شرعی امور میں بغیر علم کے بولنے کے خطرناک نتائج ،

in r2cornell •  2 years ago 

شرعی امور میں بغیر علم کے بولنے کے خطرناک نتائج ،

IMG20220710072844.jpg

انسانی فطرت میں اوریجنل اور ڈبلیکیٹ کا فرق ہمیشہ سے رہا ہے، ہر شعبے حیات میں ایسے ماہرین ومتخصصین کی تلاش ہوتی ہیں جو مطلوبہ کام بخوبی جانتے ہوں ۔مثلاً اگر کوئی اچانک نانئ بن جائے اور ہمیں معلوم ہو کہ اسے بال بنانا نہیں آتا ہے تو ہم اس کی خدمات لینے سے پہلے دس بار غور وفکر کریں گے ۔
اسی طرح شریعت کی رہنمائی حاصل کرنے کا معاملہ اس سے جدا نہیں ہے بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ اہم اور سنگین معاملہ ہے کیونکہ اس کا تعلق دنیا اور آخرت سے ہے
اس لیے دین کے بارے میں صحیح اور ٹھوس معلومات حاصل کرنے کے لئے بھی اجتناب برتنے کی اشد ضرورت ہے جس طرح دنیاوی معاملات میں برتتے ہیں۔ اور یہی حکم اللہ تعالیٰ نے سورة الأنبياء میں یوں دیا ہے فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (سورة الأنبياء :7) اگر تم لوگ کسی چیز سے ناآشنا ہو تو اہل ذکر (اہل علم ) سے پوچھ لو،
لیکن موجودہ زمانے میں بے شمار ایسے مقررین مبلغین اور علماء نما شخصیات ہیں جو اردو میں یا انگریزی میں یا ھندی میں چار کتابیں پڑھ کر مدرس بن گئے ، تو کوئی سہ ماہی قرآن فہمی کے short courses کا مطالعہ کرکے لوگوں میں مفسر بن گئے ، تو کوئی دو چار دعوتی کورسز (courses) کر کے اسٹیج کو رونق بخشنے لگے ، تو کوئی بائبل، گیتا، اور ویدک کے چند شلوک رٹا لگا کر دین پر اتھارٹی جما لئیے اور حد تو یہ ہے کہ اس معاملے میں خواتین بھی پیچھے نہیں رہیں ۔مثلاً بیشمار ایسی باتیں دین کی طرف منسوب خواتین میں پائی جاتی ہیں جن کا تعلق قرآن وحدیث سے چندا نہیں ہوتا ہے بلکہ ایسی باتوں سے متعلق یہ مقولہ بھی مشہور ہے کہ "یہ عورتوں کی حدیث" ہے
بلا شبہ "بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً" کے تحت دعوت دین ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دو چار مجالس میں بیٹھ کر کوئی دینی امور میں واعظ، مبلغ، مفتی بن کر بولیں اور عوام کو اپنی فکر اور اجتہادات کا شکار بنائے ۔
درج ذیل سطروں میں بغیر علم کے شرعی امور میں باتیں کرنے کے چند خطرناک نتائج پیش خدمت ہے
(1)شرعی امور میں بغیر علم کے بولنے کے خطرناک نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ جو بغیر علم کے فتوی بازی کرتے ہیں یا بحث ومباحثہ کرتے ہیں وہ ایک بڑا منکر کام انجام دے رہا ہوتا ہے، بلکہ وہ شرک کے مرتکب ہو رہا ہوتا ہے جیسا کہ فرمان الٰہی ہے : قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ [الأعراف:33] آپ فرما دیجئے کہ میرے رب نے حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اور اس بات کو کہ اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات نہ لگا دو جس کو تم جانتے نہیں ہو ۔
اس لیے ہر شخص کو چاہیے کہ بغیر علم کے دین کے کسی مسئلے پر کلام نہ کریں بالخصوص حلال وحرام میں، اور عقائد کے مسائل میں،
(2)بغیر علم کے شرعی امور میں بولنا ان کاموں میں سے ہیں جن کا شیطان حکم دے رہا ہوتا ہے اور وہ شیطان کی پیروی کررہا ہوتا ہے جیسا کہ فرمان الٰہی ہے : يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الأَرْضِ حَلالًا طَيِّبًا وَلا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ ۝ إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ [البقرة:169] اے لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی نقش قدم پر مت چلو وہ تو تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ۔ وہ تمہیں صرف برائی اور بےحیائی کا اور اللہ تعالٰی پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں ہے ۔
