السلامُ علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔
(زبان پر قابو رکھیں)
اس وقت یہ بتلانا مقصود ہے کہ یہ جو فرمایا جارہا ہے کہ عورتوں کی تعداد جہنّم میں مردوں کے
، نسبت زیادہ ہوگی
آج کل یہ عورتوں کے حقوق کا بڑا چرچہ ہے اور یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ عورت کو نہ بہت نچلا
، مقام دیا گیا ہے
یہاں تک کہ جہنّم میں بھی عورتیں زیادہ بھر دی گئیں لیکن خوب سمجھ لیجئے کہ وہ عورتیں جہنّم میں اس لئے نہیں بھری گئیں کہ وہ عورتیں ہیں بلکہ اس لئے بھر دی گئیں کہ ان کے اندر بد اعمالیوں کی کثرت ہوتی ہے۔
خاص طور پر زبان اُن کو جہنّم میں لے جانے والی
، ہے
حدیث شریف میں حضور اقدسﷺ نے فرمایا کہ انسان کو جہنّم میں اوندھا گرانے والی چیز اس کی زبان ہے اور عام طور پر جب یہ زبان قابو میں نہیں ہوتی تو اس سے بے شمار گناہ سر زد ہو جاتے ہیں تجربہ کرکے دیکھ لیجئے کہ مرد کی زبان پھر بھی کچھ قابو میں ہوتی ہے۔
اور خواتین زبان کو قابو میں رکھنے کا عام طور پر اہتمام نہیں کرتیں۔
اس کے نتیجے میں یہ فساد پیدا ہوتا ہے ۔
خُدا کے لئے اپنی زبان کو احتیاط سے استعمال کرنے کی کوشش کریں کہ زبان سے کوئی ایسا کلمہ نہ
، نکالیں جس سے دوسروں کا دل ٹوٹے
خاص طور پر شوہر کا، جس کا دل رکھنا اللّٰہ تعالیٰ
، نے بیوی کے فرائض میں شامل فرمایا ہے
لہٰذا یہ جو کہا گیا ہے کہ جہنّم میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہوگی اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ زبردستی جہنّم میں عورتوں کی تعداد بڑھا دی گئی
، ہے بلکہ وہ تو درحقیقت اُن اعمال کا نتیجہ ہے
اللّٰہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اُن کو ان اعمال سے بچائیں۔
اور اگر یہ خود اہتمام سے بچنے کی کوشش کریں تو انشاء اللّٰہ ضرور بچ جائیں گی۔
آپ کو معلوم ہے کہ جنّت کی خواتین کی سردار بھی اللّٰہ تعالیٰ نے ایک خاتون کو بنایا ہے۔
وہ حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا اور اللّٰہ تعالیٰ نے خواتین کو جنّت کا مستحق بھی قرار دیا۔
لیکن سارا مدار اس اعمال پر ہے۔
دوسری ایک بات اور سمجھ لیں جو حدیث سے نکلتی ہے وہ یہ ہے حضور نے عورتوں کے زیادہ جہنّم میں جانے کا سبب یہ نہیں بیان فرمایا کہ وہ عبادت کم کرتی ہیں یہ نہیں فرمایا کہ نفلیں کم پڑھتی ہیں۔
یہ نہیں فرمایا کہ تلاوت کم کرتی ہیں وظیفے کم کرتی ہیں۔
بلکہ سبب کے اندر جو دو باتیں بتائیں لعنت اور شوہر کی ناشکری ان دونوں کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔
اس سے نفلی عبادات کے مقابلے میں حقوق العباد کی اہمیت معلوم ہوئی۔
،اپنی ذات سے کسی کو تکلیف مت دو
اگر غلطی ہوجائے تو معافی مانگنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔
حقوق العباد بندے کا حق ہوتا ہے اسی لئے جس کو تکلیف دی ہے اپنی ذات سے اس سے فوراً معافی مانگ لو۔
کیونکہ جب تک وہ انسان معاف نہیں کرے گا تب تک اللّٰہ تعالیٰ بھی معاف نہیں کرینگے۔
اللّٰہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمیں اس کا فہم عطا فرمائے۔
اور اپنی رحمت سے ان تمام حقوق کو بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یارب العالمین۔
شکریہ۔۔