علامہ بیضاوی کا مختصر تعارف اور عقیدہ

in blurtstep •  10 days ago 

امید کہ آپ تمام احباب خیر و عافیت سے ہوں گے

میرے بلاغ میں آپ سبھی کا خیر مقدم ہے
مزید کسی تاخیر کے شروع کرتے ہیں آج موضوع کو


1000105763.jpg

ناصر الدین عبد اللّٰہ بن عمر بن علی القاضی، البیضاوی الشیرازی (متوفی ٦٨٥ھ)، آپ فارس ایران کے "بیضاء" نامی شہر میں پیدا ہونے کی وجہ سے بیضاوی کہلاتے ہیں، اور چونکہ آپ نے"شیراز" شہر میں پرورش پائی تھی اور وہاں کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) مقرر ہوئے تھے اس لیے شیرازی بھی کہلاتے ہیں، آپ کی کنیت میں اختلاف ہے ابو الخیر، ابو محمد اور ابو سعید تینوں بطور کنت ذکر کئے جاتے ہیں، سن وفات میں بھی کئی اقوال ہیں لیکن راجح (٦٨٥ھ) ہے۔
"بیضاء" شہر کی طرف انتساب کرتے ہوئے اور بھی کئی اہل علم بیضاوی کے لقب سے ملقب کئے جاتے ہیں جن میں سے مشہور چار افراد ہیں:
١-محمد بن احمد بن العباس الفارسی القاضی ابوبکر البیضاوی، آپ فقہ شافعی کی متن "التبصرة" نیز "التذكرة في شرح التبصرة"، "الإرشاد في شرح كفاية الصيمري" اور "الأدلة في تعليل مسائل التبصرة" وغیرہ کتابوں کے مؤلف ہیں، تاج الدین سبکی نے انہیں طبقات الشافعیہ کے اندر ذکر کیا ہے، ان میں سے اول الذکر تین کتابیں ناصر الدین بیضاوی صاحب التفسیر کی طرف منسوب کی جاتی ہیں جو کہ غلط ہے۔

٢- محمد بن عبد اللّٰہ بن احمد ابو عبد اللّٰہ البیضاوی (متوفی ٤٢٤ھ)، آپ شافعی فقیہ اور ثقہ عالم دین تھے، خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد کے اندر آپ کی سوانح ذکر کی ہے آپ فرماتے ہیں:"كتبت عنه، وكان ثقة، صَدُوقًا، دينا، سديدا" میں نے ان سے حدیث لکھی ہے وہ ثقہ صدوق دیندار اور بھلے آدمی تھے۔

٣- محمد بن محمد بن عبد اللّٰہ بن احمد ابو الحسن البیضاوی (متوفی ٤٦٨ھ) آپ قاضی ابو الطیب طبری کے داماد ہیں، خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد کے اندر آپ کا ترجمہ ذکر کیا ہے آپ فرماتے ہیں:"كتبت عنه وكان صدوقا" اور تاج الدین سبکی نے طبقات الشافعیہ میں ذکر کیا ہے۔

٤- علی بن محمد بن عبد اللّٰہ ابو القاسم البیضاوی (متوفی ٤٥٠) آپ قاضی ابو الطیب طبری کے نواسے ہیں، جوانی میں ہی وفات پا گئے، تاج الدین سبکی نے طبقات الشافعیہ کے اندر آپ کا تذکرہ کیا ہے۔

علاّمہ بیضاوی نے اپنے والد ابو القاسم عمر بن علی البیضاوی، خواجہ محمد بن محمد الكحتائی صوفی اور شرف الدين عمر البوشكاني الزكي وغیرہ سے تعلیم حاصل کی ہے، نیز یہ بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ آپ نے خواجہ نصیر الدین طوسی جسے امام ابن القیم نے نصیر الشرك والكفر والإلحاد، و وزير الملاحدة اور وزير هولاكو کہا ہے، اور شہاب الدین سہروردی سلسلہ سہروردیہ کے بانی سے بھی علم حاصل کیا تھا۔

آپ بہت ساری کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سب سے مشہور: تفسیر میں "أنوار التنزيل وأسرار التأويل" عقائد واصول الدین میں"طوالع الأنوار في أصول الدين" اصول فقہ میں "منهاج الوصول إلى علم الأصول" علم فقہ میں "الغاية القصوى في دراية الفتوى على مذهب الشافعية" اور علم الاعراب نحو میں"لب اللباب في علم الإعراب" وغیرہ ہیں، "تسبیع البردة" کے نام سے بوصیری صوفی کے قصیدہ بردہ (جو مدح رسول میں مبالغہ آرائی اور شرک وبدعت پر مشتمل ہے) کی شرح آپ کی طرف منسوب کی جاتی ہے جو کہ آپ کے نام سے مطبوع ہے، آپ ایک ماہر اصولی اور شافعی المسلک فقیہ تھے۔

