سفر کی کہانی

in blurt •  3 years ago 

1_5aEUYqzcFt-sdj0jjk71cA.jpeg
Source

میں ایک گاؤں میں ڈاکٹر بن کر نہیں جا سکتی۔اونہہ۔“سدرہ نے اپنی تقرری کا لیٹر میز پر پٹخ دیا۔”اتنی محنت سے تم ڈاکٹر بنی ہو۔“سدرہ کی امی شیریں بیگم منہ بسور کر بولیں:” سرکاری ملازمت کے انٹرویو اور ٹیسٹ بھی پاس کیے،لیکن محکمے نے تمہیں ڈاکٹر بنایا بھی تو کہاں کا ․․․․․ ایک گاؤں کے معمولی ہسپتال کا․․․․․“
سدرہ کے ابو بولے:”ٹھیک ہے سدرہ!تم وہاں مت جاؤ۔
میں تمہیں شہر کے کسی بڑے ہسپتال میں ملازمت دلوادوں گا۔گاؤں کے دھکے کھانے کی کیا ضرورت ہے۔“
”بالکل ٹھیک۔“شیریں بیگم نے جیسے حتمی فیصلہ سنایا:”تم شہر کی پلی بڑھی ہو۔شہر کا آرام و آسائش دیکھا ہے۔آسودہ زندگی گزاری ہے تم گاؤں کی سخت اور سہولتوں سے عاری زندگی کیسے گزار سکتی ہو۔
“اس تمام گفتگو کے دوران سدرہ کے دادا بالکل خاموش بیٹھے تھے۔ایک گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے۔گم صم جیسے کسی دوسری دنیا میں کھو گئے ہوں۔
”ابا جی!آپ کیا سوچ رہے ہیں؟“احمد خان نے پوچھا۔
”سدرہ گاؤں ضرور جائے گی۔
“دادا کی بات پر سب چونک گئے۔
”دادا جی!“سدرہ اُٹھ کر دادا کے پاس آئی:”آپ جانتے ہیں میں نے کبھی گاؤں میں ایک دن بھی نہیں گزارا،بھلا میں وہاں جا کر رہ سکتی ہوں؟“
”گاؤں کے لوگوں کو تمہاری ضرورت ہے بیٹی!“دادا بولے۔
”دادا جی!آپ فکر نہ کریں میں نہیں جاؤں گی تو کوئی اور لڑکی وہاں چلی جائے گی۔نوکری کی ضرورت مند لڑکیاں مجبوراً گاؤں چلی جاتی ہیں۔“
”مگر اس گاؤں کو تمہاری ضرورت ہے سدرہ!صرف تمہاری۔تمہیں وہاں مجبوراً نہیں خوشی سے جانا ہو گا۔
مجبوراً جانے والی لڑکیاں جلد وہاں سے تبادلہ کرا لیتی ہیں۔“
”لیں اور سنیں․․․․یہ ابا جی کیا کہہ رہے ہیں۔“شیریں بیگم سدرہ کے والد سے مخاطب ہوئیں:”ایک تو ابا جی سدرہ کو گاؤں میں بھیجنا چاہ رہے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ سدرہ وہاں سے تبادلہ کرا کے شہر بھی نہ آئے۔
“شیریں بیگم کے لہجے میں عجیب سی پریشانی تھی۔
”آپ سدرہ کو مجبور مت کریں ابا جی!“احمد خان بولے:”اب بچے اپنے بارے میں بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔“
”ٹھیک ہے سدرہ خود فیصلہ کرے گی اور جو بھی فیصلہ کرے گی آپ کو ماننا پڑے گا۔
“یہ کہہ کر دادا اپنے کمرے میں چلے گئے۔احمد خان اور شیریں بیگم ایک دوسرے کو پریشان ہو کر دیکھ رہے تھے۔دونوں کے چہرے پر پریشانی کے علاوہ کوئی اور تاثر بھی نہ تھا۔آنکھوں میں ایک اَن ہونا خوف بھی۔سدرہ اس تاثر کو سمجھ نہ سکی اور اپنے کمرے میں آگئی۔
