے کہ کوئی محدث اپنے ایسے شیخ سے حدیث سنے جن کے شیخ ابھی باحیات ہوں تو وہ اس حدیث کو اپنے شیخ کے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوکر سماعت کرلے،اس طرح سند اونچی اور واسطہ کم ہوجاتا ہےجس سے تحقیق حدیث کا مرحلہ آسان ہوجاتا ہے ،ائمہ کے نزدیک سند عالی کی بہت اہمیت تھی،یحی بن معین رحمہ اللہ سے مرض الموت میں پوچھا گیا کہ آپ کی آخری خواہش کیا ہے ؟انہوں نے فرمایا :"بیت خالی واسناد عالی " [علوم الحدیث :ص231], اور امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے :"سند عالی کی تلاش سلف کی سنت رہی ہے "اور ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ کیا سند عالی کے لئے سفر کیا جائے گا ؟ انہوں نے فرمایا : کیوں نہیں، بلکہ زیادہ سفر ہونا چاہئے، علقمہ و اسود رحمہما اللہ تک عمر رضی اللہ عنہ کی روایت پہنچتی تو اس پر قناعت کرنے کے بجائے عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر خودان سے سماعت فرماتے تھے [علوم الحدیث ،ص223]۔
6_راویان حدیث کے حالات واخبار سے آگاہی کے لیے بھی اسفار ہوا کرتے تھے،امام یحی بن معین رحمہ اللہ نے ابو نعیم فضل بن دکین رحمہ اللہ کے حافظہ واہتمام روایت کے امتحان کے لئے ان کا قصد کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ حفظ وضبط کے اعلی ترین مقام پر فائز ہیں [تقدیم : الرحلة فی طلب الحدیث ،ص22]۔
7_احادیث کی تحقیق اور علل حدیث کی معرفت کے لئے علماء کے ساتھ مذاکرہ کرنے کی خاطر بھی اسفار ہوا کرتے تھے،علی بن مدینی رحمہ اللہ مذاکرہ کے لئے عراق سے سفیان بن عیینہ کے پاس مکہ جایا کرتے تھے ،علل احادیث کے سلسلے میں امام ترمذی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ سے کس قدر علمی استفادہ کیا ہے اس کا اندازہ ان کی کتاب علل کبیر اور جامع الترمذی سے اچھی طرح کیا جاسکتا ہے۔
8_بعض اسلاف عسرت وتنگی کی بنا پر شدید خواہش کے باوجود بعض ائمہ سےاستفادہ کرنے سے محروم رہ گئے، صالح بن احمد بن حنبل کا بیان ہے کہ میرے والد نے فرمایا کہ اگر میرے پاس پچاس درہم ہوتے تو میں جریر بن عبد الحمید کے پاس ری ضرور جاتا ، میرے بعض اصحاب چلے گئے اور میں بے سروسامانی کی وجہ سے نہیں جاسکا[الجامع لاخلاق الراوی ،رقم1706 ،ج 2 ص268]۔
یہ ہمارے بلند حوصلہ اسلاف کرام ہیں جنہوں نے اپنی بیش بہا زندگیوں کو علم کی راہ میں نچھاور کردیا ،اس کے بدلے میں اللہ سبحانہ وتعالی نے انہیں مثل آفتاب وماہتاب بنادیا ،ان کی زندگی کی کتابوں میں قمرین کی عظمت وبلندی لکھ دی ،مثل آفتاب سارے جہاں کے لئے سبب نور وضیاء ٹھہرایا ، اور ان عظمتوں سے ہمکنار کیا جن کے سامنے ساری عظمتیں ہیچ اور ساری بلندیاں سرنگوں نظر آتی ہیں۔
قد خلت تلک السنون وأھلھا
فکأنہا وکأنہم أحلام
وہ زمانے اور زمانوں والے سب گزر گئے ، وہ سب کچھ اب خواب محسوس ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی ان ہستیوں پر اپنی رحمتوں کا فیضان کرے اور ہمیں ان کا خوشہ چیں اور سچا جانشیں بنائے۔