معلوم ہوا کہ بغیر علم کے شرعی امور میں بولنا شیطان کے نقش قدم پر چلنا ہے جبکہ شیطان کی راہ پر چلنا گمراہ کن ہے
(3)شرعی امور میں بغیر علم کے بولنے والا نیکی نہیں بلکہ گناہ کماتا ہے یعنی وہ گنہگار ہوتا ہے اور خائن فی الدین ہوتا ہے جیسا کہ روایت میں ہے" عن عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ أُفْتِيَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ ، ‏‏‏‏‏‏زَادَ سُلَيْمَانُ الْمَهْرِيُّ فِي حَدِيثِهِ:‏‏‏‏ وَمَنْ أَشَارَ عَلَى أَخِيهِ بِأَمْرٍ يَعْلَمُ أَنَّ الرُّشْدَ فِي غَيْرِهِ فَقَدْ خَانَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا لَفْظُ سُلَيْمَانَ.(ابوداؤد :3657 وصححه الألباني )عبد الملک بن مروان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے فتوی دیا اور سلیمان بن داود مہری کی روایت میں ہے جس کو بغیر علم کے فتوی دیا گیا۔ تو اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہو گا ۔ سلیمان مہری نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ جس نے اپنے بھائی کو کسی ایسے امر کا مشورہ دیا جس کے متعلق وہ یہ جانتا ہو کہ بھلائی اس کے علاوہ دوسرے میں ہے تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی۔
اور دوسری روایت میں ہے کہ" عن أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ أُفْتِيَ بِفُتْيَا غَيْرَ ثَبَتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ"(رواہ ابن ماجه:53,وصححه الألباني ) کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے ( بغیر تحقیق کے ) کوئی غلط فتویٰ دیا گیا ( اور اس نے اس پر عمل کیا ) تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہو گا ۔
(4)جو بغیر علم کے شرعی امور میں باتیں کرتے ہیں وہ دو اور بڑے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے
(1)ایک اللہ تعالیٰ پر جھوٹا افترا پردازی کی جرأت جو کہ کبیرہ گناہ ہے :جیسا کہ فرمان الٰہی ہے : وَلاَ تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلاَلٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ ( النحل/116) کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو ، سمجھ لو کہ اللہ تعالٰی پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں دوسری جگہ پر اللہ تعالیٰ جزر توبیخ اور تنبیہ کر تے ہوئے فرماتا ہے "قل أرأيتم ما أنزل الله لكم من رزق فجعلتم منه حراما وحلالا قل آلله أذن لكـم أم على الله تفترون" (يونس :59) آپ کہیے کہ یہ تو بتاؤ کہ اللہ نے تمہارے لئے جو کچھ رزق بھیجا تھا پھر تم نے اس کا کچھ حصہ حرام اور کچھ حلال قرار دے لیا ، آپ پوچھئے کہ کیا تم کو اللہ نے حکم دیا تھا یا اللہ پر افترا ہی کرتے ہو؟
(2)دوسرا بڑا گناہ اپنے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی ضلالت وگمراہی میں ڈالنا ہے جیسا کہ عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا ، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا "(رواه البخاري :100
ومسلم (2673) کہ اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
اور دوسروں کو گمراہ کرنا بہت ہی سنگین جرم ہے اور اس کے نتائج بھی خطرناک ہے