رات کا اندھیرا ہولے ہولے اُجالے کی طرف سفر کر رہا تھا۔سدرہ کے کمرے کی کھڑکی کھلی تھی۔کھڑکی کے ساتھ لگے سنبل کے درخت پر بیٹھا اکیلا پرندہ نہ جانے کہاں سے اُڑ کر آیا تھا۔شاید راستہ بھول گیا تھا۔رات کی خاموشی اور تنہائی میں اس پرندے کی سیٹیوں جیسی آواز میں درد بھرا گیت سمویا تھا۔
دادا جی ہاتھ میں دودھ کا گلاس پکڑے اندر آئے۔سدرہ کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔وہ بولے:”لو بیٹا!دودھ پی لو۔“
اس نے گلاس پکڑ لیا:”شکریہ دادا جی!آپ میرا کتنا خیال رکھتے ہیں۔“
”تم ابھی تک پڑھ رہی ہو؟“دادا جی اس کے پاس بیٹھ گئے۔
”جی دادا جی!“وہ بولی:”نیند نہیں آرہی تھی۔پڑھائی بھی نہیں ہو پا رہی ہے مجھ سے۔بس اس پرندے کی آواز سن رہی ہوں جو ابھی تک جاگ رہا ہے۔“
”ہاں بیٹا لگتا ہے اپنی ڈار سے بچھڑ گیا ہے جو پرندے اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جاتے ہیں وہ سو نہیں سکتے۔
اسی طرح درد بھری صدائیں دیتے ہیں۔اپنے دوستوں کو پکارتے ہیں۔“
”دادا جی!کیا یہ پرندہ اپنوں سے نہیں مل پائے گا۔یوں ہی پکارتا رہے گا؟“
”نہیں بیٹا!کسی وقت اس کی پکار ان تک پہنچ جائے گی۔وہ بھی اسے پانے کے لئے بے تاب ہوں گے۔
وہ اسے لینے آجائیں گے۔“دادا کچھ توقف کے بعد بولے۔
”اس پرندے کی طر ح کبھی انسان بھی اپنوں سے جدا ہو جاتا ہے۔اپنی دھرتی چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور پھر دھرتی کی خوشبو اسے صدا دیتی ہے۔اسے پکارتی ہے۔اس زمین کے ہر ذرے کا اپنے باسی پر حق ہوتا ہے۔
اس دھرتی کا باسی لوٹ کر آجائے تو اس دھرتی پر بن موسم کے بہار آجاتی ہے۔“
”کیا واقعی؟“سدرہ نے پلکیں جھپکتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں․․․․․“دادا نے جواب دیا:“تم نے کبھی گاؤں کی بہاریں دیکھی ہیں؟سرسوں کے پیلے پھولوں کا رقص نہیں دیکھا؟وہاں برستی بارش کی ترنگ نہیں سنی؟مجھے یقین ہے کہ تم جاؤ گی تو موسم اپنے سارے رنگ اوڑھے تمہارا استقبال کرے گا۔
تمہیں ایک دن کے لئے گاؤں کا مہمان ضرور بننا چاہیے۔“
”ہم کس کے پاس جائیں گے دادا جی!وہاں کون ہے ہمارا؟“
”بابا نور دین کے پاس۔“دادا نے کہا۔
”اچھا وہ بابا․․․․․“‘سدرہ کچھ سوچتے ہوئے بولی:”جو کبھی کبھی گاؤں سے آتے ہیں۔
مجھے بہت پیار کرتے ہیں۔میرے لئے گڑ،دیسی گھی،مکھن،ساگ اور نہ جانے کیا کیا لاتے ہیں۔“
”ہاں وہی بابا۔تم نے کہا تھا نہ کہ ایک دن کے لئے بھی گاؤں نہیں گئی تو تمہیں میرے ساتھ ایک دن بابا نور دین کے گاؤں میں گزارنا ہو گا۔
