Source:https://images.app.goo.gl/2qLBp9pSGVM6CJfRA
پچھلی پوسٹ پر اس سے پہلے کی باتیں میں نے لکھی ہے۔
👇🏻👇🏻آپ اس لنک پر جاکر دیکھ لیں
(۲)تدوین حدیث کاعمل غیر سرکاری رہا۔
روایت کے اصول کے مطابق یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو لوگ حدیث کو بیان کرتے ہیں آیا وہ بیان کرنے والے فرضی ہیں یا حقیقی، قابل اعتماد ہیں یا جھوٹ بولنے والے ہیں۔
استاد شاگرد ہیں یا نہیں؟
یہ علم ( اصول حدیث ) روایت کی گئی حدیث کو کنٹرول کرنے یا جانچنے کا طریقہ ہے۔
درایت کے اصول کے مطابق یہ دیکھا جاتا ہے کہ حدیث میں جو بات بیان کی گئ ہے وہ عقلاً درست ہے یا نہیں۔
فرض کیجئے ایک حدیث میں ذکر آتا ہے کہ مثلاً شہر حیدرآباد میں فلاں چیز ہوگی۔
لیکن درایتاً اس زمانے میں شہر حیدرآباد موجود تھا ہی نہیں، یہ ذکر کیسے آیا۔
لہٰذا ہم یہ فیصلہ اخذ کریں گے کہ غالباً یہ ( سہو کتاب ) ہے، یا پھر یہ کہ حدیث جعلی ہے اس شہر کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حیدرآباد بیان نہ کیا ہوگا، بلکہ اور لفظ ہوگا جو بگڑ کر حیدرآباد بن گیا۔
یہ اور اس طرح کی چیزیں ہم درایت سے معلوم کرسکتے ہیں اور ان اصولوں کے مطابق ہم ان دشواریوں کو حل کرسکتے ہیں جو حدیث کے اندر نظر آتی ہیں۔
اسی طرح دو حدیثوں میں اختلاف کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ایک میں کہا گیا ہے کہ یہ کام کرو، دوسری میں ہے کہ نہ کرو۔
تو ان دشواریوں کو جن طریقوں سے دور کیا جاسکتا ہے، وہ “علم اصول حدیث” کی کتابوں میں ملتا ہے۔
مثلاً یہ بات ممکن ہے کہ ایک حکم قدیم ہو، دوسرا حکم جدید ہو تو جدید ترین حکم قدیم حکم کو منسوخ کردے گا۔ یا یہ کہ ایک حکم خاص ہے، دوسرا حکم عام ہے۔
ایک شخص کو یہ کہا گیا کہ یوں کرو یا یوں نہ کرو اور دوسرے لوگوں کو حکم دیا گیا کہ تم یہ کام کرسکتے ہو۔
غرض مختلف طریقے ہیں جن کے ذریعے ہم حدیثوں کی اندرونی دشواریوں کو دور کرسکتے ہیں اور اس سے ہمارے علماء غافل نہیں رہے۔
گزشتہ چودہ سو سال سے وہ اس پر توجہ کرتے رہے ہیں اور ہم آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حدیثوں کی صحت کو جانچنے کا جو وسیلہ یا طریقہ ہمارے پاس ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی اور قوم میں نہیں پایا جاتا۔
ہم اپنے عیسائی بھائیوں کو ناراض کیے بغیر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی انجیل پر اتنا اعتماد نہیں کیا جاسکتا، جتنا ہماری بخاری،
مسلم اور ترمذی پر کیا جاسکتا ہے۔
کیونکہ انجیل کی تدوین، انجیل کا تحفظ، انجیل کا نسل بعد نسل منتقل ہونا، اس طریقے سے عمل میں نہیں آیا جس طریقے سے حدیث کی کتابوں میں ہمیں عمل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔
مثلاً
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تین سو سال بعد تک انجیلوں کے متعلق ہمیں کوئی علم نہیں کہ کس نے اس کو لکھا، کس نے اس کا ترجمہ کیا اور کس نے اسے نقل کیا، اصل زبان سے یونانی زبان میں کس کے حکم سے منتقل کیا گیا۔ آیا کاتبوں نے صحت کا التزام رکھا یا نہیں۔
تین سو سال بعد چار انجیلوں کا ذکر ہمیں پہلی مرتبہ ملتا ہے۔ کیا ہم ایسی بلاسند کتاب پر اعتماد کریں یا بخاری پر جو ہر دوسطری بیان کو بھی تین سے لے کر نو حوالوں تک بیان کرتا ہے کہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان کیا ہے۔
لیکن اس کا ثبوت کیا ہے کہ بخاری نے سچ بیان کیا ہو، ( دراصل یہی اعتراض پرویزی وغامدی منکرینِ حدیث کا ہے ) ہوسکتاہے کہ امام بخاری نے خود سے گھڑ لیا ہو اور راویوں سے منسوب کردیا ہو کہ مجھے “الف” نے “ب” سے اور “ب” نے “د” سے، اسی طرح رسول اللہ تک پہنچا ہو۔ اُن کایہ اعتراض اعتراض عقلاً بالکل صحیح ہے لیکن حقیقتاً بے بنیاد اعتراض ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ بخاری سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جن محدثین نے حدیث کی روایت کی ہے ان کی کتابیں بھی ہمیں موجود ملتی ہیں
❤