قرآن کے پاروں سے منتخب فوائد اور نصیحتیں
☆☆☆ بارہواں پارہ ☆☆☆
1- سورہ ہود کی ابتدائی آیات میں اللہ کے وسعتِ علم اور تمام مخلوقات کے رزق کی ذمہ داری کا ذکر کر کے اللہ کی عظمت و کبریائی بیان کی گئی ہے۔
2- عظمت قرآن کی ایک شکل یہ ہے کہ قرآن جھٹلانے والوں کو اللہ نے مختلف مقامات پر چیلنج دیا ہے۔ کبھی اسی جیسا قرآن پیش کرنے کا مطالبہ کرکے، کبھی صرف دس سورتیں طلب کرکے اور کبھی ایک سورت کا مطالبہ کر کے۔ مگر وہ لوگ اس چیلنج کا جواب دینے سے قاصر رہے۔ حالانکہ وہ فصاحت و بلاغت کے میدان کے شہسوار تھے۔
3- اس پارے میں نوح علیہ السلام کا قصہ نیز ان کے اور ان کی قوم کے درمیان ہونے والی گفتگو کا تفصیلی ذکر ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے انہیں کشتی بنانے کا حکم دیا۔ پھر اس طوفانی حادثے کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اس میں بڑی عبرت اور نصیحت کی باتیں ہیں جن پر غور و تدبر کرنے کی ضرورت ہے۔ پورے قرآن میں نوح علیہ السلام کا قصہ اس سورۃ میں بڑی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔
4- نوح علیہ السلام کی اپنے بیٹے سے ہونے والی گفتگو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ توحید پرست بندوں کے دلوں میں اللہ کی محبت تمام محبتوں سے عظیم اور بالاتر ہوتی ہے یہاں تک کہ اپنے لخت جگر کی محبت سے بھی زیادہ عظیم ہوتی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رشتہ دار کافر کے ساتھ گفتگو میں ادب اور سلیقہ کا پاس و لحاظ رکھنا چاہئے۔ چہ جائیکہ وہ کوئی نافرمان مسلمان ہو۔ ممکن ہے اللہ تعالی اسے ہدایت سے نواز دے۔
5- ہود علیہ السلام کے قصے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ استغفار حسی اور معنوی دونوں طرح کی طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
6- ہود علیہ السلام کی قوم نے انہیں جھٹلایا۔ ان پر آسیب اور پاگل پن کا الزام لگایا مگر انہوں نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے صبر و تحمل سے کام لیا چنانچہ اللہ تعالی نے انہیں نجات دلائی۔
7- اس سورت کے اندر بہت سارے انبیاء کے قصے بیان کیے گئے ہیں۔ دعوت الی اللہ کی راہ میں انھیں جو تکلیفیں اور اذیتیں اٹھانی پڑی اس کا بھی تذکرہ ہے۔ اس سے انبیائے کرام کے اپنے قوموں کے تئیں عظیم محبت و شفقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن جو معاند اور نفس پرست ہو اس کے ساتھ کوئی چارہ نہیں۔
8- شعیب علیہ السلام کے قصے میں معیشت و اقتصاد کی جانب اسلام کی خاص توجہ اور اس میں اللہ کے مراقبہ اور نگہداشت ملحوظ رکھتے کا ذکر ہے۔
9- فرعون کے ساتھ موسی علیہ السلام کے قصے کا بھی مختصر تذکرہ موجود ہے۔
10- اس پارے میں قیامت کے مناظر میں سے ایک خوفناک منظر کی تصویر کشی کی گئی ہے اور نیک اور بد بخت لوگوں کے انجام کو بیان کیا گیا ہے۔
11- سورہ ھود کی آخری آیات میں استقامت کی ہدایت، دعوت و تبلیغ کا حکم اور دعوت کی راہ میں صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر داعی صبر کا دامن چھوڑ دے تو ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے بلکہ اسے نقصان بھی اٹھانا پڑے۔
12- سورہ یوسف کی ابتدائی آیات میں خواب کی اہمیت پر گفتگو کی گئی ہے اگرچہ وہ خواب دیکھنے والا کوئی چھوٹا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ نیز اس سے بچوں کی باتوں کو بغور سننے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
13- ابتدائی آیات میں یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا حسد اور حسن و جمال کی وجہ سے یوسف علیہ السلام کے آزمائش میں مبتلا ہونے کا ذکر ہے۔ مگر یوسف علیہ السلام نے صبر سے کام لیا پھر اچھا انجام کار انہیں کو حاصل ہوا۔
14- بسا اوقات آپ کے دشمن آپ کو اذیت دینے بلکہ آپ کو قتل کرنے کا بھی نشانہ بنا سکتے ہیں اس وقت آپ کو یہ آیت کریمہ یاد رکھنی چاہیے: ( ؕ اِنَّہٗ مَنۡ یَّـتَّقِ وَ یَصۡبِرۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۹۰﴾ جو بھی پرہیز گاری اور صبر کرے تو اللہ تعالٰی کسی نیکوکار کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
15- یہاں یوسف علیہ السلام کے بہکانے کا ذکر اور بہکنے سے بچانے والی چیز یعنی اخلاص کا ذکر ہے۔ غور کیجئے آپ کو اس اخلاص کا کتنا حصہ نصیب ہوا ہے تاکہ اس کے ذریعہ آپ شہوتوں کا مقابلہ کر سکیں۔
16- یوسف علیہ السلام کے قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب دعوت الی اللہ کا جذبہ دل میں موجزن ہو جائے تو داعی اس کار دعوت سے باز نہیں آ سکتا اگرچہ وہ وہ پس دیوار زنداں ہی کیوں نہ ہو۔