بیٹا ! تمہیں جاننا چاہیے کہ گاؤں کیسے ہوتے ہیں۔“
”اچھا دادا جی!میں آپ کی بات مان لیتی ہوں۔کل ہی آپ کے ساتھ چلتی ہوں،لیکن وعدہ کریں کہ مجھے دوبارہ کسی بھی گاؤں میں ملازمت کرنے کا نہیں کہیں گے۔کریں وعدہ․․․“ سدرہ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جسے دادا نے ہنس کر تھام لیا۔
اگلی صبح جب سدرہ نے اپنے امی ابو کو بتایا کہ وہ دادا کے ساتھ ایک دن کے لئے بابا نور دین کے گاؤں جا رہی ہے تو شیریں بیگم سخت پریشان ہوگئیں اور چیخ اُٹھیں:”ہر گز نہیں۔تم ایک دن کے لئے بھی نہیں جاؤ گی۔ابا جی نے نہ جانے تمہیں کیا پٹی پڑھا دی ہے کہ تم اس گندے گاؤں جانے کے لئے تیار ہو گئی ہو۔
جہاں راستے میں جانوروں کا گوبر پڑا ہوتا ہے۔جہاں خاک اُڑتی ہے اور ہر جگہ مکھیاں بھنبھناتی ہیں۔نہ صاف پانی،نہ اچھا کھانا۔توبہ توبہ وہاں کوئی زندگی ہے۔“
پھر وہ شوہر سے مخاطب ہوئیں:”آپ سمجھائیں خان صاحب!اپنی بیٹی کو۔
“احمد خان بھی بڑے آزردہ لگ رہے تھے۔بولے:”بیگم!جانے دو۔یہ جب وہاں کی تکلیف دہ زندگی دیکھے گی تو ایک دن بھی نہ رہ پائے گی۔مجھے یقین ہے کہ جیسے صبح کا بھولا شام کو گھر آجاتا ہے اسی طرح سدرہ بھی شام کو واپس آجائے گی۔“
گاؤں جانے والی کچی،دھول اُڑاتی سڑک پر گاڑی رواں دواں تھی۔
سڑک کی دونوں جانب میرے بھرے کھیت تھے۔درمیان میں ایک نہر
بھی بہ رہی تھی جس کے کناروں پر شیشم کے درخت سر اُٹھائے آسمان کو تک رہے تھے۔نہر میں بچے نہا رہے تھے۔ایک جگہ ٹیوب ویل لگا تھا جہاں سے عورتیں گھڑے بھر رہیں تھیں۔ایک جگہ کسان زمین پر ہل چلا رہے تھے۔
دور دور تک سبز گھاس لہرا رہی تھی۔یہاں مویشی گھاس چر رہے تھے۔جب گاڑی وہاں سے گزری تو مویشی چرنا چھوڑ کر انھیں دیکھنے لگے۔یہ سب کچھ سدرہ کو دلچسپ تو لگ رہا تھا،لیکن ایسی زندگی میں اس کے لئے ذرہ بھر بھی کشش نہ تھی۔وہ سوچ رہی تھی کہ واقعی ابو صحیح کہہ رہے تھے۔
میں شام کو ہی واپس گھر آجاؤں گی۔ گاڑی دائیں جانب چھوٹی سڑک پر مڑی تو سدرہ کی نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر اسی گاؤں کا نام لکھا تھا جہاں کی تقرری کا خط سدرہ کو ملا تھا۔
وہ سیٹ پر اُچھل پڑی:”یہ کیا دادا جی!آپ مجھے کہاں لے آئے ہیں۔
مجھے آگے نہیں جانا۔گاڑی واپس موڑیں۔“سدرہ روہانسی ہو گئی:” آپ نے تو کہا تھا بابا نور دین کے پاس․․․․“
”یہی نور دین کا گاؤں ہے بیٹی!“
لیکن مجھے نہیں جانا۔“اس کی آنکھیں بھر آئیں:”اب میں سمجھی،آپ زبردستی یہاں کے ہسپتال میں مجھے ملازمت کرائیں گے۔

