سورۃ نمبر 2 البقرة
آیت نمبر 47
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰبَنِىۡٓ اِسۡرَآءِيۡلَ اذۡكُرُوۡا نِعۡمَتِىَ الَّتِىۡٓ اَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَاَنِّىۡ فَضَّلۡتُكُمۡ عَلَى الۡعٰلَمِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اے بنی اسرائیل، میری وہ نعمت ¹ یاد کرو جو میں نے تمہیں دی، اور یہ کہ میں نے تمہیں سارے جہان ² والوں پر فضیلت دی
تفسیر:
1 : نعمتوں کی دوبارہ یاد دہانی اس لیے کی گئی ہے تاکہ گذشتہ باتوں کی مزید تاکید کی جاسکے، اور آئندہ آیتوں میں آنے والے وعید شدید کا بنی اسرائیل کے کفرانِ نعمت کے ساتھ ربط پیدا کیا جائے
2 : نعمتوں کا بالمعموم ذکر کرنے کے بعد اب ایک خاص نعمت کا ذکر کیا گیا ہے اور خطاب اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے یہود سے ہے، لیکن مراد ان کے آباء و اجداد ہیں اور (عالم) سے مراد اس دور کا عالم ہے، اور فضیلت دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے ان میں رسولوں کو بھیجا، کتابیں اتاریں، اور انہیں بادشاہت عطا کی۔ اس لیے آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اے یہود مدینہ میں نے تمہارے آباء و اجداد کو ان کے دور کے دوسرے لوگوں پر فضیلت دی۔
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہی معنی مراد لینا ضروری ہے کیونکہ امت محمدیہ ان سے بلاشبہ افضل ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے آیت کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر وتومنون باللہ ولو امن اھل الکتاب لکان خیرا لہم، یعنی اے مسلمانو ! تم بہترین لوگ ہو جو پیدا کیے گئے ہو، لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو، اور برائیوں سے روکتے ہو، اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا (آل عمران : ١١٠)