السلام علیکم میرے دوستو اور ساتھیو
امید کہ آپ تمام احباب خیر و عافیت سے ہوں گے
میرے بلاغ میں آپ سبھی کا خیر مقدم ہے
مزید کسی تاخیر کے شروع کرتے ہیں آج موضوع کو
اس میں ادنی شک نہیں کہ اسلام کامل ومکمل دین ہے اور وہ قرآن وسنت صحیحہ کی شکل میں موجود ہے ،اللہ تعالی نے اس کو زمانے کے خرد برد اور لوگوں کی دست درازیوں سے محفوظ رکھا ہے (لا یأتیه الباطل من بین یدیه ولا من خلفه تنزیل من حکیم حمید)[فصلت :42]،اس کے باوجود لوگوں کی ہوی پرست طبیعت اسلام میں غیر مشروع اعمال وعبادات کو داخل کرنے اور ان کو اسلامی معاشروں میں جاری کرنےکی کوششیں کرتی رہی ہیں ،اور انہی غیر مشروع و غیر مانوس اعمال وعبادات کو "بدعت "کہا جاتا ہےجن کو لوگ دینی جذبہ اور طاعت وتقرب کی نیت سے انجام دیا کرتے ہیں ،اور یہ عمل ملت کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہوتارہا ہے ،اس سوء تصرف کی وجہ سے کتنی ساری سنتیں فراموش کردی گئیں ،کتنوں کی شرعی شکل وصورت کو مسخ کردیا گیا ، اور اب حالت یہ ہے کہ قلوب واذہان میں سنتوں سے اعراض وانحراف کا رجحان تیزی سے پھیلتا جارہا ہے ،سنت کی فصیلوں پر بدعات وخرافات کے گولوں سے متواتر حملے ہورہے ہیں ،لوگوں نے شریعت کو بازیچہ اطفال بنارکھا ہے ،بدعات کے متوالے ہر سو اور ہر ایک میدان میں پھیلے ہوئے نظر آتےہیں ، شراب نجس کے ان متوالوں کو قرآن وحدیث کے شراب طہور سے آسودگی حاصل نہیں ہو رہی ہے ،بدعات ورسوم کی آندھیوں نے فرائض وواجبات حتی کہ عقیدہ وایمان کے چراغوں کو بھی اپنی زد میں لے رکھا ہے ،اور ان پیش آمدہ خطرات کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اندازہ تھا اور آپ کواس بات کا اندیشہ تھا کہ مال وزر کے پجاریوں اور دین کے بیوپاریوں کے ذریعہ قبائےشریعت کو چاک کیاجائے گا اور اس کی ردائے حرمت وتقدس کو تارتار کرنے کی کوششیں کی جائیں گی،لہذا آپ نے امت کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کوئی میری یا میرے لائے ہوئے دین کی طرف کسی غلط بات کا انتساب نہ کرے ورنہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنالے [صحیح البخاری :1291،وصحیح الجامع : 2142]،اسی طرح آپ نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ اللہ اور اس کے رسول کے دین میں صرف انہی دونوں کو تصرف کا حق ہے ،کسی غیر کے ادنی تصرف کو بھی گوار نہیں کیا جائے گا ،اور اگر اس میں کو ئی کچھ داخل کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ باطل ومردود قرار پائے گا"من أحدث فی أمرنا ھذا مالیس منه فھو رد"[صحیح البخاری :2697،وصحیح مسلم :1718]،اسی طرح اگر کوئی خود بدعت ایجاد نہیں کرتا مگر دوسرے کی ایجاد کردہ بدعت کو اپناتا ہے تو یہ بھی ضلالت وگمراہی کا باعث اور باطل ومردود طرز عمل ہے"من عمل عملا لیس علیه أمرنا فھو رد "[صحیح مسلم :1718]۔
ان تمام تنبیہات و ممانعات کے باوجود جدت پسند وہوی پرست طبیعتیں مختلف مناسبات کے تحت دین کے نام پر "بدعت حسنہ "کا شگوفہ پیدا کرکے دین معصوم کے اندر خودساختہ و خانہ ساز امور کو داخل کرنے کی جسارتیں کرتی رہی ہیں ،حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک بدعت کو خواہ وہ حسنہ ہو یا سیئہ ضلالت وہلاکت قرار دیا ہے "کل بدعة ضلالة "[صحیح مسلم :867] ۔
مختلف مناسبات کے تعلق سے خواہشات نفس پر مبنی بے شمار بدعات و ضلالات میں سے بعض وہ ہیں جو بڑے ہی تزک واحتشام کے ساتھ پندرہویں شعبان کو انجام دیئے جاتے ہیں ، تو آئیے اس ماہ میں مشروع وغیر مشروع اعمال وعبادات کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔
ماہ شعبان کے مشروع اعمال :ماہ شعبان ہجری تقویم کا آٹھواں مہینہ ہے اور یہ ماہ حرام رجب اور ماہ صیام رمضان کے درمیان واقع ہے ، اس نام سے موسوم کئے جانے کی وجہ اہل عرب کا اس ماہ میں پانی کی تلاش کے لئے یا پھر ماہ رجب کی بندشوں سے آزادی ملنے کے بعد غارات و غزوات کے لئے ان کاہر طرف منتشر و متشعب ہونا ہے ، اس ماہ کو اس لحاظ سے فضیلت حاصل ہے کہ یہ ماہ رمضان المبارک کا سفیر و پیغامبر ہے ،یہ آنے والے مہمان کریم کا وہ منادی ومخبر ہے جو اس کی آمد کی اطلاع دیتا ہے اور اس کے استقبال کے لئے ہمیں آمادہ کرتاہے ،پس رمضان کا یہ حق ہے کہ ہم اس کے سفیر کی تکریم کریں لیکن اسی قدر اور اسی طرح ہونی چاہئے جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے ،اور ماہ شعبان کی تکریم یہ ہے کہ اس میں بکثرت روزے رکھے جائیں ، صیام رمضان کے لئے اپنے دل ودماغ کو اور قوائے جسم کو تیار کیا جائے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بکثرت روزہ رکھنا تھا ،ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ میں اس طرح لگاتار روزے رکھتے کہ ہم لوگ سمجھتے کہ اب ترک نہیں کریں گے اور جب ترک کرتے تو اس طرح کہ ہم لوگ سمجھتے کہ اب نہیں رکھیں گے ،البتہ میں نے آپ کو رمضان کے سوا کسی مہینے کا مکمل روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ میں نے شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے پایا [صحیح البخاری : 1833،وصحیح مسلم : 1956]،اور شعبان میں اس کثرت روزہ کی علت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سے واضح ہوتی ہے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ،اے اللہ کے رسول !میں آپ کو شعبان کی طرح کسی اور مہینہ میں روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھتا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" ذاك شھر تغفل الناس عنه ،بین رجب ورمضان ،وھو شھر ترفع الأعمال الی رب العالمین ،وأحب أن یرفع عملی وأنا صائم "[صحیح الترغیب والترھیب ص:425]اس حدیث کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان میں بکثرت روزہ رکھنے کی دو وجہیں بتائی ہیں :
1_ایک یہ کہ اس ماہ کے دو عظیم مہینوں یعنی ماہ حرام رجب اور ماہ صیام رمضان کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے لوگوں کا اس سے غافل ہوجانا اور اس کو خاطر خواہ اہمیت نہ دینا ہے ،اور ظاہر ہے ایسے وقت میں اعمال انجام دینے کی خاص اہمیت ہوتی ہے جس میں لوگ مشروع عبادتوں کو انجام دینے سے غافل ہوں ۔
2_دوسری وجہ یہ بتائی کہ اس ماہ میں اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں اور آپ اپنے اعمال روزہ کی حالت میں پیش ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں ۔
البتہ اس ماہ میں کثرت روزہ کی مشروعیت کے باوجود آخر کے ایک دو دنوں میں روزہ رکھنے ،یا روزہ کے ساتھ رمضان میں داخل ہونے ،یا رمضان کے داخل ہونے یانہ ہونے کے شک کو دور کرنے کے لئے احتیاطا روزہ رکھنے کی ممانعت ہے،صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" لا تقدموا رمضان بیوم أو یومین الا من کان یصوم صوما فلیصمه "[صحیح البخاری :1983،وصحیح مسلم :1082]،یعنی رمضان سے ایک یا دوروز پہلے روزہ نہ رکھو الا یہ کہ کسی کو ان دنوں میں روزہ رکھنے کی عادت ہو اور وہ ہمیشہ رکھتا ہوا آیا ہو ،یا پھر اس پر نذر کا یا رمضان سابق کا روزہ باقی ہو تو اس کے لئے اجازت ہے ۔