”دیکھو․․․․میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ تمہیں مجبور نہیں کروں گا۔میں اپنے وعدہ پر قائم ہوں۔اب تمہیں بھی اپنا وعدہ پورا کرنا ہو گا اور ایک دن یہاں رہنا ہو گا۔“سدرہ خاموش ہو گئی۔تھوڑی دور جا کر دادا نے اچانک قبرستان کے قریب گاڑی روک دی۔
”اُترو بیٹی!“دادا بولے۔
”یہ ہم کہاں آگئے ہیں دادا!“
یہ اس گاؤں کا قبرستان ہے بیٹی!“
عجیب بات ہے دادا جی!آپ مجھے بابا نور دین کے پاس لے جانے کے بجائے یہاں قبرستان لے آئے ہیں۔“
”ہاں بیٹی!پہلے یہاں آنا ضروری تھا۔
اُترو ہمیں یہاں فاتحہ پڑھنی ہے۔“
سدرہ گاڑی سے اُتر کر دادا جی کے ساتھ آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی۔دادا جی ایک کچی قبر کے پاس کھڑے ہو گئے اور فاتحہ پڑھنے لگے۔سدرہ نے بھی فاتحہ پڑھی۔
”وہ قبر کسی کی ہے دادا جی!“
”یہ ایک عورت کی قبر ہے جو اسی گاؤں میں رہتی تھی۔
بچی کی پیدائش پر اس کی حالت بگڑ گئی۔بچی تو بچ گئی،لیکن گاؤں میں کوئی لیڈی ڈاکٹر نہ تھی جو اس کا صحیح طرح علاج کرتی۔جب گھر کے مرد اسے چارپائی پر ڈال کر شہر کے ہسپتال لے جا رہے تھے تو وہ راستے میں دم توڑ گئی۔“
”اوہ․․․بہت دکھ ہوا۔
سدرہ کا دل بھر آیا اور وہ بچی؟“
”اسے شہرمیں رہنے والے رشتے دار کے ایک بے اولاد چچا نے گود لے لیا۔اسے بہت پیار سے پالا پوسا،پڑھایا اور ایک مقام تک پہنچایا۔“
”اچھا․․․․․تو کیا آپ اس بچی کو جانتے ہیں؟“سدرہ نے اشتیاق سے پوچھا۔
”ہاں․․․․․اس کا نام ہے لیڈی ڈاکٹر سدرہ بانو․․․․․بیٹا!یہ تمہاری ماں کی قبر ہے۔“سدرہ کو لگا جیسے ایک دھماکا سا ہوا ہے اور اس کے چاروں جانب اندھیرا چھا رہاہے۔اس کے قدموں کے نیچے زمین زلزلے سے لرز رہی ہے،اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔
وہ نیچے گر گئی اور اپنی باہیں ماں کی قبر پر پھیلا دیں۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔روتی رہی۔روتی رہی اور پھر دادا نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
”صبر کرو سدرہ بیٹی!آج تم اپنی زندگی کی بڑی حقیقت جان گئی ہو۔اسے اللہ کی رضا جان کر قبول کرلو۔
یہی حقیقت تمہیں زندگی کی بلندیوں کی طرف لے جائے گی۔چلو تمہارے ابا کے پاس چلتے ہیں۔“
دادا جی سدرہ کو حکیم نور دین کے گھر لے آئے۔وہ صحن میں درخت کے نیچے جڑی بوٹیاں صاف کر رہے تھے۔انہوں نے حیرت اور خوشی سے سدرہ کو دیکھا اور جلدی سے اُٹھ کر ان کے پاس آئے۔
”نور دین!دیکھو میں تمہاری بیٹی کو تمہارے پاس لے آیا ہوں۔“دادا بولے۔
”تمہاری بیٹی ڈاکٹر بن گئی ہے۔میں نے اس کے محکمے کے افسروں سے مل کراس کی تقرری اسی کے گاؤں کے ہسپتال میں کرادی ہے۔“
