السلام علیکم میرے دوستو اور ساتھیو
امید کہ آپ تمام احباب خیر و عافیت سے ہوں گے
میرے بلاغ میں آپ سبھی کا خیر مقدم ہے
مزید کسی تاخیر کے شروع کرتے ہیں آج موضوع کو
▪️فہم سلف: سلف صالحین کی سمجھ، یعنی صحابہ وتابعین نے نصوصِ شریعت سے جو کچھ سمجھا ہے ہمیں بھی وہی سمجھنا ہے اپنی طرف سے کوئی نیا مفہوم ایجاد نہیں کرنا ہے، مثال کے طور پر سلف نے ﴿الرحمن على العرش استوى﴾ سے بلا تمثیل وتاویل حقیقی معنی میں عرش پر مستوی ومستقر ہونا سمجھا ہے، لہٰذا ہمیں بھی وہی معنی سمجھنا ہے نہ تو تاویل کرنی ہے کہ تختہ حکومت پر جلوہ افروز ہوا اور نہ ہی معنی کی تفویض کرنی ہے کہ کچھ نہیں معلوم، (ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى السماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الأخير) سے سلف نے بغیر تشبیہ وتعطیل کے حقیقی معنوں میں نزول باری تعالیٰ سمجھا ہے تو ہمیں بھی وہی معنی اخذ کرنا ہے، نہ کہ نزولِ امر الٰہی وغیرہ کہہ کر نص حدیث کی معنوی تحریف کرنی ہے، اسی طرح فقہی مسائل میں بھی سلف صالحین سے جو منقول ہے ہمیں اسی کے تناظر میں مسائل کو سمجھنا ہے، اگر کسی مسئلہ میں سلف کا اجماع ہے جیسے موسیقی کی حرمت، ہر قسم کی ربا کی ممانعت، داڑھی چھیلنے اور تشبہ بالکفار کی حرمت وغیرہ، تو ہمارے لئے چور دروازے تلاش کر کے جواز کی راہیں ہموار کرنا اور ایک نیا موقف پیش کرنا قطعاً جائز نہیں ہے، اور اگر کسی مسئلہ میں دو یا تین محدود آراء ہیں تو ہمیں انہیں کے بیچ رہنا ہے اور کوئی نئی رائے قائم نہیں کرنی ہاں ان اقوال کے مابین جمع وتطبیق جو اصول شریعت سے ہم آہنگ ہو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
▪️منہج سلف: سلف صالحین صحابہ وتابعین کا وہ طریقہ جس پر وہ دین کے تمام ابواب ومسائل میں چلیں ہیں، خواہ وہ مصادر شریعت کی تعیین وترتیب کا باب ہو، عقائدِ دین کا معاملہ ہو یا پھر فقہیات وسیاسیات کے مسائل؛ تمام امور میں سلف صالحین کے طرز عمل کی اتباع کرنا ہی سلفیت کی پیروی ہے جو کہ در اصل اجماع امت سے احتجاج، سبیل المؤمنین کی اتباع اور"ما أنا عليه اليوم وأصحابي" کی عملی تصویر ہے۔
چناچہ یہ یقین رکھنا کہ عقائد کے باب میں صرف قرآن، سنت صحیحہ اور اجماع صحابہ ہی قابل حجت ہیں اور امور دین بالخصوص عقائد اور غیبیات میں عقل کی مستقل کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ اس کا کام محض معاون ومساعد کا ہے، مزید وہ نصوصِ شریعت کے تابع ہے نہ کہ ان پر مقدّم۔
نیز تفسیر کرتے وقت قرآن کی تفسیر قرآن و سنت سے پھر اقوال صحابہ سے پھر بعض احوال میں اقوال تابعین سے اور عربی زبان سے کرنا اور اس باب میں رائے وقیاس کا سہارا لینے اور بیجا سائنسی ولغوی اور بلاغی اعجاز کا اثبات کرنے سے اجتناب کرنا۔
نصوص کتاب وسنت کو اقوال سلف کی روشنی میں ان کے ظاہری مفہوم پر محمول کرنا اور بیجا تاویل اور بے محل رائے وقیاس اور عقلی گھوڑے دوڑانے سے بچنا۔
