سوچی سمجھی سازش

in thigh •  3 years ago 

سوچی سمجھی سازش
محمد عارف
دہلی سمیت ملک کے جو حالات ہیں وہ بے حد سنگین ہیں۔ ملک کے اکثر حصوں سے دنگے اور فساد کی خبرآنا بے حد افسوسناک ہے۔ لیکن کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ ملک میں تیوہاروں کے موقعے پر اس طرح کی خبریں آرہی ہیں۔ ملک کے زیادہ تر لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ یہ محض اتفاق تو نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ اور اس بات سے اتفاق کرنے والے سماجی سیاسی اور میڈیا کے ساتھ پولیس و انتظامیہ اور سرکار بھی ہے۔ لیکن اب جب بات سچ کہنے کی آتی ہے تو زیادہ تر لوگوں دوغلاپنی سے کام لیتے ہیں۔ یہ بات جانتے ہوئے کہ اس نفرت اور سماج کو بانٹنے میں کس کا ہاتھ ہے اور کون لوگ اس کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
اس سوال کا جواب آپ اگر میڈیا کے ذریعہ لینے کی کوشش کریں تو آپ کو لگے گا کہ زیادہ تر میڈیا والے ان سب کے ذمہ دار مسلمانوں کو بتاتے ہیں۔ لیکن یہ میڈا والے خود بھول جاتے ہیں کہ کشمیر فائلز جیسی جھوٹی فلم کو پرچار کس نے کیا، سماج میں نفرت انگیز بیان کون دے رہاہے، مارنے کاٹنے کی باتیں کون کررہاہے۔ اور جے این یو جیسے ملک کے بڑے تعلیمی ادارے میں محض معمولی کھانے کی وجہ سے کون ماحول خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان سب سے علاوہ یہ میڈیا اس بات پر سوال نہیں پوچھتی کہ کسی بھی مذہبی تہوارپر یا شوبھا یاترا پرہتھیاروں سے لیس ہوکر جانا اور کسی خاص جگہ پر کھڑے ہوکر کسی خاص فرقے کو گالی دینا، یا کسی مذہبی مقام میں گھس کر اس کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کرنا کیا یہ صحیح ہے۔ اگر نہیں تو پھر کیا ایسے کرنے والے لوگ کسی سوچی سمجھی سازش کے تحت کررہےہیں اور کون ہیں وہ لوگ جو اس کے پیچھے ہیں۔اور جو اس کے پیچھے ہیں وہ کتنے خطرناک ہیں ، سماج کو بانٹنے والے اور ملک دشمن ہیں کہ بارہ سے بیس سال کے نوجوانوں کے ہاتھ میں دھار دار ہتھیار دے کر انہیں ایسا کرنے پر آمادہ کررہےہیں۔
ان سب سوالوں کا جواب نہ تو سرکار کے پاس ہے، نہ ہی پولیس کے پاس ہے اور نہ ان تحقیق کرنے والی ایجنسی کے پاس جو ان سب کی باریکی سے چیک کرنے کے نام پر ماہانہ لاکھوں روپیے لیتی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ شاید یہ سوچی سمجھی اور پوری طرح پلاننگ کے ساتھ انجام دی جانے والی بڑی سازش ہے۔ اور ایسا اس لئے کہ جو میڈیا مسلمانوں کے ذریعہ مارے گئے ایک ایک پتھر کو گن سکتی ہے، اور یہ بھی گن سکتی ہے کہ وہ پتھرکس نے اور کہاں سے چلائے وہ میڈیا یہ یہ کیوں نہیں بتاتی کہ شوبھا یاترا میں شامل چھوٹے بڑے بچے اور نوجوانوں کے ہاتھ میں یہ دھار دار ہتھیار کہاں سے آئے۔ اور کس نے دیئے۔ کیا کسی شوبھا یاترا میں دوسرے مذہب کو گالی دینے یا کسی دوسرے مذہبی مقامات کو نقصان پہنچانے کی اجازت پولیس نے دی تھی یا سرکار نے۔ اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی، جس میں ایک خاص فرقے کو گالی بھی دی جاتی ہے، ان کے مذہبی مقامات کو نقصان پہنچایاجاتا ہے، اور پھر مزاحمت کے بعد میڈیا انہیں ہی مجرم بنادیتی ہے اور پھر پولیس اپنا کام کرنے کے نام انہیں کے بچوں اور نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتی ہے۔
دانشوران قوم اور محبان وطن اس سازش کو سمجھیں۔ اور اصل مجرم کو پکڑنے کی کوشش کریں۔ اسے بے نقاب کریں۔ کیونکہ ملک کے حالات بے حد سنگین ہیں۔ سیاستدان لوگوں کو بے وقوف بناکر اپنا الوسیدھا کررہے ہیں۔ اور لوگ آپس میں لڑنے مرنے تک کو تیار ہیں۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سیاست ہمیشہ سے ایسی ہی ہوتی آئی ہے لیکن پچھلے کچھ سالوں میں سماج میں جو نفرت کا زہر بویا جارہاہے وہ اب تناور درخت بن چکا ہے۔ اوراس نفرت کا نشانہ زیادہ تر بے گناہ اورسماج کے کمزور لوگ ہو رہے ہیں۔ اگر اسے نہیں روکا گیا تو ملک کمزور سے کمزور تر ہوتا جائے گا۔

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!