ماہ شعبان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا ،اس میں روزہ کے سوا اور کسی عبادت یا کسی عمل کے خصوصی اہتمام کا کوئی ثبوت نہیں ہے ،لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ جوعمل ثابت ہے اس کا پورے مہینہ میں ذکر تک نہیں آتا اور جو خود ساختہ وخانہ ساز اعمال ورسوم ہیں انہیں غایت عقیدت وچاہت کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے ،اور اس بنا پر یہ قول بالکل صادق وبر محل ہے کہ ایک سنت کے ترک سے اس کی جگہ پر کتنی ساری بدعتیں سرگرم ہوجاتی ہیں اور سنت کے ضیاع کے بعد اس کی جگہ پر کرنے کے لئے بدعات کا طوفان چلا آتا ہے ،اور ظاہر ہے کہ جہاں شمع رسالت بجھے گی وہاں ضلالت کی تاریکیاں براجمان ہوں گی ،اور جس جگہ پر بدعتوں کا ہجوم اور غیر مشروع عادات ورسوم کا اجتماع پایا جاتا ہو اس جگہ کا گہرائی سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس استھان پر کسی نہ کسی سنت کو ضرور قربان کیا گیا ہے یا خواہشات وبدعات کے اس آستانے پر اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کا نذرانہ پیش کیا گیا ہے ،ورنہ سنتوں کے ہوتے ہوئے اباطیل وخرافات کی کیا مجال کہ وہ گلشن شریعت کی پر بہار فضاؤں میں استراحت کرسکیں،اور ظلمت وضلالت کی کیا اوقات کہ وہ شموع سنت کے فروزاں ہوتے ہوئے حصار دین میں داخل ہوکر تاریکیوں کی چادر دراز کرسکے؟
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ماہ شعبان کی پندرہویں رات میں مدعیان محبت رسول ونام نہاد عاشقان سنت کن کن بدعات اور کیسے کیسےخرافات کو شریعت کا لبادہ پہنا کر بڑے ہی تزک و احتشام اور نہایت ہی عقیدت واحترام کے ساتھ انجام دیا کرتے ہیں ،ویسے صحابہ وتابعین کے بعد ہر زمانہ میں ایسے کور چشم لوگ پائے گئے ہیں جن کو انوار سنت سے وحشت محسوس ہوتی ہے اور وہ اپنے لئے کسی اور چراغ کی تلاش میں رہتے ہیں ، کچھ جدت پسند طبیعتیں ہمیشہ طلب جدید کے فراق میں سرگرداں رہتی ہیں اور یہاں وہاں سے رطب ویابس سمیٹتی رہتی ہیں،برصغیر ہند وپاک میں ایسے عناصر کی بہتات ہے ،یہ حضرات اپنے مزاج و مذاق کے حاملین کے تراشیدہ اقوال وروایات ،ان کے جمع کردہ مناکیر واباطیل اور من گھڑت آثار واحادیث کی پناپر پندرہویں شعبان کے روز طرح طرح کے غیر اسلامی اعمال و عبادات کا اہتمام کرتے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں :
1_قبروں کی زیارت کا اہتمام: یہ عمل بذات خود غلط نہیں ہے ،بلکہ قبروں کی زیارت مشروع و ماجور عمل ہے ،مگر مخصوص رات میں مخصوص طریقہ پر اور اجتماعی شکل میں اس کو انجام دینا بالکل غلط اور صریح بدعت ہے،اس قسم کے تصرف کی اسلام میں بالکل گنجائش نہیں ہے ، اگر اچھا کام بھی غیر مشروع طریقے سے انجام دیا جاتا ہے تو وہ بدعت ہوجاتا ہے ۔
2_آتش بازی اور چراغاں : اس رات میں خوب آتش بازی ہوتی ہے ،پورے محلہ اور شہر کو پٹاخوں کی شدید آواز سے دہلایا جاتا ہے،گھروں ،بازاروں ،دوکانوں ، گلیوں اور محلوں ،مسجدوں اور قبرستانوں کو بقعہ نور بنادیا جاتا ہے ،دیوالی کا پورا سماں ہوتا ہے ،اور یہ کون نہیں جانتا کہ اس طرح کے مشرکانہ ومسرفانہ اعمال کی اجازت ہماری شریعت بالکل نہیں دیتی ہے ،اور نہ خیر القرون میں اس کی کوئی نظیر ملتی ہے،جس دینی عمل پر مہر نبوت ثبت نہ ہو اور جو ابتدا میں اسلام کا حصہ نہیں رہاہو وہ آج اس کا حصہ کیونکر ہوسکتا ہے ؟