محکم پر عمل کرنا اور متشابہ پر ایمان لانا۔
علم کلام، فلسفہ اور دیگر ممنوع علوم سے اجتناب کرنا۔
شرک ومشرکین سے براءت کرنا اور توحید پر عمل کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا۔
بدعت و مبتدعین سے تحذیر کرنا اور سنت واہل سنت سے محبت کرنا۔
ہر قسم کی حزبیت، تفرقہ بازی، تعصب اور خروج وبغاوت سے دور رہنا۔
علم نافع حاصل کرنا، تزکیہ نفس اور اخلاق عالیہ سے مسلح ہونا یہی منہج سلف ہے، گویا منہج سلف مکمل دین اور اس دین کو برتنے کا طریقہ وسلیقہ ہے ، جبکہ فہم سلف نصوصِ شریعت کی وہ سمجھ ہے جو صحابہ کرام نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شاگردی اور صحبت میں رہ کر حاصل کی تھی اور تابعین عظام نے صحابہ کرام سے سیکھی تھی، چنانچہ فہمِ سلف منہج سلف کا اہم ترین جزو ہے لہٰذا جس طرح منہج سلف حجت ہے بعینہ اسی طرح فہم سلف بھی حجت ہے، اگر کوئی منہج سلف کی حجیت کا اقرار تو کرے لیکن فہم سلف کو حجت نہ سمجھے تو پھر وہ اس طرح سے بے شمار گمراہیوں کے راستے کھولتا ہے کیونکہ بدعات و خرافات اور شاذ ومنبوذ آراء کے سامنے اگر کوئی چیز رکاوٹ ہے تو وہ صرف اور صرف فہم سلف ہے، ورنہ یوں تو تمام اہل بدعت قرآن وحدیث سے ہی استدلال کا دعویٰ کرتے ہیں۔
🔸فہم سلف کو حجت نہ ماننے سے خواہش پرستی کی راہیں ہموار ہوں گی اور جو جس طرح سے چاہے گا نصوصِ قرآن وحدیث سے استدلال کرے گا، مثال کے طور پر کوئی عید میلاد النبی کے اثبات کے لئے صحیح مسلم کی حدیث (وَسُئِلَ عن صَوْمِ يَومِ الاثْنَيْنِ، قالَ: ذاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ، أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ) سے استدلال کرتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی یومِ ولادت کا اہتمام کیا تھا اس لئے آپ اس دن روزہ رکھتے تھے، گرچہ ہماری طرح خوشیاں نہیں مناتے تھے لیکن اس دن کا اہتمام کرنا بہر حال ثابت ہے۔
🔹ہر وہ آیت اور حدیث فہم سلف کے حجت ہونے کی دلیل ہے جو اجماع کی حجیت پر دلالت کرتی ہے، اور کوئی بھی شخص جو آپ کا مخالف ہے خواہ کافر ہو یا مسلم بغیر فہم سلف کی طرف لوٹائے آپ اس پر حجت قائم نہیں کر سکتے، کیونکہ آپ جو بھی دلیل دیں گے یا تو وہ اس کی تاویل پیش کر دے گا یا دوسرا لغوی معنی بیان کر دے گا،یا اپنی عقل سے اس دلیل کے الفاظ سے قریب تر کوئی مفہوم بتا دے گا، اس وقت آپ سلف صالحین کی طرف لوٹے بغیر اس کا جواب نہیں دے سکیں گے جیسا کہ باطنیہ کا حال ہے چنانچہ ان لوگوں نے ارکان اسلام میں سے ہر رکن کی تاویل کر ڈالی ہے اور کہتے ہیں کہ حج کا معنی امام کی زیارت اور ان کا قصد کرنا ہے، صوم کا معنی امام کی راز کو ظاہر کرنے سے رک جانا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔امام احمد رحمہ اللّٰہ نے اپنے شاگردوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا:"إياك أن تتكلم في مسألة ليس لك فيها إمام"تم کسی ایسے مسئلے میں بات کرنے سے بچو جس میں تم سے پہلے کسی نے بات نہ کی ہو، یا تم کسی مسئلے میں ایسی رائے دینے سے بچو جس رائے پر تماری موافقت کرنے والا تم سے پہلے تمہارا کوئی امام نہ ہو،۔۔۔