Source:https://images.app.goo.gl/CCFsYLPJRkSKVaNPA
محمدﷺ کو جو اذیتیں پیش آئیں وہ اذیتیں آپ کو نبی جانچنے
کے لئے پیش آئی ہیں؛ ایک یہودی عورت نے بھی زہر دیا تھا وہ صرف نبوت کو جانچنے کے لیے تھا کہ اگر نبی ہیں تو اللَّه اِن کی حفاظت کریں گے اور اگر یہ نبی نہیں ہیں تو پھر اِن کی دعوت سے ہم کو نجات مل جائے گی، اگر نبی ہے تو باقی رہیں گے، زہر سے مریں گے نہیں...
گویا نبی کی نبوت کو جانچنے کے لیے آپ ﷺ کے ساتھ زیادتی کی جاتی تھی....
بڑی کمی ہے اس کی کہ انتقام کا جذبہ غالب ہے صبر پر.....
جب صبر کیا جاتا ہے تقویٰ کے بغیر، تو یہ صبر ﷲکے تعلق کے بغیر ہوتا ہے، اُس صبر سے کوئی فائدہ نہیں، جو صبر بغیر تقویٰ کے ہو...
قرآن میں جہاں بھی دیکھو گے تقویٰ اور صبر دونوں ساتھ ملیں گے اِنَّہٗ مَنۡ یَّـتَّقِ وَ یَصۡبِرۡ __وَ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا _؛ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم صبر کرتے ہیں تقویٰ کے بغیر؟..
تقویٰ کے بغیر صبر کرنا ایسا ہے جیسا چوروں کا صبر کرنا پولس والوں کی پٹائی پر، اندر خیانت ہے اور صبر ہے......
جو حالات گناہوں کی وجہ سے آتے ہیں وہ صبر کرنے سے ختم نہیں ہوتے، بلکہ گناہوں کے ساتھ تو صبر کی کوئی مدّت ہی نہیں ہے، لوگ کہتے ہیں کہ تھوڑا سا صبر کرلو حالات بدل جائیں گے، گناہوں کے ساتھ صبر کی کوئی مدّت نہیں ہے...
کیونکہ اللَّه ربّ العزت نے اپنے احکام توڑنے والوں کے لیے بھی یہ کہہ دیا کہ صبر کرو یا نہ کرو تمہارے لیے برابر ہے اِصۡلَوۡہَا فَاصۡبِرُوۡۤا اَوۡ لَا تَصۡبِرُوۡا ۚ سَوَآءٌ عَلَیۡکُمۡ ؕ اِنَّمَا تُجۡزَوۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ کےتمہارے جو حالات ہیں وہ تمہارے گناہوں کی وجہ سے ہیں اس میں صبر کرنا نہ کرنا برابر ہے،
بنیادی بات یہ ہے کہ صبر اور تقویٰ ان دونوں کو جمع کرو ۔
❤