Source:https://images.app.goo.gl/2qLBp9pSGVM6CJfRA
حدیثوں کو مدون کرنے اور اس کو محفوظ کرکے ایک نسل کے بعد دوسری نسل تک پہنچانے کا عمل سرکاری نگرانی میں کبھی بھی نہیں رہا ،
نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رہا ، اور نہ ہی خلفائے راشدین کے زمانے میں رہا ، بلکہ پرائیوٹ طور پر مختلف
افراد اپنی ذاتی ذمہ داری پر ہی یہ کام جاری رکھا کئے ۔
اس تدوین حدیث کے عمل پر سرکاری مُہر ثبت بھی نہیں کی جاسکتی تھی ، اس لئے کہ ایک
استاد کے درس میں آنے والے بالفرض دس پندرہ شاگرد ہوا کرتے تھے۔ تو ظاہر سی بات ہے کہ ان کی صلاحیتیں یکساں نہیں
ہوسکتیں۔
ایک ہی استاد کی بیان کردہ حدیث کو اس کے سامعین میں سے اگر دو شخص روایت کرتے ہیں تو اپنی اپنی مختلف صلاحیت کے فرق کی وجہ سے اس میں اختلاف پیدا ہوجا نا ، یہ ایک فطری امر ہے جس کو روکا نہیں جاسکتا۔
خصوصاً اس وجہ سے کہ بعض وقت لفظ بہ لفظ حدیث کی روایت کرنے کی جگہ اس کا خلاصہ یا اس کا مفہوم اپنے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
ایسے نازک مقامات بھی آتے ہیں کہ لفظ کے بدلنے سے مفہوم میں فرق پیدا ہوجاتا ہے۔
اسی طرح ایک آدمی کا حافظہ اچھا ہوتا ہے، دوسرے کا حافظہ کمزور ہوتا ہے یا کسی ایک شخص کا ایک زمانے میں حافظہ ٹھیک ہے، اس کے بعد مثلاً بڑھاپے کی وجہ سے اس کا حافظہ کمزور ہوگیا ہے اور اس کے باوجود اپنے تدریسی کام کو جاری رکھتا
۔ انہی وجوہ سے حدیثوں میں باہم تضاد بھی نظر آسکتا ہے۔
اس کی ایک وجہ تو وہی ہے کہ راوی سے غلطی ہوئی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداً ایک حکم دیا اور بعد میں اسے کسی نہ کسی وجہ سے منسوخ کردیا اور نیا حکم دیا۔
ان حالات میں “الف” صحابی کے پاس پہلے دن کی بات تو موجود ہے لیکن دوسرے دن کی بات یا دوسری مرتبہ بیان کی ہوئی بات موجود نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ اس کی بیان کردہ حدیث اور دوسرے شخص یعنی بعد والے صحابی کی بیان کردہ حدیث میں اختلاف ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض وقت امت کی صلاحیتوں کے پیش نظر یا کسی خاص سیاق وسباق میں ایک حکم دیا جاتا ہے ، اور بعد میں اسے بدلنا پڑتا ہے۔
اس کی ایک مثال ہم عرض کرچکے ہیں ، یعنی کھجور کے نر اور مادہ پھولوں کو ملانے کا مسئلہ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداً صراحت کے ساتھ اس کا حکم دیا، بعد میں صراحتاً اسے منسوخ بھی فرمایا۔
ایک اور مثال اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے ، وہ ہے قبر پرستی :
قبر پرستی انسانی معاشرے میں ایک عام مرض رہا ہے۔
عرب میں بھی اسلام سے پہلے اس کا رواج تھا، آج بھی ہم میں پایا جاتا ہے۔
اس کو روکنے کی غرض سے (تاکہ آدمی قبر میں سونے والوں سے مانگنے کی بجائے اللہ سے مانگے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت ہی کی ممانعت فرمادی۔ کچھ عرصہ بعد ان الفاظ کے ساتھ اس کی مکرر اجازت دے دی۔ “
( کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور الا فزوروا ) متفق علیہ :
ترجمہ : میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، سنو! اب تم زیارت کرسکتے ہو !
فائدہ : اس دوسرے حکم کی وجہ یہ نہیں تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے بدل گئ بلکہ یہ کہ سیاق و سباق بدل گیا۔ قبر پرستی سے بلکل روکنا چاہتے تھے لیکن قبرستان میں جانے کے بعد جو عبرت ہوتی ہے، یعنی ہم سوچتے ہیں کہ ہمیں بھی ایک روز مرنا ہے تو کیا ہمیں اس کے لیے تیار نہیں رہنا چاہیے؟ کیا ہمیں دغابازی، جھوٹ اور فریب وغیرہ پر قائم رہنا چاہیے؟ تو اس لئے عبرت حاصل کرنے کی خاطر آپ نے اجازت دے دی۔
غرض حدیث میں اختلاف ایک طرف فرقہ وارانہ ہے تو دوسری طرف ایک فرقے کے اندر بھی ہے۔ ان دشواریوں کو دور کرنے کے لیے ماہرین علم حدیث نے کبھی کوتاہی نہیں کی۔ اس کو انہوں نے مختلف تدبیروں کے ذریعہ سے حل کیا،
، ایک خصوصیت جو مسلمانوں ہی میں پائی جاتی ہے
انشاءاللہ باقی کی باتیں اگلی پوسٹ میں لکھونگا
❤
Aise hi likhte rho or aage bdho