آپ عقیدہ میں پکّے اشعری بلکہ اشاعرہ کے کبار ائمہ میں سے ایک ہیں حتیٰ کہ بعض مسائل میں آپ پر اعتزال کا اثر بھی محسوس ہوتا ہے، اس کے علاوہ آپ صوفی المشرب اور فلسفہ وعلم الکلام کے خوگر تھے، علم حدیث سے آپ کا بہت دور کا واسطہ تھا، عقل و رائے کی بنیاد پر تفسیر کرتے تھے، آپ نے بیشتر صفات باری تعالیٰ کی تاویل و تحریف کی ہے اور عقائد کے متعدد ابواب میں اہل السنہ کی مخالفت کی ہے۔
بطور مثال چند چیزیں درج ذیل ہیں:

١- آپ نے تفسیر کلام الٰہی اور عقائد کے ابواب میں علم الکلام اور فلسفہ کا سہارا لیا ہے جو کہ سلف صالحین کے نزدیک مبغوض ترین علوم میں سے ہیں، چنانچہ آپ انہیں علوم سے متاثر ہو کر بعض آیات کی تفسیر فلسفی کلامی الفاظ سے کرتے ہیں جیسے واجب الوجود، خصائص الممکنات، قدیم شراکت کو قبول نہیں کرتا، عالم جواہر واعراض سے وجود میں آتا ہے وغیرہ الفاظ جو کتاب و سنت میں وارد نہیں ہوئے ہیں۔
اسی طرح فلسفہ اور علم الکلام سے دلچسپی کی وجہ سے آپ کی شخصیت پر عقلانیت غالب ہے اور اعتزال کا رنگ چڑھا ہوا ہے چنانچہ آپ نے حدیث (خلق الملائكة من النور وخلق الجان من مارج من النار) کی تاویل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ بطور تمثیل ہے یعنی حقیقت میں اللّٰہ نے فرشتوں کو نور سے اور جنوں کو آگ سے پیدا نہیں کیا ہے، اس طرح اور دیگر چیزوں کے بارے میں بھی آپ نے یہ بات لکھی ہے، تو اس پر رد کرتے ہوئے علامہ سیوطی نے لکھا ہے:"لو أمكن البيضاوي وأشباهه أن يحملوا كل حديث على التمثيل لفعلوا...، وهذه إحالة للنصوص عن ظواهرها، فلتحذر هذه النزعة الاعتزالية، فإن مدار المعتزلة عليها" (نواهد الأبكار ص:٢٠١ ت محمد كمال علي) اگر بیضاوی اور ان جیسے لوگوں کے لیے ممکن ہوتا تو وہ ہر حدیث کو تمثیل پر ہی محمول کرتے،... یہ نصوص کو ان کے ظاہر سے پھیرنا ہے، آپ کو اس اعتزالی رجحان سے دور رہنا چاہیے کیونکہ معتزلہ کا دار و مدار اسی پر ہے۔

٢- آپ نے اشاعرہ کے منہج کے مطابق سلف صالحین کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مکلف پر سب سے پہلا واجب نظر یعنی غور وفکر کرنا ہے جس کے نتیجے میں اللّٰہ کے وجود کا اثبات ہو اور پھر اس پر ایمان لایا جائے جبکہ اہل السنہ کے نزدیک سب سے پہلا واجب افراد و توحید اللّٰہ بالعبادہ ہے کیونکہ وجود باری تعالیٰ کا اقرار تو فطرت میں جاگزیں رہتا ہے۔
٣- آپ نے مرجئہ کی طرح ایمان کی تعریف محض "تصدیق بالقلب" سے کی ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ محض دلی تصدیق ہی مغفرت کے لیے کافی ہے اور عمل مسمی ایمان سے خارج ہے یعنی عمل کے ہونے نہ ہونے اور عمل کے اچھا یا برا ہونے کا ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔

٤- اللّٰہ کے لیے صفت کلام کا اثبات کرنے کے باوجود اس کی تحریف کی ہے چنانچہ کلام کو کلام نفسی سے تعبیر کیا ہے جو ذات کے ساتھ قائم ہو خارج میں اس کا کوئی تصور نہ ہو یعنی بغیر حرف اور صوت کے دل کی باتیں جو باہر نہ نکلیں، یہ اشاعرہ کا موقف ہے، جبکہ سلف صالحین اور اہل السنہ والجماعہ اللّٰہ کے لیے صفت کلام کا اثبات کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ بولتے ہیں جس میں حرف اور صوت دونوں ہوتا ہے اور وہ کلام سنا بھی جاتا ہے جسے جبریل امین اور خاص فرشتے سنتے ہیں، رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سنا ہے، حضرت موسیٰ نے سنا ہے اور قیامت کے دن مخلوقات سنیں گی۔
٥- آپ نے صرف سات کے علاوہ بقیہ تمام صفات باری تعالیٰ کی تاویل اور معنوی تحریف کی ہے جیسے صفت وجہ، ید، عین، استواء، نزول، مجئ، محبت غضب، عجب، رحمت اور استہزاء وغیرہ تمام صفات فعلیہ اور صفات خبریہ۔

٦- آپ نے ﴿والوزن يومئذ الحق﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے "وزن" (قیامت کے اعمال ناپے جانے) کی تاویل "قضاء" سے کی ہے حقیقی معنی میں وزن کا اثبات نہیں کیا ہے، بلکہ کہتے ہیں قیامت کے دن فیصلہ کیا جائے گا اور اعمال کا عوض اور بدلہ دیا جائے گا، اسی طرح ﴿ونضع الموازين القسط ليوم القيامة﴾ کی تاویل عدل سے کی ہے اور یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہ محض برابر اور پورا پورا حساب کرنے کی تمثیل پیش کی گئی ہے۔ حالانکہ اہل السنہ کا عقیدہ ہے کہ وزن اور میزان دونوں حقیقی ہوں گے ترازو کے دو پلڑے ہوں جن میں عمل صحائف العمل اور عامل وزن کئے جائیں گے جیسا کہ نصوص شرعیہ صحیحہ سے ثابت ہے۔
٧- اہل السنہ کا عقیدہ ہے کہ اللّٰہ کے افعال حکمتوں سے پر ہوتے ہیں اور ان کی کچھ علتیں اور اغراض ہوتے ہیں، اس کے برعکس اشاعرہ کی طرح علامہ بیضاوی افعال باری تعالیٰ میں تعلیل حکمت اور غرض کا انکار کرتے ہیں۔

٨- آپ نے صفت علو اور فوقیت کی تاویل کی ہے اور اس کا انکار کیا ہے، جو کہ سلف صالحین کے اجماعی واتفاقی عقیدہ کے صریح مخالف ہے، امام ابن بطہ عکبری نے اپنی کتاب "الإبانة عن شريعة الفرقة والناجية" کے اندر باب قائم کیا ہے:"باب الإيمان بأن الله على عرشه بائن من خلقه وعلمه محيط بخلقه، أجمع المسلمون من الصحابة والتابعين وجميع أهل العلم من المؤمنين أن الله تبارك وتعالى على عرشه فوق سمواته بائن من خلقه وعلمه محيط بجميع خلقه ولا يأبى ذلك ولا ينكره إلا من انتحل مذاهب الحلولية وهم قوم زاغت قلوبهم واستهوتهم الشياطين فمرقوا من الدين وقالوا : إن الله ذاته لا يخلو منه مكان" (الإبانة الكبرى لابن بطة ٧/ ١٣٦)
باب: اس بات پر ایمان کا بیان کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے عرش پر ہے، مخلوق سے جدا ہے، اس کا علم اس کی مخلوقات کو محیط ہے، صحابہ و تابعین، جمیع اہل علم اور تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر ہے، مخلوق سے جدا ہے، اور اس کا علم تمام مخلوقات کو محیط ہے، اس کا انکار وہی کرے گا جو حلولیہ کا مذہب اختیار کرے گا، اور وہ ایسے لوگ ہیں جن کے دل گمراہ ہو چکے ہیں اور ان پر شیطان نے غلبہ حاصل کر لیا ہے، سو وہ دین سے خارج ہو چکے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ ذاتی طور پر ہر جگہ موجود ہے"۔
٩- آپ نے معتزلہ اور عقلانین کی طرح اس بات کا انکار کیا ہے کہ جن شیطان انسانوں پر سوار ہو سکتا ہے اور ان پر غلبہ حاصل کر کے ان سے اپنی مرضی کے کام کروا سکتا ہے جیسا کہ (ٱلَّذِینَ یَأۡكُلُونَ ٱلرِّبَوٰا۟ لَا یَقُومُونَ إِلَّا كَمَا یَقُومُ ٱلَّذِی یَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّیۡطَـٰنُ مِنَ ٱلۡمَسِّۚ﴾ کی تفسیر میں "المس" کی تفسیر جنون سے کی ہے، اور شیطان کے انسان پر سوار ہونے کا اثبات کرنے کے بجائے اسے اہل جاہلیت کے توہمات اور زعم میں سے قرار دیا ہے۔
حالانکہ یہ چیز قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور اہل السنہ والجماعہ کا عقیدہ ہے کہ شیطان اور جنات انسانوں کے اندر داخل ہو سکتے ہیں ان پر سوار ہو سکتے ہیں اور ان پر کنٹرول کر سکتے ہیں۔

