لاہور (نظام الدولہ )رکشہ اور چنگ چی سواری پاکستانی ٹریفک کا ناسور بن چکی ہے ۔اس وقت عالم یہ ہے کہ چنگ چی بڑے شہروں میں کافی کم ہوکر قصبوں اور دیہاتوں کی جانب منتقل ہورہی ہے لیکن شہروں میں رکشوں کا بے محابہ اضافہ ہورہا ہے۔یہ رکشے عام طور پر انتہائی ناقص ثابت ہورہے ہیں ۔
حکومت ماحول دوست رکشوں کے لئے کئی طرح کی ترغیبات اور ایکشن بھی لے چکی ہے لیکن دھواں چھوڑنے والے اور غیر معیاری رکشوں سے جان چھڑوانا مشکل ہوچکا ہے لیکن اب پاکستان میں سولر رکشہ آنے سے امید پیدا ہوئی ہے کہ روائتی رکشوں سے نجات مل جائے گا اور کار جیسی سہولت والے سولر رکشہ ماحول بھی صاف رکھیں گے اور سستی شاہی سواری دستیاب ہوجائے گی۔یہ سولر رکشے کار جیسی ڈیزائنگ کے حامل ہیں۔ پشاور میں تو کارنما رکشے عام دکھائی دینے لگے ہیں لاہور میں بھی سولر رکشہ کا کار ماڈل نظر آنے لگا ہے ۔ سولر رکشہ چلانے والے ایک رکشہ مالک عبدالقدوس بھٹی کا کہنا ہے کہ جب سے جاپانی رکشہ بند کرایا گیا ہے تب سے چائینہ رکشے نے مارکیٹ پر اجارہ داری قائم کررکھی ہے ´۔یہاں اس وقت زیادہ تر رکشے چائینہ کے انجن سے ہی تیار کئے جارہے ہیں جو انتہائی ناقص ہیں ۔سستے داموں چائینہ سے انجن بنوانے والی پاکستانی رکشہ انڈسٹری دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے اور پاکستانی سڑکوں کو مدنظر رکھے بغیر ایسے نازک اور فرسودہ شاک فٹ کرتی ہے جس سے خراب سڑکوں پر رکشہ کے ساتھ ساتھ سواری کا اینجر پنجر ہل جاتا ہے۔ دوسری جانب گیس اتنی مہنگی ہوچکی ہے کہ رکشہ والے افورڈ نہیں کرپاتے لہذا میں نے جب سنا کہ اب پاکستان میں سولر رکشہ آگیا ہے تو اس کا تجربہ کیا ۔اگرچہ اس کی رفتار دوسرے رکشوں سے کم ہے لیکن اس میں کار جیسی سہولت ملتی ہے۔
باہر سے یہ کار دکھائی دیتا ہے تو اندر سے بھی قدر ایسا ہے ۔ سواری کودوران سفر جھٹکے نہیں لگتے نہ اسے کہنا پڑتا” بھائی ذرا آرام سے چلو “ کیونکہ یہ رکشہ زیادہ سپیڈ سے نہیں چلتا ۔شہر میں جو سپیڈ مقرر ہے اس سے اعتبار سے سولررکشہ مناسب ہے ۔ اب بہت سے رکشہ والے سولر رکشہ خرید رہے ہیں ،کئی لوگوں کو میں جانتا ہوں جو لاہور کی تنگ گلیوں میں رہتے ہیں اور انہوں نے کارکی بجائے کارنما سولر رکشہ خرید رکھا ہے ۔وہ دفتر بھی اس پر جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے رکشہ ڈرائیور رکھ لئے ہیں جو انہیں دفتر میں ڈراپ کرکے باقی وقت سواریاں تلاش کرتے ہیں ۔