پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم
تاریکی کے ہاتھ پہ بیعت کرنے والوں کا
سُورج کی بس ایک کِرن سے گھُٹ جاتا ہے دَم
رنگوں کو کلیوں میں جینا کون سکھاتا ہے!
شبنم کیسے رُکنا سیکھی! تِتلی کیسے رَم!
آنکھوں میں یہ پَلنے والے خواب نہ بجھنے پائیں
دل کے چاند چراغ کی دیکھو‘ لَو نہ ہو مدّھم
ہنس پڑتا ہے بہت زیادہ غم میں بھی انساں
بہت خوشی سے بھی تو آنکھیں ہو جاتی ہیں نم
Poet: Amjad Islam Amjad
یہ گردبادِ تمنا میں گھومتے ہوئے دن
کہاں پہ جا کے رُکیں گے یہ بھاگتے ہوئے دن
غروب ہوتے گئے رات کے اندھیروں میں
نویدِ امن کے سورج کو ڈھونڈتے ہوئے دن
نجانے کون خلا کے یہ استعارے ہیں
تمہارے ہجر کی گلیوں میں گونجتے ہوئے دن
نہ آپ چلتے ، نہ دیتے ہیں راستہ ہم کو
تھکی تھکی سی یہ شامیں یہ اونگھتے ہوئے دن
پھر آج کیسے کٹے گی پہاڑ جیسی رات
گزرگیا ہے یہی بات سوچتے دن
تمام عمر مرے ساتھ ساتھ چلتے رہے
تمہی کو ڈھونڈتے تم کو پکارتے ہوئے دن
ہر ایک رات جو تعمیر پھر سے ہوتی ہے
کٹے گا پھر وہی دیوار چاٹتے ہوئے دن
مرے قریب سے گزرے ہیں بار ہا امجد
کسی کے وصل کے وعدے کو دیکھتے ہوئے
Poet: Amjad Islam Amjad
Congratulations, your post has been automatically curated by @ctime
Follow @ctime for more updates and use #iduvts (I Do Not Use Vote Trading Services) tag for higher upvotes
Warning: DO NOT delegate to @ctime or any other accounts (possible scam), My upvotes are always FREE!