١٠- شیخ احمد مجتبیٰ بن نذیر عالم سلفی نے "الفتح السماوي بتفسير أحاديث القاضي البيضاوي" (ص:١١٤٣) کے اندر لکھا ہے:"أنه لم يسلم من إنكار أحاديث صحيحة ثابتة كما بينته في المقدمة" آپ نے اپنی تفسیر کے اندر ضعیف اور موضوع وبے اصل روایات ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ صحیح اور ثابت احادیث کا انکار بھی کیا ہے۔

آپ کی وجہ شہرت بالخصوص آپ کی تفسیر ہے لیکن اس تفسیر کی حقیقت یہ ہے کہ وہ زمخشری معتزلی کی کتاب الکشاف، فخر الدین رازی اشعری متکلم فلسفی کی کتاب مفاتیح الغیب، اور راغب اصفہانی متکلم اشعری کی کتاب جامع التفسیر سے مستفاد اور ان کا خلاصہ ہے، بیضاوی نے تاویل صفات اور اعتزالیات میں بیشتر مقامات پر زمخشری کی اتباع کی ہے سوائے ان امور کے جو صریح طور پر مذہب اشاعرہ کے خلاف ہیں، اسی لیے بعض حضرات تفسیر بیضاوی میں بعض اعتزالی افکار پائے جانے کا دفاع اس طور پر کرتے ہیں کہ بیضاوی نے یہ چیزیں زمخشری سے لی ہیں یہ ان کے خود کے افکار نہیں ہیں، یہ تفسیر تفسیر بالرائے ہے جس کا نصف ممدوح ہے اس طور پر کہ اس میں لغوی بلاغی اور اعرابی نحوی صرفی نقطہِ نظر سے گفتگو کی گئی ہے، اور نصف مذموم ہے کیونکہ اس میں صفات باری تعالیٰ کی تاویل اور آیات کریمہ کی تفسیر ایسے الفاظ اور باتوں سے کی گئی ہے جو سلف صالحین سے ثابت نہیں ہیں، نیز اس کے اندر بعض آیات کی تفسیر اور سورتوں کے فضائل سے متعلق جو احادیث ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے بیشتر ضعیف منکر موضوع اور بے اصل ہیں، اس کے علاوہ آیات کونیہ کی تفسیر میں رازی کی اتباع کرتے ہوئے بیجا عقلانیت کا مظاہرہ کیا ہے اور فضول تفاصیل ذکر کئے ہیں جن کی تائید نہ احادیث نبویہ سے ہوتی ہے اور نہ ہی آثار واقوال سلف سے۔

اس بنیاد پر یہ امر سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس طرح کی تفسیر کی کتاب کو سلفی مدارس میں مبتدی یا متوسط علم رکھنے والے طلبہ کے نصاب میں داخل کرنے کا کیا مقصد ہے؟ کیا چند لغوی واعرابی فوائد حاصل کرنے کے لیے اتنا بڑا خطرہ مول لینا مناسب ہے جو عقائد کے بگاڑ کا باعث ہو؟! حالانکہ وہ فوائد دوسری کتب تفسیر تفسیر جلالین اور فتح القدیر وغیرہ میں بھی موجود رہتے ہیں اور وہ بھی داخل نصاب ہوتے ہیں، ہاں اگر پڑھانے والے اساتذہ عقیدہ ومنہج میں ماہر ہوں اور وہ ان کی عبارتوں میں موجود بد اعتقادیوں کو پہچان کر رد کر سکتے ہوں تو پڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مشاہدہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ ایسے اساتذہ بہت کم بلکہ انگلیوں پر گنے جانے کے برابر ہیں، لہٰذا ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کی کتابیں پڑھانے کے فائدے کتنے ہیں اور نقصانات کس قدر ہیں، کیونکہ صرف سورہ فاتحہ کی مختصر تفسیر میں دس سے زائد علمی اور عقدی غلطیاں ہیں جنہیں علامہ سیوطی نے "نواهد الأبكار وشوارد الأفكار" اور علامہ عبد العزیز الراجحی نے "التعليق على المخالفات العقدية في تفسير البيضاوي" کے اندر ذکر کیا ہے۔

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!