تفسیر سورۃ البقرہ سورہ نمبر 2 آیت نمبر 40, پارہ نمبر 1 پارہ رکوع 04 سورہ رکوع 04

in tafseer •  2 years ago 

سورۃ نمبر 2 البقرة
آیت نمبر 40

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰبَنِىۡٓ اِسۡرَآءِيۡلَ اذۡكُرُوۡا نِعۡمَتِىَ الَّتِىۡٓ اَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَاَوۡفُوۡا بِعَهۡدِىۡٓ اُوۡفِ بِعَهۡدِكُمۡۚ وَاِيَّاىَ فَارۡهَبُوۡنِ ۞

20221026_172215.jpg

ترجمہ:
اے بنی اسرائیل (1) میر اس نعمت (2) کو یاد کرو جو میں نے تمہیں دیا اور مجھ سے کیے ہوئے عہد (3) کو پورا کرو، میں تم سے کیے ہوئے عہد کو پورا کروں گا، اور مجھ ہی سے ڈرو

تفسیر:
1 : گذشتہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی پیدائش کی ابتدا کا ذکر کیا، پھر عام انسانوں کو اپنی بندگی کرنے کی دعوت دی، اس کے بعد اب ان آیتوں میں بطور خاص بنی اسرائیل کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جارہی ہے، کیونکہ وہ مدینہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رہتے تھے اور زیادہ حقدار تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاتے، کیونکہ تورات کے ذریعہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی صداقت کو خوب جان گئے تھے۔
اس آیت سے لے کر آیت ١٤٢ تک بنی اسرائیل کا ہی ذکر ہے، کہیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نرم لہجہ میں اسلام کی طرف بلایا ہے، ان پر اور ماضی میں ان کے آباء و اجداد پر اپنی نعمتوں کو ذکر کیا ہے، کہیں انہیں ڈرایا ہے، تو کہیں ان کے خلاف حجت قائم کر کے ان کی بد اعمالیوں پر انہیں ڈانٹ پلائی ہے، اور ان کے آباء و اجداد کو جو سزائیں ملیں ان کا ذکر کیا ہے۔
اسرائیل، یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے، اس لیے بنی اسرائیل سے مراد اولاد، یعقوب ہے، اللہ تعالیٰ نے یعقوب (علیہ السلام) کا ذکر کر کے ان کی اولاد یعنی یہود کو نیکی کی رغبت دلانی چاہی ہے کہ اے اللہ کے نیک بندے یعقوب کے بیٹو، اپنے باپ کے مانند نیک بنو۔
2 : اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو گوناگوں نعمتیں دیں۔ ان کی ہدایت کے لیے بڑے بڑے انبیاء و رسل بھیجے کتابیں نازل کیں، فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دی، زمین پر بادشاہت دی، پتھروں سے پانی کے دشمنے جاری کیے اور کھانے کے لیے من وسلوی اتارا، نبی کریم کے زمانے کے یہودیوں کو اللہ نے نصیحت کی کہ وہ اپنے آباء و اجداد پر کیے گئے احسانات کو یاد رکھیں، انہیں فراموش نہ کریں اور دین اسلام میں داخل ہوجائیں، تاکہ ان پر اللہ کا وہ عذاب نہ نازل ہو جو ماضی کے ان اولاد یعقوب پر نازل ہو، جنہوں نے احسان فراموشی کی، اور اللہ کی نعمتوں کو بھول گئے۔ اس لیے انعمت علیکم سے مراد انعمت علی آبائکم ہے۔ یعنی ان نعمتوں کو یاد کرو، جو اللہ نے تمہارے آباء و اجداد کو دیا تھا۔
3 : یہاں دو عہدوں کا ذکر ہے، ایک وہ عہد جو اللہ نے بنی اسرائیل سے لیا، اور دوسرا وہ جو اللہ نے بنی اسرائیل سے کیا۔ بنی اسرائیل سے لیے گئے عہد کا ذکر دوسری آیتوں میں یوں آیا ہے۔ آیت ولقد اخذ اللہ میثاق بنی اسرائیل و بعثنا منہم اثنی عشر نقیبا وقال اللہ انی معکم لئن اقمتم الصلاۃ وآتیتم الزکاۃ وامنتم برسلی و عزرتموہم واقرضتم اللہ قرضا حسنا لاکفرن عنکم سیئاتکم ولا دخلنکم جنات تجری من تحتہا الانہار، اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد و پیمان لیا اور انہیں میں سے بارہ سردار ہم نے مقرر کیے اور اللہ نے فرما دیا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم کی اور زکاۃ ادا کی اور میرے رسولوں پر ایمان لائے اور ان کی مدد کرتے رہے، اور اللہ تعالیٰ کو عمدہ قرض دیتے رہے تو تمہارے گناہوں کو مٹا دوں گا اور تمہیں اس جنگ میں داخل کروں گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں (المائدہ : 12)
اس عہد میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وہ خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے، جن کی تمام صفات اپنی کتاب تورات میں وہ پڑھ چکے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد کیا تھا کہ اگر انہوں نے اللہ سے کیے گئے عہد و پیمان کو پورا کیا تو اللہ انہیں جنت میں داخل کرے گا۔


Posted from https://blurt.one

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!