بسم الله الرحمن الرحيم
" ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں "
" ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں"
یہ مصرع نہایت ہی معنی خیز ہے ، اس میں بارہ تیرہ سو سال کی روشن تاریخ مضمر ہے ،اس کے حرف حرف میں اولو العزم ہستیوں کے حسین کارنامے پنہاں ہیں ، اس سے اپنا ملی تشخص بحال رکھنے کی امید جاگتی ہے اور حالات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے
چونکہ ہر اچھا شعر اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے اس لئے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے کہ جگر مرادآبادی رحمہ اللہ کے زمانہ تک دینی ،تنظیمی ،تعلیمی اور نیم سیاسی حلقوں تک مسلمانان ہند میں یہی مزاج تھا، یہی یقین تھا، یہی جذبہ و جنون تھا ،یہی عمل تھا اور یہی ملی تشخص بھی تھا ، مگر بد قسمتی سے رفتہ رفتہ اس شعر کو بلکہ اس مصرع کو زمانہ کی نظر لگ گئی ، وزن و الفاظ و حروف سب باقی ہیں مگر اس مصرع کی معنویت نہ جانے کہاں کھوگئی ہے ۔
اب اس کی روح نکل چکی ہے، آج کے دور میں یہ ایک بے جان سا مصرع ہے ،متوسطہ کے طلبہ تک اس مصرع کو معنوی اعتبار سے صحیح ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
یہ بچے بھی کس قدر سچے اور دل کے اچھے ہوتے ہیں ،ایک دن کلاس میں موضوع درس کے طور پر اس شعر کو پڑھا تو بچے کہنے لگے کہ حضرت! ماضی کے ملی قائدین اس شعر کے مصداق یقینا رہے ہوں گے۔ وہ ملت کی قیادت میں مخلص اور معتبر ہوا کرتے تھے ، وہ مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی مومنانہ فراست جیسی نعمت باری کے ذریعہ قوم کے حق میں ایسے فیصلے لیا کرتے تھے جو نہایت نتیجہ خیز ہوا کرتے تھے ، ان خاک نشینوں کے فیصلوں سے بڑی سے بڑی طاقتیں اور شاہی عمارتیں بھی لرز اٹھتی تھیں ۔ یہ خاک نشین لوگ زمانہ کو اپنی ٹھوکر میں رکھا کرتے تھے ۔
یہ سن کر
ایک طالب علم نے بڑی معصومیت سے ایک چبھتا ہوا جملہ ،جملہ معترضہ کے طور پر بیچ میں اس سے چسپاں کیا
کہ ایسا اس لئے ہوتا تھا چونکہ وہ قائدین سچ مچ خاک نشین ہی ہوا کرتے تھے ،ان کے پاس کھونے کے لئے ذاتی طور پر کچھ ہوتا ہی نہیں تھا تو پھر انہیں کس چیز کا خوف اور کس بات کا ڈر ہوتا جو حق ہوتا وہ کہہ گزرتے تھے۔۔ مگر آج کل تو دیکھئے نا سیاست ویاست، ایڈی ووڈی کیا کیا نہیں ہوتا ہے۔ اگر لوگ نہیں ڈریں گے تو پھر کیا کریں گے۔ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔
ایک شریر طالب علم نے تو حد ہی کردی ۔اس کم بخت نے کہا کہ پہلے لوگ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر ملت کی حفاظت کرتے تھے اور اب تو سنتا ہوں کہ لوگ ملت کو جوکھم میں ڈال کر اپنی جان کی حفاظت کرتے ہیں۔
ایک معصوم طالب علم نے کہا :حفاظت کسی کی بھی ہو ،ہوتو رہی ہے یہی کیا کم ہے۔
ایک طالب علم جو کافی دیر سے چپ تھا ، اس نے اپنی چپی توڑی اور کہنے لگا۔یہی سب وجوہات ہیں کہ اس مصرع نے اپنی معنویت کھو دیا ہے۔ ہم لوگ ماضی کے اکابرین کے دور میں پیدا ہوتے تو اس مصرع کو معنوی اعتبار سے مکمل بھرپور پاتے مگر آج کل واقعی ایسا نہیں ہے ۔
اس کلاس کے جمن میاں نے تو ایک سیدھے سادے جملہ کے ذریعہ کلاس کو قہقہوں میں ڈبو دیا۔ اس نے کہا کہ ہاں آج کل یہ مصرع یتیم ہو گیا ہے بیچارہ۔
ایک اور طالب علم نے کہا کہ حضرت میں جو تقریر رٹ رہا ہوں اس میں بھی یہ مصرع ہے ،کیا اس کو اپنی تقریر سے نکال دوں۔
میں نے ڈانٹ کر کہا کہ بس کرو ،بہت ہوگئی تم لوگوں کی بکواس ،اب بند کرو اسے ۔ ادب کے سبجیکٹ میں بے ادب بنے جارے ہو تم لوگ ۔
میری بلند آواز پر سب خاموش ہو کر دبک گئے۔
میں نے اس خاموشی پر فاتحانہ نظر ڈالی ۔حالانکہ فاتحانہ داخلہ جب سے بند ہوا ہے تب سے فاتحانہ لفظ کی حیثیت بھی سمٹ کر رہ گئی ہے تب بھی میں نے فاتحانہ ہی نظر ڈالی۔
بہر کیف
میرے لئے اپنی قوم کے دینی نمائندوں کا مذاق اڑایا جانا قطعا برداشت نہیں تھا۔ اس لئے میں غصہ سے لال پیلا ہوگیا ہوگیا۔ پھر غصہ ضبط کیا اور دھونس جمانے کے لئے بلند آواز سے پڑھنے لگا
بے فائدہ الم نہیں، بیکار غم نہیں
توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوہٴ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگادیا، یہی احسان کم نہیں
یا رب! ہجوم درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا، ابھی مِری آنکھیں بھی نم نہیں
زاہد! کچھ اور ہو نہ ہو میخانہ میں، مگر
کیا کم یہ ہے، کہ شکوہٴ دیروحرم نہیں
مرگِ جگر پہ کیوں تِری آنکھیں ہیں اشک ریز
اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں
غزل مکمل ہوئی تو ایک شریر طالب علم نے کہا کہ حضرت غزل نامکمل ہے ۔
میں نے کہا کہ تم بہت ودوان ہو تم ہی مکمل کردو اگر ناقص ہے تو ۔
اس نے پڑھا۔
ہم کو مِٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے، زمانے سے ہم نہیں
بچوں نے بیک زبان ہوکر کہا کہ حضرت اسی شعر کے دوسرے مصرع کو زمانہ کی نظر لگ ہی نا۔اسی لئے آپ نے شاید پوری غزل تو سنادی مگر اس کو چھپا لیا ۔
میں نے کہا تم لوگ جو کہو وہی صحیح ۔
حالانکہ میں واضح طور پر سبکی محسوس کر رہا تھا چونکہ میں اس شعر کے دوسرے مصرع سے واقعی جل بھن چکا تھا اس لئے بچوں کے سامنے دہرانا نہیں چاہتا ہے ۔اسی لئے نہیں پڑھا تھا۔
بحر حال یہ بچے دل کے سچے ہوتے ہیں ادب اور کلاس کی لن ترانیاں دیر تک یاد رکھنا پسند نہیں کرتے ہیں مزے لئے اور چل دئیے۔
مگر میں بیٹھا دیر سوچتا رہا کہ واقعی بچوں کی ان لن ترانیوں میں سچائیاں اس قدر پوشیدہ ہیں کہ
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی ۔
