(لڑکیوں کی اہمیت)

in blurtindia •  4 years ago 

IMG-20201015-WA0017.jpg
Source

السّلامُ علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔۔

( لڑکيوں کی اہمیت)

میں ڈاکٹر فاطمہ ہوں کل میں ڈیوٹی پر معمور تھی کہ ایک خودکشی کا ایمر جنسی کیس آ گیا خود کشی کرنے والی لڑکی کا نام منتہیٰ تھا اور میں نے اپنے آٹھ سالہ کیرئیر اور گزری زندگی میں پہلی بار اتنی خوبصورت لڑکی دیکھی تھی۔

مریضہ حالت بیہوشی میں تھی اس کو اٹھا کر ہسپتال پہنچانے والے اسکے والدین تھے والدین بھی ماشاءاللّٰہ بہترین پرسنیلٹی کے مالک تھے مگر اس وقت بیٹی کے عمل نے ان کی حالت کو قابل رحم بنا رکھا تھا پتہ نہیں کیوں مجھے لڑکی پر پیار اور اس کے والدین کی بے بسی دیکھ کر بے انتہا کا ترس آ رہا تھا۔

لڑکی کو آپریشن تھیٹر لایا گیا آپریٹ کے بعد اس کو وارڈ میں منتقل کر دیا گیا تھا اور والدین کو بتا دیا گیا تھا کہ لڑکی کی حالت خطرے سے باہر ہے لڑکی کی خیریت کا پتہ چلتے لڑکی کا والد غرباء میں کچھ تقسیم کرنے کے لئے نکل گیا تو لڑکی کی ماں کو میں نے اپنے آفس میں بلوا لیا۔

مختصراً لڑکی کی ماں نے جو کہانی سنائی وہ کچھ یوں تھی۔

لڑکی کا نام منتہیٰ ہے اور منتہیٰ نے ٹیکسٹائل انجینیرنگ کر رکھی ہے پڑھائی کے بعد تمام والدین کی طرح منتہیٰ کے والدین کی بھی خواہش تھی کہ وہ اپنے گھر کی ہو جائے اس لئے انہوں نے منتہیٰ سے اس کی پسند کے متعلق پوچھا تو منتہیٰ نے مشرقی لڑکیوں کی طرح فیصلے کا اختیار ماں باپ کو دے دی

والدین نے منتہیٰ کے رشتے کی بات چلائی تو منتہیٰ کو دیکھنے ایک فیملی آئی لوازمات اور خدمات سے مستفید ہونے کے بعد عورتیں منتہیٰ کے کمرے میں آئیں کسی نے منتہیٰ سے چل کر دکھانے کی فرمائش کی کسی نے بولنے اور کسی نے منتہیٰ کے ہاتھ کی چائے پینے کی فرمائش کی اس کے بعد اجازت لے کر چلے گئے اور چند دن بعد بنا کوئی بات بتائے رشتے سے انکار کر دیا۔

منتہیٰ کے لئے پہلی بار تھی جب وہ ریجیکٹ ہوئی مگر ماں باپ کی تسلی نے منتہیٰ کو حوصلہ دیا اور ایک بار پھر منتہیٰ کو دیکھنے کے لئے فیملی آئی۔

انہوں نے بھی کھانے سے فارغ ہونے کے بعد منتہیٰ کے ہاتھ سے چائے پینے کی فرمائش کی اور چائے کے بعد اجازت چاہی تین دن انتظار میں رکھنے کے بعد یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا لڑکی کو مہمان نوازی نہیں آتی

کیونکہ اس نے لڑکے کی ماں کو ٹیبل سے اٹھا کر ہاتھ میں چائے پیش نہیں کی بلکہ عام مہمانوں کی طرح ٹیبل پر رکھ دی۔

اس انکار پر منتہیٰ کے ساتھ ساتھ اس میں والدین بھی اندر ٹوٹ پھوٹ گئے مگر اللّٰہ کی رضا سمجھ کر صبر کر رہے پھر ایک نئی فیملی آئی۔

اس فیملی کی خواتین کے بیٹھتے ہی منتہیٰ نے ان کے جوتے تک اپنے ہاتھوں سے اتارے وہیں بیٹھے بیٹھے ہاتھ دھلوائے اور پھر چائے پیش کی۔

