(۲)تدوین حدیث کاعمل غیر سرکاری رہا۔

in blurtindia •  4 years ago 

1886_islamic-finance-cover.PNG
Source:https://images.app.goo.gl/2qLBp9pSGVM6CJfRA
کل کی پوسٹ پر اس سے پہلے کی باتیں میں نے لکھی ہے

تدوین حدیث کاعمل غیر سرکاری رہا۔

👆🏻👆🏻👆🏻آپ اس لنک پر جاکر دیکھ لیں

                      👇🏻اب 

ایک خصوصیت جو مسلمانوں ہی میں پائی جاتی ہے ۔

دوسری قوموں میں عملاً غیر موجود ہے وہ یہ کہ روایت کو مکمل حوالجات کے ساتھ پیش کرنا مثلاً :

ہم آج سے چودہ سو برس پہلے کی ایک حدیث بیان کرتے ہوئے کہتےہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یوں یوں کرو
اب اگر اس روایت کا حوالہ نہ دیاجائے تو یہ روایت نامکمل ہوئی ، اس کے برخلاف اگر ہم بیان کریں کہ : میرے استاد “الف” نے کہا کہ اسے اس کے استاد “ب” نے پھر اس کے استاد : ج : نے اس طرح تمام استادوں کا نسلاً بعد نسلا ذکر کرتے ہوئے کہیں کہ آخری استاد فلاں صحابی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے : تو وہ روایت اس کے حوالجات کی وجہ سے مکمل ہوئی !

اب حدیث کی کتابوں کے اندر ہر آدھی سطر یا ایک سطر کی جو حدیث ہوا کرتی ہے، اس کے شروع میں ایک لمبی فہرست ہوتی ہے کہ عن فلاں، عن فلاں عن فلاں

۔ مثلاً بخاری جو قدیم ترین مؤلفوں میں سے ایک ہیں، ان کی حدیثیں بعض دفعہ تین درمیانی راویوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی ہیں اور زیادہ سے زیادہ نو تک۔

گویا ڈھائی تین سو سال کے عرصے میں نو پشتیں راویوں کی آچکی تھیں۔
اور وہ اس بات کی تحقیق میں اپنی جانیں کھپا دیں کہ یہ حوالہ مکمل ہے یا نہیں، یہ ضروری ہے کہ ہمارے سامنے ایسی کتب ہوں جن میں ہر راوی کی سوانح موجود ہو۔

مثلاً یہ بیان کیا جائے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد “الف” “ب” “ت” تھے اور پھر میرے سامنے ایک روایت آتی ہے جس میں عن فلاں ، عن فلاں، عن فلاں، کرتے ہوئے مثلاً “ب” یا “ت” نامی شخص بیان کرتا ہے کہ “حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا” تو اس کتاب کی مدد سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ یہ سب راوی ثقہ ہیں اور استاد شاگرد رہے ہیں، اس لیے یہ روایت قابل قبول ہے، اس کے یہ بھی دیکھاگیاکہ ہر ایک راوی کا ذاتی کردار کیسا تھا۔

اور اس کا حافظہ اچھا تھا یا نہیں، یہ بھی کہ اس کے استاد کون کون تھے۔
اور شاگرد کون کون تھے، تاکہ اس قسم کی پرانی باتوں کو(سوانح)عمریوں کی مدد سے ہم استاد کو جانچ سکیں اور یہ معلوم کرسکیں کہ راویوں کی تاریخ کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ واقعی صحیح ہے یا فرضی ہے۔

اس کے بعد علم ( اصول حدیث ) وجود میں آیا، جس میں یہ بیان کیا جانے لگا کہ اگر حدیثوں میں ایسی باتیں نظر آئیں جو عقل کے خلاف ہوں یا حدیثوں کے اندر فلاں فلاں عیب یا کمی ہو، تو ایسی صورتوں میں ہم کیا کریں؟ کس طرح ان گتھیوں کو
سلجھائیں اب روایت اور درایت کہ دو اصول
کو مسلمانوں نے اختیار کیے۔

روایت کے اصول کے مطابق یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو لوگ حدیث کو بیان کرتے ہیں چاہے بیان کرنے والے وہ فرضی ہیں یا حقیقی قابل اعتماد ہیں یا جھوٹ بولنے والے ہیں۔ استاد شاگرد ہیں یا نہیں؟

اور باقی اس کے بعد کی باتیں اگلی پوسٹ میں لکھونگا انشاءاللہ

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!