3_اس تعلق سے جو حدیث وارد ہے :" جب پندرہویں شعبان کی رات آئے تو اس میں قیام کرو اور اس کے دن کا روزہ رکھو " [سنن ابن ماجہ :1390]،یہ من گھڑت حدیث ہے ،اور حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : شعبان کی پندرہویں رات کے قیام کےبارے میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے ،نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور نہ صحابہ کرام سے [لطائف المعارف،ص 200]،اور علامہ عبید اللہ مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پندرہویں شعبان کے دن میں روزہ رکھنے کے سلسلے میں کوئی مرفوع صحیح یا حسن یا معمولی ضعیف یا کسی بھی طرح کی حدیث نہیں ہے اور نہ ہی کوئی قوی یا ضعیف اثر ہے [مرعاة المفاتیح ،ج 4ص344]۔
4_مخصوص قسم کی نمازوں کا اہتمام : اس رات میں پورے اہتمام کے ساتھ اور اجتماعی شکل میں مسجدوں کے اندر کئی طرح کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں ، ایک نماز چودہ رکعات پر مشتمل ہوتی ہے ، ایک نماز بارہ رکعات پر مشتمل ہوتی ہے ، اور ایک نماز صلاة الالفیہ کے نام سے عجیب وغریب طریقے سے پڑھی جاتی ہے،لیکن ان میں سے کسی بھی نماز کے لئے کوئی صحیح دلیل وارد نہیں ہے ،جو بھی مرویات ہیں وہ جعلی ، من گھڑت اور سخت ضعیف ہیں،اس قابل بھی نہیں ہیں کہ انہیں ذکر میں لایا جائے،اللہ کے رسول نے ہمیں جو نمازیں بتائی ہیں وہ ہماری نجات کے لئے کافی ہیں ،لوگوں کو فرائض وواجبات سے کوئی نسبت نہیں رہ گئی ہے اسی لئے غیر ثابت نوافل سے ایسی والہانہ عقیدت اور ان پر ایسی فریفتگی ہے ،شیطان جو چاہتا ہے لوگ وہی کررہے ہیں ،متاع دنیا کے لئے ناموس شریعت کی تجارت کرنے والوں کے لئے ایسے مواقع بڑا نفع بخش ہوا کرتے ہیں۔
5_انواع واقسام کے کھانوں کااہتمام : ان کھانوں کو زندوں کو بھی کھلایا جاتا ہے اور مردوں کے لئے بھی رکھا جاتا ہے ، روحوں کو بھی ملانے کا عقیدہ پایا جاتا ہے ، شب برات سے پہلے مرنے والوں کی روحیں بھٹکتی رہتی ہیں ،اس رات میں روحوں کو روحوں سے ملایا جاتا ہے ، خوب حلوہ خوری ہوتی ہے ،اصحاب جبہ ودستار مجلسیں گرم کئے رکھتے ہیں ،بالکل تیوہار جیسا ماحول ہوتا ہے ،مدارس ومکاتب بند کر دئے جاتے ہیں ،رنگ وروغن اور صفائی وستھرائی کا غایت اہتمام ہوتا ہے ،عام دنوں میں صفائی کے تعلق سے بالکل بے حس نظر آتے ہیں ، لیکن اس موقع پر اس کاخوب اہتمام کرتے ہیں ، شیطان ان سے اپنی تابعداری کراتا ہے ،غلط اعمال کو مزین کرکے ان کے سامنے پیش کرتا رہتا ہے اور وہ اس پر فریفتہ ہوتے رہتے ہیں ۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : پندرہویں شعبان کی کوئی عبادت مشروع نہیں ہے ،اگر اس رات میں اجتماع کرنا یا کچھ عبادت کرنا مشروع ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس کی طرف رہنمائی کرتے ،یا امت کو اس سے آگاہ فرماتے یا خود عبادت کرتے [دیکھئے : بدعات مروجہ شریعت کی روشنی میں،ص42_43]،اور علامہ عبید اللہ محدث مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : پندرہویں شعبان کی رات کو زندہ کرنا ،اس میں شب بیداری کرنا ، قیام کا اہتمام کرنا ، پنج گانہ نمازوں و دیگر واجبات کو ترک کرکے غیر مشروع نمازوں میں مشغول رہنا ، قبروں کی مخصوص زیارت ،مردوں کی روحوں کی آمد کا عقیدہ ، پھر ان کے استقبال کے لئے گھروں کی صفائی ستھرائی ، دیواروں کی لیپا پوتی ،چراغ اور قنادیل روشن کرنا ،یہ تمام امور بلاشک بدعت وگمراہی ہیں [مرعاة المفاتیح ،ج 4ص 342] ،اللہ تعالی اس امت کی اور اس کے دین وعقیدہ کی حفاظت فرمائے اور شرک وبدعت کے آہنی پنجوں سے سبھوں کو نجات عطا فرمائے۔