السلامُ علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔
(گناہ چھڑانے کی حکمت)
حضور نبی کریمﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا یا رسول اللّٰہﷺ میرے اندر چار گناہ ہیں۔
میں ان گناہوں میں سے کون سے گناہ پہلے ترک کروں؟
پہلے کونسا گناہ چھوڑوں؟
حضورﷺ نے فرمایا کہ تم کیا گناہ کرتے ہو گناہوں کی تفصیل تو بتاؤ تو اس نے کہا کہ یا رسول اللّٰہﷺ میں زناکاری بھی کرتا ہوں ، میں شراب بھی پیتا ہوں اور میں چوری بھی کرتا ہوں اور جھوٹ بھی بولتا ہوں۔
یہ سارے گناہ میرے اندر ہیں۔
تو ان چاروں گناہوں میں سے کون سے گناہ پہلے ترک کروں؟
جناب نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تم جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔
مجھ سے پکّا وعدہ کرو ، پکّا عہد کرو کہ آج سے تم کبھی جھوٹ نہیں بولوگے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ نبی کریمﷺ نے اس کو اس بات کی اجازت مرحمت فرمائی کہ تم بدکری کرتے رہو ، شراب پیتے رہو اور تم چوری کرتے رہو۔ اس کی اجازت نہیں دی۔
لیکن نبی کریمﷺ نے کہا ان چاروں گناہوں میں سے کس گناہ کو تم چھوڑوگے ، تو اس شخص نے کہا کہ میں جھوٹ کو چھوڑونگا۔
تو نبی کریمﷺ نے اس کو پکڑ لیا اور کہا کہ پکا وعدہ کرو ۔
عہد کرو کہ آج سے جھوٹ نہیں بو لو گے۔
اس نے نبی کریمﷺ سے کہا کہ یا رسول اللّٰہﷺ میں آپ سے پکّا وعدہ کرتا ہوں کہ میں جھوٹ نہیں بولونگا۔
آنحضرتﷺ سے پکّا وعدہ کرنے کے بعد واپس جب گھر گیا ، جب تھوڑی رات ہوئی اس نے ارادہ کیا چوری کرنے کا۔
اس نے سوچا کہ میں نے تو حضورﷺ سے وعدہ کیا کہ میں جھوٹ نہیں بولونگا۔
اگر آج میں نے چوری کی اور کل جب نبي کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور آپﷺ پوچھیں گے کہ رات کیسے گزری تو اگر میں یہ کہونگا کہ میں نے چوری نہیں کی تو ظاہر سی بات ہے کہ میں اپنے وعدہ کے خلاف کرنے والا ہوں گا اور حضورﷺ سے جس چیز کا وعدہ میں نے کیا اس چیز کے خلاف کرونگا۔
جب نبي کی خدمت میں یہ کہوں گا کہ میں نے چوری کی ہے تو ظاہر بات ہے کہ چوری کی سزا ہے وہ مجھ پر جاری کی جائے گی یعنی میرا ہاتھ کاٹا جائے گا۔
تو جب اس نے چوری کا ارادہ کیا اور اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ میں حضورﷺ سے کیا کہوں گا، اس نے اسی دن سے توبہ کی کہ آج سے چوری نہیں کروں گا۔
پھر تھوڑی رات گزری جب اس نے شراب پینے کا ارادہ کیا تو پھر یہی خیال گزرا کہ جناب نبی کریمﷺ کی خدمت میں پہنچوں گا تو حضورﷺ فرمائیں گے کہ رات کیسے گزری؟
اگر میں کہونگا کہ میں نے شراب نہیں پی تو یہ جھوٹ ہوجائےگا۔
اور میں یہ کہونگا کہ میں نے شراب پی تو ظاہر بات ہے کہ شراب پینے کی سزا جو ہے وہ میرے اوپر جاری کی جائیگی۔
یہ خیال آتے ہی اس نے ہمیشہ کے لئے شراب پینے کی توبہ کرلی۔
اور جب تھوڑی رات گزری تو زناکاری کا خیال آیا تو تب بھی اس کے دل میں یہی خیال آیا کہ جب جاؤنگا اور حضورﷺ پوچھیں گے کہ رات کیسے گزری تو ظاہر بات ہے کہ میں یہ کہنے سے رہا کہ میں نے زناکاری کی۔
اگر میں کہوں گا تو زناکاری کی جو سزا ہے وہ مجھ پر نافذ ہوگی۔
چنانچہ یہ خیال آتے ہی اس نے زناکاری سے توبہ کی۔
حضورﷺ نے اس سے ایک گناہ کا وعدہ کیا کہ تم یہ نہیں کروگے۔
اس ایک وعدہ کی وجہ سے حضورﷺ نے اس کے تمام گناہوں کو چھڑا دیا۔
یہ جناب نبی کریم ﷺ کی تربیت کرنے کا طریقہ تھا۔
شُکریہ۔۔۔