(5)بغیر علم کے دینی امور میں بولنا لعنتی والا کام ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نکلے، تو ہم میں سے ایک شخص کو ایک پتھر لگا، جس سے اس کا سر پھٹ گیا، پھر اسے احتلام ہو گیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا: کیا تم لوگ میرے لیے تیمم کی رخصت پاتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہم تمہارے لیے تیمم کی رخصت نہیں پاتے، اس لیے کہ تم پانی پر قادر ہو، چنانچہ اس نے غسل کیا تو وہ مر گیا، پھر جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ يَعْلَمُوا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَنْ يَتَيَمَّمَ وَيَعْصِرَ أَوْ يَعْصِبَ شَكَّ مُوسَى عَلَى جُرْحِهِ خِرْقَةً ثُمَّ يَمْسَحَ عَلَيْهَا وَيَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِهِ "(أخرجه أبو داود :336) کہ ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ ان کو مارے، جب ان کو مسئلہ معلوم نہیں تھا تو انہوں نے کیوں نہیں پوچھ لیا؟ نہ جاننے کا علاج پوچھنا ہی ہے، اسے بس اتنا کافی تھا کہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا ( یہ شک موسیٰ کو ہوا ہے ) ، پھر اس پر مسح کر لیتا اور اپنے باقی جسم کو دھو ڈالتا ۔
اس حدیث سے جہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ بغیر علم کے دینی امور میں بولنا لعنت وپھٹکار والا کام ہے وہیں یہ بات بھی معلوم ہو رہی ہے کہ جب بھی کسی دینی امور میں شک وشبہ ہو یا سرے سے ہی مطلوبہ چیز کے بارے میں علم ہی نہ ہو تو اہل علم سے پوچھو ۔
(6) بغیر علم کے دینی امور میں بولنے کے خطرناک نتائج میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان افکار ونظریات وخیالات اور گمان کا پیروکار بن کر حلال کو حرام اور حرام کو حلال سمجھ لیتا ہے اور نفسانی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے جیسا کہ فرمان الٰہی ہے" وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُواْ مِمَّا ذُكِرَ ٱسْمُ ٱللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا ٱضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَآئِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِٱلْمُعْتَدِينَ"(سورة الأنعام :119)" اور آخر کیا وجہ ہے کہ تم ایسے جانور میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو حالانکہ اللہ تعالٰی نے ان سب جانوروں کی تفصیل بتا دی ہے جن کو تم پر حرام کیا ہے مگر وہ بھی جب تم کو سخت ضرورت پڑ جائے تو حلال ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ بہت سے آدمی اپنے خیالات پر بلا کسی سند کے گمراہ کرتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالٰی حد سے نکل جانے والوں کو خوب جانتا ہے "
کئی ایسی حلال چیزیں ہیں جسے انسان حرام یا مکروہ سمجھ کر استعمال نہیں کرتا اور اسے اس چیز کے حلال ہونے کے دلائل دئیے جاتے ہیں تو وہ تعجب میں پڑ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم تو پہلی بار سن رہے ہیں,
اسی طرح کئ ایسے حرام اشیاء ہیں جنہیں انسان حلال اشیاء کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔
(7) بغیر علم کے دینی امور میں بولنے کے خطرناک نتائج میں سے ایک یہ بھی ہےکہ اسے شرک جیسی عظیم خرابیاں رونما ہوتی ہیں جیسے کہ یہودیوں نے عزیر علیہ السلام کو اور نصاریٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنا ڈالا اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں تسلیم کر لیا اور ان کی عبادت کر کے شرک کا ارتکاب کیا، یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید کا علم حاصل نہیں کیا، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة الأنعام میں یوں فرمایا :وَجَعَلُواْ لِلَّهِ شُرَكَآءَ ٱلْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُواْ لَهُۥ بَنِينَ وَبَنَٰتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍۢ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ وَتَعَٰلَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ(سورة الأنعام:100)"اور لوگوں نے شیاطین کو اللہ تعالٰی کا شریک قرار دے رکھا ہے حالانکہ ان لوگوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے اور ان لوگوں نے اللہ کے حق میں بیٹے اور بیٹیاں بلا علم تراش رکھی ہیں اور وہ پاک اور برتر ہے ان باتوں سے جو یہ کرتے ہیں ۔"
