Information

in r2cornell •  3 years ago 

________________________

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطَانِ الرَّجيـم.

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.

________________________

سورہ الاعراف آیت نمبر 141

وَ اِذۡ اَنۡجَیۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ ۚ یُقَتِّلُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآءٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ ﴿۱۴۱﴾٪

ترجمہ:

اور (اللہ فرماتا ہے کہ) یاد کرو ہم نے تمہیں فرعون کے لوگوں سے بچایا ہے جو تمہیں بدترین تکلیفیں پہنچاتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو قتل کر ڈالتے تھے، اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے۔ اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔

تفسیر:

آسان ترجمۂِ قرآن

مفتی محمد تقی عثمانی

https://goo.gl/2ga2EU

~~~~~~~~~~~~~~~~

سورہ الاعراف آیت نمبر 142

وَ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰی ثَلٰثِیۡنَ لَیۡلَۃً وَّ اَتۡمَمۡنٰہَا بِعَشۡرٍ فَتَمَّ مِیۡقَاتُ رَبِّہٖۤ اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً ۚ وَ قَالَ مُوۡسٰی لِاَخِیۡہِ ہٰرُوۡنَ اخۡلُفۡنِیۡ فِیۡ قَوۡمِیۡ وَ اَصۡلِحۡ وَ لَا تَتَّبِعۡ سَبِیۡلَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۱۴۲﴾

ترجمہ:

اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ ٹھہرایا (کہ ان راتوں میں کوہِ طور پر آکر اعتکاف کریں) پھر دس راتیں مزید بڑھا کر ان کی تکمیل کی (٦٤) اور اس طرح ان کے رب کی ٹھہرائی ہوئی میعاد کل چالیس راتیں ہوگئیں۔ اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ : میرے پیچھے تم میری قوم میں میرے قائم مقام بن جانا، تمام معامات درست رکھنا اور مفسد لوگوں کے پیچھے نہ چلنا۔

تفسیر:

64: فرعون سے نجات پانے اور سمندر عبور کرلینے کے بعد کچھ واقعات اس جگہ بیان نہیں ہوئے، ان کی کچھ تفصیل سور مائدہ (20:50 تا 26) میں گذر چکی ہے۔ ان آیات کے حواشی میں ہم نے یہ تفصیل بقدر ضرورت بیان کردی ہے۔ اب یہاں سے دو واقعات بیان فرمائے جا رہے ہیں جو وادی تیہ (صحرائے سینا) میں پیش آئے جہاں بنی اسرائیل کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے چالیس سال تک مقیّد کردیا گیا (جس کا واقعہ سورة مائدہ میں گزارا ہے) اس دوران انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ اپنے وعدے کے مطابق ہمیں کوئی آسمانی کتاب لا کردیں جس میں ہمارے لئے زندگی گزارنے کے قوانین درج ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت فرمائی کہ وہ کوہِ طور پر آکر تیس دن رات اعتکاف کریں۔ بعد میں کسی مصلحت سے یہ مدت بڑھا کر چالیس دن کردی گئی۔ اسی اعتکاف کے دوران اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم کلامی کا شرف عطا فرمایا، اور تورات عطا فرمائی جو تختیوں پر لکھی ہوئی تھی۔

آسان ترجمۂِ قرآن

مفتی محمد تقی عثمانی

https://goo.gl/2ga2EU

~~~~~~~~~~~~~~~~

سورہ الاعراف آیت نمبر 143

وَ لَمَّا جَآءَ مُوۡسٰی لِمِیۡقَاتِنَا وَ کَلَّمَہٗ رَبُّہٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰٮنِیۡ وَ لٰکِنِ انۡظُرۡ اِلَی الۡجَبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوۡفَ تَرٰٮنِیۡ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبۡحٰنَکَ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۴۳﴾

ترجمہ:

اور جب موسیٰ ہمارے مقررہ وقت پر پہنچے اور ان کا رب ان سے ہم کلام ہوا تو وہ کہنے لگے : میرے پروردگار ! مجھے دیدار کرا دیجئے کہ میں آپ کو دیکھ لوں۔ فرمایا : تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکو گے، البتہ پہاڑ کی طرف نظر اٹھاؤ، اس کے بعد اگر وہ اپنی جگہ برقرار رہا تو تم مجھے دیکھ لو گے۔ (٦٥) پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اس کو ریزہ ریزہ کردیا، اور موسیٰ بےہوش ہو کر گر پڑے۔ بعد میں جب انہیں ہوش آیا تو انہوں نے کہا : پاک ہے آپ کی ذات۔ میں آپ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور ( آپ کی اس بات پر کہ دنیا میں کوئی آپ کو نہیں دیکھ سکتا) میں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں۔

تفسیر:

65: اللہ تعالیٰ کا دیدار اس دنیا میں تو ممکن نہیں تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس بات کا مظاہرہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کرادیا کہ دنیا میں انسانوں کو تو کجا، پہاڑوں کو بھی یہ طاقت نہیں دی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تجلی کو برداشت کرسکیں۔

آسان ترجمۂِ قرآن

مفتی محمد تقی عثمانی

https://goo.gl/2ga2EU

~~~~~~~~~~~~~~~~

سورہ الاعراف آیت نمبر 144

قَالَ یٰمُوۡسٰۤی اِنِّی اصۡطَفَیۡتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیۡ وَ بِکَلَامِیۡ ۫ۖ فَخُذۡ مَاۤ اٰتَیۡتُکَ وَ کُنۡ مِّنَ الشّٰکِرِیۡنَ ﴿۱۴۴﴾

ترجمہ:

فرمایا : اے موسیٰ ! میں نے اپنے پیغام دے کر اور تمام سے ہم کلام ہو کر تمہیں تمام انسانوں پر فوقیت دی ہے۔ لہٰذا میں نے جو کچھ تمہیں دیا ہے، اسے لے لو، اور ایک شکر گزار شخص بن جاؤ۔

تفسیر:

آسان ترجمۂِ قرآن

مفتی محمد تقی عثمانی

https://goo.gl/2ga2EU

~~~~~~~~~~~~~~~~

سورہ الاعراف آیت نمبر 145

وَ کَتَبۡنَا لَہٗ فِی الۡاَلۡوَاحِ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ مَّوۡعِظَۃً وَّ تَفۡصِیۡلًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ ۚ فَخُذۡہَا بِقُوَّۃٍ وَّ اۡمُرۡ قَوۡمَکَ یَاۡخُذُوۡا بِاَحۡسَنِہَا ؕ سَاُورِیۡکُمۡ دَارَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۱۴۵﴾

ترجمہ:
اور ہم نے ان کے لئے تختیوں میں ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی، (اور یہ حکم دیا کہ) اب اس کو مضبوطی سے تھام لو، اور اپنی قوم کو حکم دو کہ اس کے بہترین احکام پر عمل کریں۔ (٦٦) میں عنقریب تم کو نافرمانوں کا گھر دکھا دوں گا۔ (٦٧)

تفسیر:

66: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تورات کے تمام ہی احکام بہترین ہیں، ان پر عمل کرنا چاہئے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جہاں تورات نے ایک کام کو جائز کہا ہو، لیکن دوسرے کام کو بہتر یا مستحب قرار دیا ہو تو اللہ تعالیٰ کے شکر کا تقاضا یہ ہے کہ اس کام کو اختیار کرلیا جائے جس کو اس میں بہترین قرار دیا گیا ہے۔ 67: بظاہر اس سے مراد فلسطین کا علاقہ ہے جو اس وقت عمالقہ کے قبضے میں تھا۔ اور دکھانے سے مراد یہ ہے کہ وہ علاقہ بنی اسرائیل کے قبضے میں آجائے گا۔ جیسا کہ حضرت یوشع اور حضرت سموئیل (علیہما السلام) کے زمانے میں ہوا۔ بعض مفسرین نے ” نافرمانوں کے گھر “ کا مطلب دوزخ بتایا ہے اور مقصد یہ بیان کیا ہے کہ آخرت میں تمہیں نافرمانوں کا یہ انجام دکھا دیا جائے گا کہ جنہوں نے تم پر ظلم کئے تھے وہ کس برے حال میں ہیں۔

آسان ترجمۂِ قرآن

مفتی محمد تقی عثمانی

https://goo.gl/2ga2EU

~~~~~~~~~~~~~~~~

05':11:2021:

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!