پیدل سفرِ حج، کیا بیوقوفانہ اور جاہلانہ کام ہے؟

in blurt •  2 years ago 

پیدل سفرِ حج، کیا بیوقوفانہ اور جاہلانہ کام ہے؟
تحقیقی جائزہ 📗
بعض حضرات شہاب (کیرالہ) کے پیدل سفرِ حج پر طر طرح سے اعتراضات کررہے ہیں اور اس سفر کو بےوقوفانہ، جاہلانہ، غیر شرعی، ناجائز اور مُنکر کہہ کر اس کے رد میں مختلف عنوانات سے تحریریں لکھ رہے ہیں، اگر گہری سوچ اور عقیق مطالعے کے بعد رائے قائم کی جائے تو اوپر کے سارے اعتراضی اقوال ناروا، نامناسب اور غیر ضروری معلوم ہوتے ہیں۔
یہاں صرف "افضل" اور "غیر افضل" کا مسئلہ ہے بس. جواز و عدم جواز کا مسئلہ نہیں ہے، سواری یا پیدل دونوں طرح سفرِ حج کرنا بالکل جائز اور درست ہے، بعض علماء و ائمہ پیدل سفرِ حج کو افضل بتاتے ہیں اور بعض سواری پر سفرِ حج کو افضل بتاتے ہیں۔
تفصیلی تحقیق پیش خدمت ہے 👇
🔘حج وعمرہ میں مشقت پر بھی ثواب ہے:

فَاخْرُجِي إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهِلِّي، ثُمَّ ائْتِينَا بِمَكَانِ كَذَا، وَلَكِنَّهَا عَلَى قَدْرِ نَفَقَتِكِ أَوْ نَصَبِكِ.
(حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آپ نے فرمایا) تنعیم جاکر احرام باندھیں، پھر ہم سے فلاں جگہ آ ملیں اور یہ کہ اس عمرہ کا ثواب تمہارے خرچ اور محنت کے مطابق ملے گا۔
(صحیح بخاری، ح1787)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے: بَاب: أَجْرِ الْعُمْرَةِ عَلَى قَدْرِ النَّصَبِ. عمرہ (اور حج) میں جتنی تکلیف ہو اتنا ہی ثواب ہے۔
(حالانکہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے لیکن اِس جگہ امام بخاری ؒ کی مراد بالکل درست ہے)

🔘بعض حضرات نے پیدل سفرِ حج کو افضل بتایا ہے:

1: وَاَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاۡتِیۡنَ مِنۡ کُلِّ فَجٍّ عَمِیۡقٍ۔
ترجمہ: اور لوگوں میں حج کا اعلان کردیں، وہ آپ کے پاس پیدل اور ہر لاغر سواری پر آئیں گے، جو ہر دور دراز راستے سے آئیں گی۔
(الحج، آیت27)
اس آیت میں پیدل سفرِ حج کا تذکرہ موجود ہے اور پیدل کو سواری پر مقدم کیا گیا ہے۔

2: امام المفسرین حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اِسی آیت کی تفسیر کرتے ہیں:
يَأْتُوكَ رِجالًا وَعَلى كُلِّ ضامِرٍ الآية، قَدْ يَسْتِدَلُّ بِهَذِهِ الْآيَةِ مَنْ ذَهَبَ مِنَ الْعُلَمَاءِ إِلَى أَنَّ الْحَجَّ مَاشِيًا لِمَنْ قَدَرَ عَلَيْهِ أَفْضَلُ مِنَ الْحَجِّ رَاكِبًا، لِأَنَّهُ قَدَّمَهُمْ فِي الذِّكْرِ۔
پیدل بھی لوگ آئیں گے اور سواریوں پر سوار بھی آئیں گے۔ اس سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ جسے طاقت ہو اس کے لیے پیدل حج کرنا سواری پر حج کرنے سے افضل ہے اس لیے کہ پہلے پیدل والوں کا ذکر ہے. (پھر سواروں کا)
(تفسیر ابن کثیر، ج5، ص414، ط: دار طیبہ)

