رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
کمہار سے کسی نے پوچھا یہ جو تم مٹی کا برتن بناتے ہو ، اتنا خوبصورت کیسے بنتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
کمہار نے کہا کہ پہلے میں اسے اپنے خیالوں میں بناتا ہوں پھر اس میں اپنی محبت اور محنت ڈالتا ہوں ، اس میں میرا خلوص میری پوری صلاحیت شامل ہوتی ہے ، کیونکہ یہی میری پہچان ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اساتذہ سے پوچھا جائے کہ آپ کیوں پڑھا رہے ہیں تو عموما جواب ہوتا ہے کہ کیا کریں اس کے علاوہ ہم کیا کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ؟
لگے ہیں ، پڑے ہیں ، چلوکچھ تو ملتا ہے جس سے گھر کا خرچ چلتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ایک مزدور والی سوچ کے حامل اساتذہ سے بھلا قوم کے بچوں میں مستقبل کے اجالے کی امید کیسے ممکن ۔۔۔۔۔۔۔؟
جس استاد کے پاس ویژن نہیں، اس کو اندازہ ہی نہیں کہ اس کی آج کی محنت کتنی نسلوں کو ممتاز بنا سکتی ہے، جس کے پاس خواب ہی نہیں کہ آج کی تعلیم و تدریس اور آج کا یہ چھوٹا سا کام یہی قوموں کو بناتا ہے اور نسلوں کو سنوارتا ہے اور کل قیامت یہ ہمارے لئے صدقہ جاریہ ہوگا، ان شاءاللہ
ویژن والا استاذ جذبہ والا ہوتا ہے اس کے اندر بجلی دوڑ رہی ہوتی ہے اور یہی بجلی وہ اگلی نسلوں کو منتقل کرتا ہے، وہ اپنے علم کو ، عقل کو، اپنے شعور کو دوسروں میں شامل کرنا شروع کر دیتا ہے ، اس طرح وہ شکر گزار بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے پاس مال ہے اور آپ خود ہی کھائے جا رہے ہیں تو پھر یہ شکر نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔!
اپنے رزق میں سے کچھ حصہ دوسروں کو دینا شروع کر دیں یہ شکر کا اعلی درجہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ نے ہمیں علم دیا ہے ، اپنا علم ہم دوسروں تک پہونچائیں یہ علم کا عملی شکر ہے ۔۔۔۔۔۔
استاذ وہ جو دکھنے میں لگے ، اس کا حلیہ درست ، لباس درست ، کھانے پینے اور چلنے پھرنےکے انداز سے بھی استاذ لگے ، بات کرے تو الفاظ و آداب کے موتی بکھیرے ، اخلاق ایسے ہوں کہ لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آئیں ۔۔۔۔۔
یقین کیجئے استاذ کہیں بھی ہو ، کسی بھی محفل میں ہو، حتی کہ بازار میں سودا سلف لے رہا ہو، اگر اچھا استاد ہے تو اپنی چال ڈھال سے بتا دیتا ہے کہ وہ استاذ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم استاذ بنیں تو صحیح ؛ انسان کیا فرشتے بھی ہماری تعظیم کے لئے قطار میں کھڑے نظر آئیں گے اور اپنا پر بچھائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین محترم! استاد کی زندگی کا سب سے خوبصورت مقصد یہ ہے کہ وہ تعلیم و تدریس کا مقصد تلاش کرے ، پھر اس مقصد کے لیے کام کرے کیونکہ جو انسان مقصد کے حصول کے لیے اخلاص کے ساتھ محنت و تگ و دو کرتا ہے وہ اپنے مطلوبہ منزل و مقام تک ضرور پہونچتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں کو ہدف دیں کہ ہمیں زندگی کے دن ہفتے مہینے اور سال نہیں پورے کرنے ہیں بلکہ ہفتہ مہینہ اور سال کو ایک عظیم مقصد کے تحت گزارنا ہے ۔۔۔۔۔۔
سقراط سے کسی نے اس کی موت کے وقت کہاکہ : تمہاری زندگی اب ختم ہو جائے گی تو سقراط کہتا ہے کہ نہیں میری زندگی ختم ہونے والی نہیں! وہ تمام دروس و لیکچرس جو میں نے دیئے ہیں ، وہ ہزاروں سال پڑھائے جائیں گے ۔۔۔۔
کتنے ائمہ کرام ، محدثین ، فقہاء ، ادباء ، خطباء اور مفسرین کرام کو دنیا سے گئے ہوئے صدیاں بیت گئیں لیکن وہ آج بھی ہمارے درمیان زندہ ہیں ، اور آج ہم زندہ رہتے ہوئے بھی مردہ ہیں ، آخر ایسا کیوں ۔۔۔۔۔؟
جب کردار ہوگا تو زندگی لمبی ہو جائے گی ، مرنے کے بعد بھی آپ کا سکھایا ہوا علم و ادب جاری و ساری رہے گا اور آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہوگا ، ان شاء اللہ
افسوس! آج کے استاد اور امام کی یہ حالت۔۔۔۔۔۔۔،!
کہیں یہ ہماری کوتاہی ، ذمہ داری سے عدم توجہی اور ادائیگی حقوق میں کمی کے نتائج تو نہیں ۔۔۔۔۔۔!!!
میرے بھائی! اندھیرے وہی مٹا سکتے ہیں جن کے اپنے دل و دماغ روشن ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
اللہ تعالی ہمیں حقیقی معنوں میں اچھا استاذ ،
امام اور بامقصد و باکمال معلم بننے کی توفیق
عطا فرمائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین