Quran

in r2cornell •  3 years ago 

تفہیم القرآن سورۃ نمبر
Screenshot_2021-11-07-16-25-25-61.jpg
9
التوبة آیت نمبر 61

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمِنۡهُمُ الَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ النَّبِىَّ وَيَقُوۡلُوۡنَ هُوَ اُذُنٌ‌ ؕ قُلۡ اُذُنُ خَيۡرٍ لَّـكُمۡ يُؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَيُؤۡمِنُ لِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَرَحۡمَةٌ لِّـلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ‌ ؕ وَالَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ رَسُوۡلَ اللّٰهِ لَهُمۡ عَذَابٌ اَ لِيۡمٌ ۞

ترجمہ:
ان میں کچھ لوگ ہیں جو اپنی باتوں سے نبی کو دُکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔{69} کہو ” وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے{70}، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہلِ ایمان پر اعتماد کرتا ہے{71} اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں کےلیے جو تم میں سے ایماندار ہیں ۔ اور جو لوگ اللہ کے رسول کو دُکھ دیتے ہیں ان کے لیے دردناک سزا ہے۔“

تفسیر:
{69}منافقین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جن عیوب سے متہم کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر شخص کی سن لیتے تھے اور ہر ایک کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا کرتے تھے۔ یہ خوبی ان کی نگاہ میں عیب تھی۔ کہتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کانوں کے کچے ہیں، جس کا جی چاہتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ جاتا ہے جس طرح چاہتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کان بھرتا ہے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی بات مان لیتے ہیں۔ اس الزام کا چرچا زیادہ تر اس وجہ سے کیا جاتا تھا کہ سچے اہل ایمان ان منافقین کی سازشوں اور ان کی شرارتوں اور ان کی مخالفانہ گفتگوؤں کا حال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا دیا کرتے تھے اور اس پر یہ لوگ سیخ پا ہو کر کہتے تھے کہ آپ ہم جیسے شرفا و معززین کے خلاف ہر کنگلے اور ہر فقیر کی دی ہوئی خبروں پر یقین کرلیتے ہیں۔

{70}جواب میں ایک جامع بات ارشاد ہوئی ہے جو اپنے اندر دو پہلو رکھتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ فساد اور شر کی باتیں سننے والا آدمی نہیں ہے بلکہ صرف انہی باتوں پر توجہ کرتا ہے جن میں خیر اور بھلائی ہے اور جن کی طرف التفات کرنا امت کی بہتری اور دین کی مصلحت کے لئے مفید ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کا ایسا ہونا تمہارے ہی لیے بھلائی ہے۔ اگر وہ ہر ایک کی سن لینے والا اور ضبط و تحمل سے کام لینے والا آدمی نہ ہوتا تو ایمان کے وہ جھوٹے دعوے اور خیر سگالی کی وہ نمائشی باتیں اور راہ خدا سے بھاگنے کے لیے وہ عذرات لنگ جو تم کیا کرتے ہو انہیں صبر سے سنے کے بجائے تمہاری خبر لے ڈالتا اور تمہارے لیے مدینہ میں جینا دشوار ہوجاتا۔ پس اس کی یہ صفت تو تمہارے حق میں اچھی ہے نہ کہ بری۔

{71}یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ وہ ہر ایک کی بات پر یقین لے آتا ہے۔ وہ چاہے سنتا سب کی ہو مگر اعتماد صرف انہی لوگوں پر کرتا ہے جو سچے مومن ہیں۔ تمہاری جن شرارتوں کی خبریں اس تک پہنچیں اور اس نے ان پر یقین کیا وہ بداخلاق چغلخوروں کی پہنچائی ہوئی نہ تھیں بلکہ صالح اہل ایمان کی پہنچائی ہوئی تھیں اور اسی قابل تھیں کہ ان پر اعتماد کیا جاتا۔

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!
Sort Order:  

Congratulations! This post has been upvoted by the @blurtcurator communal account,
You can request a vote every 12 hours from the #getupvote channel in the official Blurt Discord.Don't wait to join ,lots of good stuff happening there.

  ·  3 years ago  ·  

Thank you for using my upvote tool 🙂
Your post has been upvoted (1.62 %)

Delegate more BP for better support and daily BLURT reward 😉
@tomoyan
https://blurtblock.herokuapp.com/blurt/upvote