سورۃ نمبر 2 البقرة
آیت نمبر 34
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِكَةِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡٓا اِلَّاۤ اِبۡلِيۡسَؕ اَبٰى وَاسۡتَكۡبَرَ وَكَانَ مِنَ الۡكٰفِرِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ (1) کرو، تو سب نے (2) سجدہ کیا، مگر ابلیس (3) نے انکار کردیا، اور استکبار سے کام لے، اور وہ (اللہ کے علم میں) کافروں میں سے تھا۔
تفسیر:
1: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فرشتوں سے مراد وہی فرشتے ہیں جو ابلیس کے ساتھ زمین میں تھے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رح) کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں اور یہود و نصاری کا قول نہیں ہوسکتا۔ عام اہل علم کا یہ خیال ہے کہ یہاں تمام فرشتے مراد ہیں۔ جو اس کے خلاف اعتقاد رکھتا ہے وہ قرآن کا انکار کرتا ہے۔ اللہ نے تو فرمایا : فسجد الملائکۃ کلہم اجمعون یعنی تمام فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا (دیکھئتے محاسن التنزیل للقاسمی)
2: ابلیس کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ وہ فرشتوں میں سے تھا یا نہیں بعض کہتے ہیں کہ وہ فرشتوں میں سے تھا اور بعض کا خیال ہے کہ جنوں میں سے تھا، دونوں ہی جماعتوں نے قرآن کریم سے دلیل پیش کی ہے۔ صاحب کشاف کہتے ہیں کہ ابلیس تھا تو جنوں میں سے، اور سجدے کا حکم فرشتوں کو دیا گیا تھا، لیکن چونکہ ابلیس فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا، انہی کی طرح اللہ کی عبادت کرتا تھا، اس لیے جب اللہ نے فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا تو یہ حکم ابلیس کو بھی شامل تھا۔
حافظ ابن القیم (رح) کہتے ہیں کہ دونوں اقوال در اصل ایک قول ہے، اس لیے کہ ابلیس صورت میں فرشتوں کے جیسا تھا، لیکن اصل و مادہ میں فرشتوں سے مختلف تھا۔ اس لیے کہ اس کی اصل آگ ہے اور فرشتوں کی اصل نور ہے۔
3: یعنی یہ بات ازل سے اللہ کے علم میں تھی کہ ابلیس ایک دن کافر ہوجائے گا۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ سب سے پہلا کافر ابلیس تھا اور اس کا سبب کبر و غرور تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث ہے کہ جس آدمی کے دل میں ذرہ برابر بھی کبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا (صحیح مسلم، کتاب الایمان)