Source:https://images.app.goo.gl/jEc5b93XkoHX2KV76
حضرت عبداللہؓ ابن عمر ؓ کو اگر اُن کے کوئی اتباع سنت کو دیکھتا تو اُن کو دیکھ کر یقیناً پاگل کہتا،.....
اسلئے کہ وہ یہ نہیں دیکھا کرتے تھے کہ آیا اس وقت اس سنت کی ضرورت ہے یا نہیں یا اسوقت یہ سنت معمول بہ ہے یا نہیں.
ہماری ناکامی کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ہم اُن سنتوں پر عمل چھوڑدیتے جو اس وقت معمول بہ نہیں ہے.
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ میں اتنا زیادہ اہتمام اتباع سنت کا تھا؛ راستے سے چلتے چلتے ایک طرف ہوگئے، پھر راستے پر آگئے........
لوگوں نے کہا، کہ آپ نے فضول کام کیا! کہ آپ راستے سے ہٹے کچے میں چلے گئے اور پھر راستے پر آگئے......
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کہنے لگے، مجھے یاد ہے، ایک مرتبہ یہاں سے گزرتے ہوئے حضور ﷺ اسطرح راستہ سے ہٹے اور اس طرف سے آپﷺ گزر کر راستہ پر آے.
میں نے کہا کہ اتباع میں کیا ہے؛ مجھے معلوم نہیں کہ آپ ﷺ یہ کام کیوں کیا.
کسی سنت کو کسی فائدے کی غرض سے کرنا وہ ہمیں صرف اُن سنتوں محدود کردے گا جس کا ہمیں فائدہ نظر آئے گا.
اس لئے کسی بھی سنت کی علّت معلوم مت کرو، اس لیے کہ علّتیں وہ لوگ معلوم کرتے ہیں جنہیں عمل نہیں کرنا ہوتا.
جن سنتوں کا فائدہ سامنے نہیں آوے گا ہم اُن سنتوں کو چھوڑ دینگے یہ کہہ کر کہ اس کا فائدہ نہیں معلوم کیا ہے.
جو لوگ حکم کے پابند نہیں ہوتے وہ کسی بھی چیز کے فائدے کا پہلے مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں.
اگر ہمیں فائدہ ہوا تو ہم یہ کام کرلیں گے
کہ پہلے ہمیں فائدہ کا مشاہداکرواؤ کہ اس کے کرنے سے کیا فائدہ ہے......