ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

in blurt •  3 years ago 

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے

ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
Poet: Mirza Ghalib


کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی

داغ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
Poet: مرزا غالب

images (13).jpg
Source

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!
Sort Order:  
  ·  3 years ago  ·  

Congratulations, your post has been automatically curated by @ctime
Follow @ctime for more updates and use #iduvts (I Do Not Use Vote Trading Services) tag for higher upvotes
Warning: DO NOT delegate to @ctime or any other accounts (possible scam), My upvotes are always FREE!