(8)مسلمانوں کو یہ جان لینا ضروری ہے کہ بنا علم کے باتیں کرنا بہت بڑا گناہ اور جرم ہے کیونکہ اس سے لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں اور جب تک یہ گمراہی جاری رہے گی اس شخص کے گناہوں میں اللہ تعالیٰ برابر اضافہ کرتا رہے گا جیسا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے" اشد الناس عذابا يوم القيامة رجل قتل نبيا أو قتله نبي، أو رجل يضل الناس بغير علم "(مسند احمد )
ایسے لوگوں کی موجودہ زمانے میں کمی نہیں ہے جنہیں دین کا علم نہیں ہے لیکن وہ دین داری کا ظاہری لبادہ اڑھ کر حلیہ بشری بنا کر کے اپنے آپ کو بڑا عالم ظاہر کرتے ہیں اور غلط باتیں بیان کرکے لوگوں کو گمراہ کرتے اور معصوم لوگ عقیدت مندی میں ان کی باتوں کو صحیح سمجھ جاتے ہیں اور اسی پر عمل کرتے ہیں ۔اس لئے ایسے لوگوں کو وہی نصیحت ہے جس کو اللہ تعالیٰ یوں بیان فرمایا ہے "ولا تقف ما ليس لك به علم ان السمع والبصر والفؤاد كل أولئك كان عنه مسؤولا" (الإسراء :36) .جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑو کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے ۔
ہمارا تعامل کیسے ہو؟
بغیر علم کے شرعی احکام میں بولنے والے بردرس، اور نیم علماء کے ساتھ ہمارا تعامل ویسے ہی ہو جیسا کہ ہمارے سلف صالحین کا ان کے تئیں موقف تھا
امام مسلم رحمہ اللہ مقدمہ مسلم میں ابوزيادرحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے مدینہ میں ایسے سو لوگوں کو پایا جو دین وامانت کے معاملے میں بالکل مامون تھے ۔لیکن ان سے حدیث قبول نہیں کی جاتی تھی ۔کہا جاتا تھا کہ یہ اس کے اہل نہیں ہیں،
اور "الکفایة" میں ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ ایسے لوگوں سے علم حاصل نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انہوں نے یہ علم علماء سے نہیں سیکھا تھا، بلکہ کتابوں سے رٹ لیا تھا
اور "الکفایة" ہی میں ہے کہ امام ثور بن یزید جو کبار اتباع التابعين میں سے ہیں،فرماتے ہیں کہ کتابوں سے علم حاصل کرنے والے لوگوں کو فتویٰ نہ دیں ، اور نہ مصحف سے قرآن سیکھنے والے لوگوں کو قرآن پڑھائیں
مختصر یہ ہے کہ شرعی امور میں بغیر علم کے باتیں کرنا انتہائی خطرناک ہے، دنیا وآخرت کی تباہی وبربادی کا باعث ہے
اس لیے ہم علماء وطلباء یا عوام کو چاہیے بلا تحقیق کوئی بات نہ کریں،اگر آپ کو مطلوبہ مسئلہ پر مکمل کمانڈ اور یقین ہیں تو اپنی زبان کھولیں ورنہ "واللہ اعلم" اور«لا أدري»جیسے کلمات کہ کر آگے بڑھیں جیسا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "يأيها الناس من علم شيئا فليقل به، ومن لم يعلم فليقل: الله أعلم، فإن من العلم ان يقول لما لا يعلم الله أعلم" ائے لوگو! جو شخص کسی چیز کو اچھی طرح جانتے ہوں تو وہ اس کے بارے میں کہیں، اور جو نہیں جانتے ہوں تو وہ "الله اعلم " کہیں کیوں کہ "الله اعلم "کہنا بھی علم ہے جس کے بارے میں آپ نہیں جانتے ہوں
ایسے ہی ہم دینی احکام ایسے لوگوں سے ہرگز نہ پوچھیں جو اس کے اہل نہ ہو بلکہ ذی علم شخصیات اور ماہرین فن سے دریافت کریں ۔جیسا کہ فرمان الٰہی ہے فاسألوا أهل الذكر ان كنتم لا تعلمون( النحل: 143) اگر آپ نہیں جانتے ہو تو اہل علم سے پوچھو ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا گوں کہ ہمیں علم نافع عطا فرمائے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!
Sort Order:  
  ·  2 years ago  ·  

Nice post

  ·  2 years ago  ·  

Thanks

  ·  2 years ago  ·  


** Your post has been upvoted (1.58 %) **