یہی اصول ہے کہ لو کان خیراً لسبقونا الیہ۔۔۔اور "کل خیر فی اتباع من سلف وکل شر فی ابتداع من خلف''۔۔۔ لہٰذا ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ کسی دلیل کو سمجھنے میں کسی دور کے تمام اہل علم ناکام رہے ہوں یا سب نے مل کر غلط سمجھا ہو اور کسی کو مقصود الٰہی اور مراد نبوی تک رسائی نہ ہوئی ہو کیونکہ اس سے امت کا گمراہی پر متفق ہونا لازم آئے گا جبک صحیح حدیث میں اللّٰہ کے پیارے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:"لا تجتمع امتی علی ضلالۃ" کہ میری پوری امت کبھی گمراہی پر یکجا نہیں ہو سکتی۔۔۔ مزید فرماتے ہیں:"لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق لا يضرهم من خذلهم حتى يأتي أمر الله" میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر اور غالب رہے گا ان کے دشمن انہیں نقصان نہیں پہنچا پائیں گے وہ اسی طرح رہیں گے یہاں تک قیامت قائم ہو جائے گی۔
جب امت محمدیہ میں سے بعد میں آنے والے عام لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ کبھی غلطی پر جمع نہیں ہو سکتے تو خیر القرون اور سلف صالحین کا کیا مقام ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم فہم دین کا معیار سلف صالحین بالخصوص صحابہ کرام کے فہم کو سمجھتے ہیں اور کسی بھی دلیل سے کوئی ایسی رائے کشید کرنے سے مکمل طور پر رکتے ہیں اور دوسروں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں جو صحابہ وتابعین نے نہ کیا ہو، اگر کسی مسئلے میں یا آیت کے سمجھنے میں سلف صالحین سے دو قول منقول ہے تو ہم حق کو انہیں دو قول میں محصور سمجھتے ہیں،اگر تین ہے تو تین میں محصور سمجھتے ہیں اور اگر زیادہ ہے تو انہیں اقوال میں حق کو تلاش کرتے ہیں جو سلف سے منقول اور ثابت ہیں، اپنی طرف سے کوئی نیا قول نہیں گھڑتے ہیں اور نہ ہی کوئی نئی رائے پیش کرتے ہیں،یہی ہمارا منہج ہے اور ہم اسی کو اپنا دین سمجھتے ہیں۔
♦️یہ بالکل بدیہی بات ہے کہ فہم سلف کو حجت نہ ماننے سے فکری انتشار، فوضویت اور اختلافات کو مزید تقویت ملے گی، کیوں کہ اگر کوئی معین فہم معیار و میزان نہیں ہوگا تو ہر شخص اپنے ذوق اور خواہش کے مطابق استدلال واستنباط کرے گا اور کسی ایک ہی نص سے کئی متضاد احکام استنباط کرنے والوں میں سے کسی کی بھی تغلیط نہیں کی جا سکے گی کیونکہ ہر شخص کا یہی دعویٰ ہوگا کہ میں نے تو قرآنی آیت یا نص حدیث سے استدلال کیا ہے، میرا استدلال غلط اور مخالف کا صحیح اس کا معیار کیا ہے؟!!! لہٰذا یہ حق ہے ک منہج سلف کی طرح فہم سلف بھی حجت ہے اور اس سے فرار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