ان حقائق کا انکار بھی ممکن نہیں ہے ورنہ کسی کا دل ٹوٹے یا نہ ٹوٹے ان منچلے عزیز بچوں کا دل ضرور ٹوٹ جائے گا ۔ کیوں کہ یہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نیٹ کے دور میں پیدا ہوئے ہیں کمپیوٹر دماغ رکھتے ہیں، سرچ کا مزاج رکھتے ہیں ، مرعوب کم ہوتے ہیں پروف زیادہ چاہتے ہیں۔
ان بچوں نے پہلے بھی کہا تھا کہ حضرت!نظامیہ مدارس میں جو پرانا نصاب تعلیم تھا وہ یقیناً اس وقت کے لحاظ سے بہت مناسب تھا مگر اب ڈیرھ دو صدی کے بعد بھی اس میں ترمیم کی گنجائش نہ ہو یہ عجوبہ ہے۔حالانکہ ترمیم کی سخت ضرورت ہے یہ وقت کا عین تقاضا ہے۔
اس سلسلہ میں کتنی میٹنگیں ہوئیں مگر بڑے لوگ ماننے کو کبھی بھی تیار نہیں ہوئے۔ حالانکہ قرآن و حدیث و فقہ کے ما سوا متعدد ایسے مضامین اور سبجیکٹس ہیں جن کو ہٹانے سے دینی تعلیم قععا متاثر نہیں ہوتی۔
حالانکہ متعدد چھوٹے موٹے اداروں نے مرور زمانہ کے ساتھ اس لازمی تغیر کو محسوس بھی کیا اور کسی کی پرواہ کئے بغیر اس پر عمل بھی کیا حالانکہ اس سے ان کے دینی سبجیکٹس میں قطعا کوئی کمی نہیں آئی ۔ مگر اس تغیر کا دائرہ وسیع نہیں ہو سکا چونکہ اکثر چھوٹے ادارے بڑے اداروں کو فولو کرنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں ۔
ابھی صورت حال یہ ہے کہ آج یوپی کے مدارس ریاستی حکومت کے نشانے ہے ہیں ۔اب عافیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مدارس کے نصاب تعلیم میں تغیر کو زمانہ کی ضرورت کا خوبصورت نام دے کر قبول کیا جارہا ہے۔حالانکہ اسی تغیر کو یہ زمانہ ایک طویل عرصے سے محسوس کر رہا تھا اور اس عمل چاہتا تھا ۔
یقین جانیے اگر مناسب وقت میں اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس پر عمل شروع ہو جاتا تو آج ہم۔فخر سے کہہ سکتے تھے کہ
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں ۔
مگر اے بسا کہ آرزو خاک شدہ ۔
زمانہ چیختا رہا اور ہم مسلسل نظر انداز کرتے رہے۔
اور نتیجہ ایں جا رسید کہ اب ہم زمانہ کے سامنے مجبور محض علاوہ اور کیا ہیں ۔کچھ بھی نہیں ۔
اتنا ہی نہیں بلکہ اجازت ہو تو ایک بات کہوں کہ
ابھی دو دن پہلے سترہ ہزار طالبات حجاب تنازعہ کی وجہ سے تعلیم سے دستبردار ہوگئیں ۔اگر اس کا بھی جواب ملی تنظیموں کے پاس نہیں ہے یا نہیں دینا چاہتی ہیں تو یہ تنظیمیں کس کام کے لئے ہیں اور کس دن کے لئے ہیں۔
جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں ۔
اس موقع پر مجھے ڈاکٹر علامہ اقبال کی بہت یاد آرہی ہے۔
وہ سچ مچ ایک دور اندیش شاعر تھے انہوں نے کس قدر سچی بات کہی ہے۔
نگہہ بلند ،سخن دل نواز جاں پر سوز
یہی رخت سفر میر کارواں کے لئے ۔
ان صفات کا حامل کوئی مل جائے تو کیا کہنا ،مزہ آجائےگا۔
خیر جو ہوا سو ہوا ۔مگر جو ہوا اچھا ہی ہوا۔
میری زباں پہ شکوہٴ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگادیا، یہی احسان کم نہیں