اس تفسیر میں اُن حضرات کا رد موجود ہے جو نذر اور بوڑھے شخص کے پیدل حج جانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت ذکر کرکے پیدل حج پر جانے کا رد کرکے اُسے غیر شرعی کہہ رہے ہیں حافظ ابن کثیر ؒ نے فرمایا "لِمَنْ قَدَرَ عَلَيْهِ" جسے طاقت ہو، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدل جانے والے صاحبِ زور اور استطاعت و قوت رکھنے والے حضرات کو منع نہیں فرمایا، جسے منع فرمایا وہ ایک عورت تھی اور ایک غیر مستطیع بوڑھا تھا جو دوسروں کے سہارے پر چل رہا تھا۔
اور نذر کی وجہ سے وہ چیز فرض کے حکم میں آجاتی ہے اور با مشقت و تکلیف دہ نذر غیر مستطیع پر لازم نہیں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کی یہی توجیہ بہتر ہے۔
3: امام بیھقی رحمہ اللہ نے اوپر ذکر کردہ حدیثِ عائشہ ؓ پر باب قائم کیا ہے: بابُ الرَّجُلِ يَجِدُ زادًا وراحِلَةً فيَحُجُّ ماشيًا يَحتَسِبُ فيه زيادَةَ الأجرِ۔
باب ہے اس شخص کے بیان میں جو زاد راہ اور سواری پاتا ہو لیکن زیادہ اجر حاصل کرنے کے لئے وہ پیدل حج کرے۔
(سنن الکبریٰ مترجم، ج6، ق، ح8643، ط: رحمانیہ)
یعنی زیادہ اجر پانے کے لئے پیدل حج کرنا بہتر ہے کیونکہ اُس میں محنت زیادہ ہے، امام بیھقی رحمہ اللہ نے اپنے قول پر حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دلیل لی ہے۔

4: امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا:
وَقَالَ دَاوُد مَاشِيًا أَفْضَلُ، وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله تعالى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَائِشَةَ (وَلَكِنَّهَا عَلَى قَدْرِ نَفَقَتِكِ أَوْ نَصَبِكِ.
امام داود رحمه الله نے فرمایا: پیدل (سفرِ حج کرنا) افضل ہے اور انھوں نے حدیثِ عائشہ (رضی اللہ عنہ) سے حجت پکڑی (جس طرح امام بیھقی رحمہ اللہ نے اسی حدیث پر باب قائل کیا ہے۔)
(المجموع للنووی، ج7، ص91، ط: دارالفکر)
مذکورہ امام نے بھی حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پیدل سفرِ حج کی افضیلت کی دلیل لی ہے۔

5: قال إسحاق بن راهويه: المشي أفضل لما فيه من التعب. امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے فرمایا: کہ پیدل سفرِ حج پر جانا افضل ہے جس (سفر) میں تھکاوٹ ہو۔
(فتح الباري لابن حجر، ج3، ص380)

🔘پیدل حج کا سفر کرنا بالکل جائز ہے:

1: وَاَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاۡتِیۡنَ مِنۡ کُلِّ فَجٍّ عَمِیۡقٍ۔
ترجمہ: اور لوگوں میں حج کا اعلان کردیں، وہ آپ کے پاس پیدل اور ہر لاغر سواری پر آئیں گے، جو ہر دور دراز راستے سے آئیں گی۔
(الحج، آیت27)
آیت میں پیدل سفرِ حج کا جواز موجود ہے۔
2: مفسر ومحدث محمد بن احمد القرطبي رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (اختصاراً عرض ہے)
لَا خِلَافَ فِي جَوَازِ الرُّكُوبِ وَالْمَشْيِ، وَاخْتَلَفُوا فِي الْأَفْضَلِ مِنْهُمَا، فَذَهَبَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ فِي آخَرَيْنِ إِلَى أَنَّ الرُّكُوبَ أَفْضَلُ، وَذَهَبَ غَيْرُهُمْ إِلَى أَنَّ الْمَشْيَ أَفْضَلُ.
پیدل اور سواری پر (حج کرنے) کے جائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اُن کی افضیلت میں اختلاف ہے امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کا مذہب ہے کہ سواری (پر حج کرنا) افضل ہے اور دیگر کا مذھب ہے کہ پیدل (حج کرنا) افضل ہے۔
(تفسير قرطبي، ج14، ص363، ط: الرسالة)
3: نَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِي بَيْنَ يَدَيْهِ، مِنْ رَاكِبٍ وَمَاشٍ، وَعَنْ يَمِينِهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَعَنْ يَسَارِهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَمِنْ خَلْفِهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا.
(حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ حجۃ الوداع کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ) میں نے آپ ﷺ کے سامنے، تاحد نگاہ پیدل اور سوار ہی دیکھے، آپ کے دائیں، آپ کے بائیں اور آپ کے پیچھے بھی یہی حال تھا۔ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان (موجود) تھے۔
(صحيح مسلم، ح2950)
حجۃ الوداع میں لوگوں کی تعداد تقریباً 90 ہزار یا ایک لاکھ 30 ہزار تھی، (سنن ابوداؤد، تشریح حدیث1905) میرے مطالعے میں، ایک لاکھ 14 ہزار بھی آیا ہے، (واللہ تعالٰی بالصواب) آدمیوں کے اس ٹھاٹھیں مارتا سمندر میں بےشمار لوگ پیدل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفرِ حج پر تھے۔

نوٹ: پیدل سفرِ حج کے عدم جواز کے قائلین اور نذر اور غیر مستطیع بوڑھے شخص کی حدیث لاکر پاپیادہ سفرِ حج کے مانعین کے لئے یہاں جواب موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف نا قابلِ برداشت اور بامشقت نذر سے منع کیا ہے، جو پیدل سفرِ حج کی طاقت رکھتے ہیں اُنھیں منع نہیں کیا گیا تبھی تو حجۃ الوداع میں بےشمار لوگ آپ کے ساتھ پیدل تھے۔
4: امام نووی رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا حدیث سے مسئلہ اخذ کیا ہے "بَيْنَ يَدَيْهِ مِنْ رَاكِبٍ وَمَاشٍ" آپ ﷺ کے سامنے، تاحد نگاہ پیدل اور سوار ہی دیکھے. "فِيهِ جَوَازُ الْحَجِّ رَاكِبًا وَمَاشِيًا" اس میں پیدل اور سوار (دونوں طرح سے) حج کرنے کا جواز ہے۔
(شرح مسلم للنووي، ج8، ص173، ط: الازهر)
5: امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں:
عَن بن عَبَّاسٍ مَا فَاتَنِي شَيْءٌ أَشَدُّ عَلَيَّ أَنْ لَا أَكُونَ حَجَجْتُ مَاشِيًا لِأَنَّ اللَّهَ يَقُولُ "يأتوك رجَالًا وعَلى كل ضامر" فَبَدَأَ بِالرِّجَالِ قَبْلَ الرُّكْبَانِ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مَیں نے ایسی کوئی چیز نہیں چھوڑی جو مجھ کو تکلیف دے (یعنی مجھے پچھتاوا ہو وہ) یہ ہے کہ مَیں پیدل حج نہ کرسکا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمہارے پاس پیدل اور ہر لاغر سواری پر آئیں گے۔
(فتح الباري، ج3، ح379، ط: السلفية)

یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ مَیں بھی پیدل حج کروں، کیونکہ پہلے اکثر لوگ پیدل ہی حج کیا کرتے تھے امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: كَانُوا لَا يَرْكَبُونَ فَأَنْزَلَ الله "يأتوك رجَالًا وعَلى كل ضامر"۔ وہ (سفرِ حج کے لئے) سوار نہیں ہوتے تھے پس یہ آیت نازل ہوئی "يأتوك رجَالًا وعَلى كل ضامر" وہ آپ کے پاس پیدل اور ہر لاغر سواری پر آئیں گے "وَرَخَّصَ لَهُمْ فِي الرُّكُوبِِ" اور (بعد میں) سواریوں پر حج کرنے کی رخصت ہوئی۔
(حوالہ سابق)
پیدل حج کرنے کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بڑی شدت سے خواہش تھی کیونکہ دلیل میں آیتِ کریمہ موجود تھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عموماً ممانعت بھی نہیں تھی، آپ کی اِس خواہش کا تذکرہ کئی معتبر تفاسیر میں موجود ہے اور کتب احادیث میں بھی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ جیسے:
"سنن الکبریٰ مترجم، ج6، ق، ح8644، ط: رحمانیہ"
"مصنف ابن ابی شیبہ مترجم، ج4، ح1602، ط: رحمانیہ"
"مستدرک الحاکم مترجم، ج2، ح1692، ط: شبیر برادرز"
"صحیح ابن خزیمہ، ح2791"
بعض احادیث میں ضعف پایا جاتا ہے۔

6:عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ: لَقَدْ حَجَّ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ خَمْسًا وَعِشْرِينَ حَجَّةً مَاشِيًا، وَإِنَّ النَّجَائِبَ لَتُقَادُ مَعَهُ.
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے پچیس بار پیدل حج کیا اور خاندانی شرافت والے حضرات آپ کے ساتھ ہوتے۔
(التعليق- من تلخيص الذهبي، حديث: 4788، سكت عنه الذهبي في التلخيص)

7: أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ قَالَ: حَجَجْتُ مَعَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ مَاشِيًا.
اسماعیل بن عبدالملک نے فرمایا: میں نے سعید بن جبیر کے ساتھ پیدل حج کیا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ مترجم، ج4، ح16006، ط: رحمانیہ)
قائل ضعیف ہیں۔
8: امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے پیدل حج کیا۔
قَالَ سَمِعتُ ابي يَقُول حججْتُ خمس حجج مِنْهَا ثِنْتَيْنِ رَاكِبًا وَثَلَاثَة مَاشِيا اَوْ ثِنْتَيْنِ مَاشِيا وَثَلَاثَة رَاكِبًا فضللت الطَّرِيق فِي حجَّة وَكنت مَاشِيا فَجعلت اقول يَا عباد الله دلونا على الطَّرِيق فَلم ازل اقول ذَلِك حَتَّى وَقعت الطَّرِيق.
عبداللہ بن احمد ؒ نے فرمایا: میں نے اپنے والد کو کہتے ہوئے سنا کہ مَیں نے پانچ حج کیا ان میں سے دو سوار ہوکر اور تین پیدل یا دو پیدل اور تین سوار ہوکر، مَیں حج میں راستہ بھول گیا اور مَیں پیدل تھا، مَیں برابر یہی کہتا رہا اے اللہ کے بندو! ہمیں راستہ بتاؤ یہاں تک کہ مَیں (صحیح) راستے پر آگیا۔
(مسائل الإمام أحمد رواية ابنه عبد الله، رقم912، ط: المكتب الإسلامي)

🔘 پیدل سفرِ حج کے جواز پر اجماع ہے۔
1: امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا:
"بَيْنَ يَدَيْهِ مِنْ رَاكِبٍ وَمَاشٍ" فِيهِ جَوَازُ الْحَجِّ رَاكِبًا وَمَاشِيًا وَهُوَ مُجْمَعٌ عَلَيْهِ وَقَدْ تَظَاهَرَتْ عَلَيْهِ دَلَائِلُ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَإِجْمَاعُ الْأُمَّةِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالۡحَجِّ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ۔
آپ ﷺ کے سامنے، تاحد نگاہ پیدل اور سوار ہی دیکھے. اس میں پیدل اور سوار (دونوں طرح سے) حج کرنے کا جواز ہے اور اس پر اجماع ہے، اس پر کتاب وسنت اور اجماعِ امت کے دلائل ظاہر ہیں۔ اور لوگوں میں حج کا اعلان کردیں، وہ آپ کے پاس پیدل اور ہر لاغر سواری پر آئیں گے.
(شرح مسلم للنووي، ج8، ص173، ط: الازهر)