اس فیملی نے ہفتے بعد یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ آپ کی بیٹی پر جِنّات کا سایہ ہے ورنہ کوئی میزبان پہلی بار گھر آئے مہمان کی اتنی خدمت کہاں کرتا ہے۔

پچھلے آٹھ سالوں میں سو سے زائد لوگ رشتے دیکھنے آئے مگر کوئی نہ کوئی عیب نکال کر چلے گئے
کل ایک فیملی آئی انہوں نے لڑکی کو باقی ہر لحاظ سے ٹھیک قرار دیا مگر یہ کہتے ہوئے انکار کر دیے کہ
منتہیٰ کی عمر زیادہ ہو گئی ہے اور احسان جتاتے ہوئے کہا کہ اگر آپ زیادہ مجبور ہیں تو ہمارا ایک اڑتالیس سالہ بیٹا جس کی اپنی دوکان ہے اس کے لئیے منتہیٰ قبول کر لیتے ہیں۔

اتنا کہتے ہوئے منتہیٰ کی ماں سسکیاں لے کر رونے لگی اور کہا آپ بھی تو ماں ہیں سوچیں ماں جتنی بھی مجبور ہو غیروں کے سامنے کیسے کہہ سکتی ہے ؟

اور میری بیٹی کل سارا دن میرے سینے سے لگ کر روتی رہی ہے کہتی رہی ہے ان لوگوں کے معیار تک آتے آتے میری عمر زیادہ ہو گئی ہے ماں اور پھر نہ جانے کب اس نے دنیا کو الوداع کہنے کا فیصلہ کر لیا کیوں کہ وہ کہتی تھی میرا منحوس سایا میری بہن کو بھی والدین کی دہلیز پر بوڑھا کر دے گا۔

میں (ڈاکٹر) نے منتہیٰ کی والدہ کو پانی پلایا اتنے میں اس کا والد اور پیچھے وارڈ بوائےداخل ہوا آ کر بتایا کہ منتہیٰ ہوش میں آ گئی ہے۔

منتہیٰ کی ماں بجلی کی تیزی سے وارڈ میں پہنچی منتہیٰ کا سر اٹھا کر سینے لگا کر میں(ڈاکٹر) اور منتہیٰ کا والد ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئے منتہیٰ ماں کو چھوڑ کر باپ کے گلے لگی اور سسکتے ہوئے کہا پاپا بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں پاپا آپ نے کیوں بچایا مجھے ؟

مجھے مرنے دیتے میرا منحوس سایا اس گھر سے نکلے گا تو گڑیا کی شادی ہو گی
نہیں تو وہ بھی آپ کی دہلیز پر پڑی پڑی بوڑھی ہو جائے گی۔

منتہیٰ کا باپ چپ چاپ آنسو بہا رہا تھا جب میں نے حالات آؤٹ آف کنٹرول ہوتے دیکھے تو منتہیٰ کو سکون اور انجیکشن دے دیا اور منتہیٰ کے والدین کو لے کر آفس میں آگئی میں نے منتہیٰ اور اس کی چھوٹی بہن کو اپنے دونوں بھائیوں کے لئیے مانگ لیا
اور منتہیٰ کے والدین کی آنکھیں اچانک برسنے لگیں مگر اس بار آنسو خوشی کے تھے۔

میرے دونوں بھائی ڈاکٹر ہیں میں نے ان کو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور وہ قبول کر چکے ہیں۔

آخر میں آپ لوگوں سے التجا کرتی ہوں آپ شادی عورت سے کر رہے ہوتے ہیں حور سے نہیں خدارا کسی کی بیٹی کو ریجیکٹ کرنے سے پہلے اس کی جگہ اپنی بیٹی رکھ کر سوچیں۔

میں ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے کہتی ہوں اگر عیب کی بنا پر ریجیکٹ کرنا ہو، لڑکیوں سے دوگنی تعداد میں لڑکے ریجیکٹ ہوں۔

خدا اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کا واسطہ دے کر التجا کرتی ہوں کسی کو بلا وجہ عیب زدہ کہہ کر ریجیکٹ نہ کرو آپ اللّٰہ کی مخلوق کے عیبوں پر پردہ ڈالیں اللّٰہ آپ کے عیبوں پر پردہ ڈالے گا۔

آپ کے نکالے عیب اور انکار لڑکیوں کو قبر میں دھکیل دیتے ہیں۔۔

شُکریہ۔۔۔

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!