سدرہ اپنے باپ کے گلے لگ کر رونے لگی۔
نور دین کی آنکھوں سے بھی خوشی بھرے آنسو بہنے لگے۔اسے برسوں کی ریاضت اور صبر کا اجر مل گیا تھا۔برسوں کی جدائی رنگ لائی تھی۔دکھوں کا موسم بیت گیا تھا اور خوشیوں کی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں۔پڑوس والوں کو بھی پتا چل گیا تھا کہ شہر سے نور دین کے گھر مہمان آئے ہیں۔
انہوں نے ان کے لئے ناشتہ بھجوا دیا۔نور دین نے دونوں کو میٹھی لسی پلائی ۔مکھن ساگ اور مکئی کی روٹی ان کے آگے رکھی جو سدرہ کو بہت لزیذ لگ رہی تھی۔
نور دین بولا:”سدرہ بیٹی!گاؤں کا ماحول بہت صاف ستھرا ہے۔نہ گلیوں میں گندگی،نہ فضاؤں میں گاڑیوں کا دھواں ،نہ آلودہ پانی،نہ باسی پھل سبزیاں۔
یہاں نلکے میں صاف تازہ اور ٹھنڈا پانی آتا ہے۔کھانے کی ہر چیز تروتازہ ہے۔قدرتی ماحول کی ایک ایک خوب صورتی ہے۔“
کچھ دیر بعد ایک بوڑھی عورت آئی اور بولی:”میری بہو کی طبیعت بہت خراب ہے۔آپ تو جانتے ہیں ہمارے گاؤں کے ہسپتال میں کوئی لیڈی ڈاکٹر آتی ہی نہیں۔
بھولے سے آجائے تو ٹکتی نہیں۔واپس شہر چلی جاتی ہے۔ہم کل صبح اپنی بہو کو شہر کے ہسپتال لے جائیں گے۔دعا کریں اللہ اسے صحت دے۔“
نور دین نے فوراً دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دیے۔
جب وہ چلی گئی تو سدرہ بولی:”دادا جی !مجھے ابھی واپس جانا ہے۔

”بیٹی!اتنی جلدی کیا ہے۔تمہیں تو یہاں ایک دن رہنا ہے۔“
”دادا جی!مجھے واپس آنے کے لئے جانا ہے۔میں اپنا سامان اور میڈیکل بکس لینے جا رہی ہوں اور پھر آج ہی واپس آؤں گی۔اس عورت کی بہو میری پہلی مریضہ ہوگی۔

نور دین نے سدرہ کو گلے لگا لیا:”مجھے یقین تھا کہ میری بیٹی اس مقام تک ضرور پہنچے گی جسے دیکھ کر میرا سر فخر سے بلند ہو جائے گا۔“
”تم جانتے ہو سفر تو کوئی لمبا نہیں نور دین!ہم رات تک واپس آجائیں گے۔“دادا کی آواز بھی خوشی سے بھرا گئی۔
سدرہ اور دادا دوپہر کو گھر واپس آگئے تو سدرہ کی امی ابو ہنسنے لگے۔ ابو بولے:”میں نہ کہتا تھا صبح کا بھولا شام کو واپس گھر آجاتا ہے اور میری بیٹی تو شام سے بھی پہلے واپس آگئی ہے۔“
امی کہنے لگیں:”میری بیٹی اب کبھی گاؤں نہیں جائے گی،کیوں سدرہ؟“
سدرہ آگے بڑھی ۔
اس کی آنکھوں میں عزم،حوصلہ اور یقین کے جگنو جگمگا رہے تھے۔وہ بولی:”میں واپس جانے کے لئے آئی ہوں۔“
”میں اب گاؤں کی کسی ماں کو شہر کے راستے میں دم نہیں توڑنے دوں گی۔اللہ کی مدد کے ساتھ مجھے وہاں کی ماؤں کو زندگی دینا ہے۔

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!