2: مفسر ومحدث محمد بن احمد القرطبي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَا خِلَافَ فِي جَوَازِ الرُّكُوبِ وَالْمَشْيِ. سواری اور پیدل (سفرِ حج کے) جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
(تفسير قرطبي، ج14، ص363، ط: الرسالة)

🔘پیدل اور سواری میں افضل کیا ہے؟
جہاں تک افضیلت کا مسئلہ ہے تو راجح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر سفرِ حج کیا اور اِسی طرف امام شافعی اور امام مالک رحمھما اللہ گئے ہیں۔
1: علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
ذكر البخاري حديث ابن عمر في إهلال رسول الله ﷺ حين استوت به راحلته، وغرضه الرد على من زعم أن الحج ماشيا أفضل۔
امام بخاری ؒ نے ابن عمر ؓ کی حدیث ذکر کی، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تلبیہ پکارا جب آپ کی سواری کھڑی ہوچکی، اس کے بیان کا مقصد اُن حضرات کا رد ہے جو گمان کرتے ہیں کہ پیدل سفرِ حج کرنا افضل ہے۔
(فتح الباري، ج3، ص380)

2: قال ابن المنذر اختلف في الركوب والمشي للحجاج أيهما أفضل؟ فقال الجمهور الركوب أفضل لفعل النبي ﷺ۔
امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ حاجیوں کے لئے پیدل اور سواری میں سے افضل کیا ہے؟ تو جمہور نے فرمایا سواری (پر سفرِ حج) افضل ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی وجہ سے۔
(فتح الباري لابن حجر، ج3، ص380)

3: امام المفسرین حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
وَالَّذِي عَلَيْهِ الْأَكْثَرُونَ أَنَّ الْحَجَّ رَاكِبًا أَفْضَلُ، اقْتِدَاءً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ حَجَّ رَاكِبًا مَعَ كَمَالِ قُوَّتِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ.
جمہور کا قول یہی ہے کہ بےشک سواری پر حج کرنا افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود کمال قدرت وقوت کے (پیدل حج نہیں کیا بلکہ) سواری پر حج کیا۔
(تفسیر ابن کثیر، ج5، ص414، ط: دار طیبہ)

4: امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا:
وَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي الْأَفْضَلِ مِنْهُمَا فَقَالَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَجُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ الرُّكُوبُ أَفْضَلُ اقْتِدَاءً بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
علماء نے افضیلت میں اختلاف کیا ہے امام مالک اور امام شافعی اور جمہور علماء رحمھم اللہ نے فرمایا کہ سورای (پر سفرِ حج کرنا) افضل ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے ہوئے۔
(شرح صحیح مسلم، ج8، ص174)

🔘خلاصہ کلام
مذکورہ طویل تحریر کا ماحصل یہ ہے کہ پیدل سفرِ حج کرنا بالکل جائز اور درست ہے، الزامات اور اعتراضات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ہاں اگر کچھ بات ہوسکتی ہے تو وہ ہے افضلیت و غیر افضیلت کی اور حقیقت یہی ہے کہ پیدل حج کرنا جائز تو ہے مگر افضل نہیں ہے۔ لہٰذا جب جواز موجود ہے تو پھر پیدل سفرِ حج کو بےوقوفانہ، جاہلانہ، غیر شرعی، ناجائز اور مُنکر کہنا اہل علم کے لئے خلافِ شان ورتبہ ہے۔

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!
Sort Order:  
  ·  2 years ago  ·  


** Your post has been upvoted (1.28 %) **