میلاد النّبی کی حقیقت

in blurtindia •  4 years ago  (edited)

IMG-20201028-WA0011_20201028221002094.jpg


السلامُ علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ

(میلاد النّبی کی حقیقت)

اللّٰہ تعالیٰ انسان کی نفسانی اور اس کی کمزوریوں سے واقف ہیں، اللّٰہ تعالیٰ یہ جانتے تھے کہ اگر اسکو ذرا سا شوشہ دیا گیا تو یہ کہاں سے کہاں بات کو پہنچائے گا۔

اس واسطے کسی کے دن منانے کا کوئی تصور ہی نہیں رکھا۔

جس طرح کرسمس منایا جاتا ہے اسی طرح یہاں بھی ہوا کہ کسی بادشاہ کے دل میں خیال آگیا کہ جب عیسائی لوگ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی یوم پیدائش مناتے ہیں تو ہم حضور ﷺ کی یوم پیدائش کیوں نہ منائیں؟

چنانچہ یہ کہہ کر اس بادشاہ نے میلاد کا سلسلہ شروع کر دیا۔

شروع میں یہاں بھی یہی ہوا کہ میلاد ہوا جس میں حضور اقدسﷺ کی سیرت کا بیان ہوا، اور کچھ نعتیں پڑھی گئیں۔

لیکن اب آپ دیکھ لیں کہ کہاں تک نوبت پہنچ چکی ہے۔

یہ تو حضور اقدسﷺ کا معجزہ ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود الحمدُللّہ وہاں تک ابھی نوبت نہیں پہنچی جس طرح عیسائیوں کے ہاں پہنچ چکی ہے۔

لیکن اب بھی دیکھ لو کس طرح کعبہ شریف کی شبیہیں کھڑی کی ہُوئی ہیں۔

کس طرح لوگ اس کے ارد گرد طواف کر رہے ہیں، کس طرح اس کے چاروں طرف ریکارڈنگ ہو رہی ہے، اور کس طرح جھنڈیاں سجائی جا رہی ہیں، معاذ اللّٰہ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ یہ سرکار دو عالمﷺ کی سیرت طیبہ کا کوئی جشن نہیں ہے۔

بلکہ جیسے ہندوؤں اور عیسائیوں کے عام جشن ہوتے ہیں اس طرح کا کوئی جشن ہے اور رفتہ رفتہ ساری خرابیاں اس میں جمع ہو رہی ہے۔

سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ سب کچھ دین کے نام پر ہو رہا ہے، اور یہ سب کچھ حضورﷺ کے مقدّس نام پر ہو رہا ہے،اور یہ سب کچھ یہ سوچ کر ہو رہا ہے کہ یہ بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔

اور یہ خیال کر رہے ہیں کہ آج ۱۲ ربیع الاول کو چراغاں کر کے،اور اپنی عمارتوں کو روشن کر کے،اور اپنے راستوں کو سجا کر ہم نے حضور ﷺ کے ساتھ محبّت کا حق ادا کر دیا، اور اگر ان سے پوچھا جائے کہ آپ دین پر عمل نہیں کرتے؟

تو جواب دیتے ہیں کہ ہمارے یہاں تو میلاد ہوتا ہے، ہمارے یہاں تو حضورﷺ کی یوم پیدائش پر چراغاں ہوتا ہے، اس طرح دین کا حق ادا ہورہاہے۔

حلانکہ یہ طریقہ اسلام کا نہیں ہے۔
حضورﷺ کا طریقہ نہیں ہے۔
آپ کے صحابہ کرام کا طریقہ نہیں ہے۔

اور اگر اس طریقہ میں خیر و برکت ہوتی تو ابو بکر صدیق،فاروق اعظم، عثمان غنی، اور علی مرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہم اس سے چوکنے والے نہیں تھے۔

جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں صحابہ کرام سے زیادہ حضورﷺ کا عاشق ہوں اور صحابہ کرام سے زیادہ محبّت رکھنے والا ہوں، وہ حقیقت میں بےوقوف اور احمق ہے۔اس لئے کہ صحابہ کرام سے بڑا عاشق اور محبّت کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

آپ کا مقصد بعثت کیا تھا؟

صحابہ کرام کا یہ حال تھا کہ نہ جلوس ہے،نہ جلسہ ہے، نہ جھنڈی ہے،اور نہ سجاوٹ ہے۔
لیکن ایک چیز ہے۔

وہ یہ کہ سرکار دو عالمﷺ کی سیرت طیبہ زندگیوں میں رچی ہوئی ہے۔

اُن کا ہر دن سیرت طیبہ کا دن ہے۔ان کا ہر لمحہ سیرت طیّبہ کا لمحہ ہے۔

انکا ہر کام سیرت طیّبہ کا کام ہے، کوئی کام ایسا نہیں تھا کہ سرکار دو عالمﷺ اس لیے دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے کہ اپنا دن منوائیں اور اپنی تعریفیں کرائیں۔

اپنی شان میں قصیدے پرهوائیں، خُدا نہ کرے اگر یہ مقصود ہوتا تو جس وقت کفار مکہ نے آپ کو یہ پیش کش کی تھی کہ اگر آپ سردار بننا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا سردار بنانے کے لئے تیار ہیں۔

اگر آپ حسن و جمال کے طلبگار ہیں تو عرب کا منتخب حسن و جمال آپ کی خدمت میں نذر کیا جا سکتا ہے۔

اگر آپ مال و دولت کے طلبگار ہیں تو مال و دولت کے ڈھیر آپکے قدموں میں لانے کے لئے تیار ہیں۔
بشرطیکہ آپ اپنی تعلیمات کو چھوڑ دیں،اور یہ دعوت کا کام چھوڑ دیں۔

اگر آپﷺ کو یہ چیزیں مطلوب ہوتیں تو آپ ان کی اس پیش کش کو قبول کرلیتے۔

سرداری بھی ملتی،روپیہ پیسہ بھی مل جاتا،اور دنیا کی سارے نعمتیں حاصل ہوجاتیں۔

لیکن سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا کہ اگر تم میرے ایک ہاتھ میں آفتاب اور ایک ہاتھ میں ماہتاب بھی لاکر رکھ دو گے، تب بھی میں اپنی تعلیمات سے ہٹنے والا نہیں ہوں۔

کیا آپ دنیا میں اس لئے تشریف لائے تھے کہ لوگ میرے نام پر عید میلاد النبی منائیں؟

،بلکہ آپ کے آنے کا منشا وہ ہے
جو قرآن کریم کی (سورۃ الاحزاب۲۱) کی آیت میں
: بیان فرمایا
یعنی ہم نے نبی کریمﷺ کو تمہارے پاس بہترین نمونہ بنا کر بھیجا ہے،تاکہ تم ان کی نقل اتارو، اور اس شخص کے لیے بھیجا ہے جو اللّٰہ پر ایمان رکھتا ہو اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہو۔

شکریہ۔۔

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!