ایک نئی تحقیق کے مطابق پالک، گوبھی اور بند گوبھی جیسی پتوں والی سبزیوں کا زیادہ استعمال انسانوں میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کا خطرہ 14 فیصد تک کم کر دیتا ہے۔
مطالعہ کے دوران، ماہرین نے سابقہ معلومات اور ان کے نتائج پر بھی تفصیل سے غور کیا، جو اس موضوع پر پہلے مکمل کیے گئے چھ تحقیقی منصوبوں سے حاصل کیے گئے تھے۔
Source
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ عام آبادی میں موٹاپا ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ بھی بڑھا سکتا ہے اور پتوں والی سبزیوں کا زیادہ استعمال اس خطرے کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے بلکہ لوگوں کو اپنا توازن برقرار رکھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ دیتا ہے۔ خوراک اور باقاعدہ ورزش پر بھی غور کرنا چاہیے۔
لیسٹر یونیورسٹی میں ذیابیطس کی تحقیق کے شعبے کی خاتون محقق پیٹریس کارٹر کا کہنا ہے کہ تحقیق کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ بڑی پتوں والی سبزیاں ٹائپ ٹو ذیابیطس سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی نئی تحقیق اور چھ پچھلے تحقیقی منصوبوں میں امریکہ، چین اور فن لینڈ میں 30 سے 74 سال کی عمر کے 200,000 افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ پیٹریس کارٹر کے مطابق پھلوں کا استعمال ذیابیطس ٹائپ ٹو سے بچاؤ میں بھی بہت مددگار ثابت ہوتا ہے تاہم بڑی سبز پتوں والی سبزیاں پھلوں سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں جن پر اب مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
برطانوی ماہرین کی ٹیم کے مطابق پالک اور بند گوبھی جیسی سبزیوں میں میگنیشیم اور اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو چربی کو کم کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے اور ان کا استعمال صحت کے لیے اب بھی بہت فائدہ مند ہے۔ ہے ہوتا ہے
پیٹریس کارٹر اور ان کے ساتھیوں کے پچھلے تحقیقی منصوبوں کے نتائج نے ساڑھے چار سے 23 سال کے عرصے میں زیرِ مشاہدہ مضامین کا دوبارہ جائزہ لیا۔ کس نے کون سے پھل اور سبزیاں کھائیں اور ان میں سے کتنے لوگوں میں بعد میں ٹائپ 2 ذیابیطس کی تشخیص ہوئی اس کی تفصیلات کا بھی دوبارہ تجزیہ کیا گیا۔
اس تقابلی مطالعے کے نتائج میں ایسے مریضوں میں ٹائپ 2 ذیابیطس کے واقعات میں کوئی خاص فرق نہیں پایا گیا جنہوں نے زیادہ سبزیاں یا پھل یا دونوں کھاتے ہیں، حالانکہ ایسے مریضوں میں واقعات کی شرح نمایاں طور پر کم تھی۔ جنہوں نے دن میں ایک سے زیادہ بار سبز پتوں والی بڑی سبزیاں کھائیں۔ جب اس تحقیق کے اعداد و شمار سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ جو مریض سبز پتوں والی سبزیاں کھاتے ہیں ان میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کے واقعات ان لوگوں کے مقابلے میں 14 فیصد کم تھے جو نہیں کھاتے تھے۔
ٹائپ 2 ذیابیطس اس وقت ہوتی ہے جب انسانی جسم اپنے انسولین کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ انسولین ایک ہارمون ہے جو خون میں گلوکوز کی سطح کو کنٹرول کرتا ہے۔ خون میں گلوکوز کی اس سطح کو عام طور پر بلڈ شوگر لیول بھی کہا جاتا ہے اور اگر یہ شرح زیادہ رہی تو اس کے انسانی آنکھوں، گردوں، دل اور دیگر کئی اعضاء پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 180 ملین افراد ذیابیطس کا شکار ہیں۔ پہلے یہ مرض صرف امیر اور خوشحال ممالک میں دیکھا جاتا تھا لیکن اب افریقی اور ایشیائی ممالک میں بھی اس بیماری کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے جس سے صحت عامہ کے نظام پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ہے
ذیابیطس ایک عام لاعلاج بیماری ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا نہ کوئی مستقبل ہے اور نہ ہی کوئی ایک وقتی علاج لیکن مریض کو ہر وقت کوشش کرنی پڑتی ہے کہ وہ موٹا نہ ہو اور صحت مند رہے۔ بہت سے مریض صرف اپنی خوراک کو کنٹرول کر کے اپنے خون میں گلوکوز کی سطح کو کم رکھنے کا انتظام کرتے ہیں، جب کہ دوسرے مریضوں کو ادویات اور انتہائی صورتوں میں انسولین کے انجیکشن کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف اوٹاگو میں موٹاپے اور ذیابیطس کے بارے میں ایڈگر نیشنل ریسرچ سینٹر کے ڈاکٹر جم مان اور امپیریل کالج لندن کے ڈیگفن عون نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ صرف بڑی سبز پتوں والی سبزیاں ہی اس کا جواب نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں پورے 'فوڈ گروپ' کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