بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا
سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا
سرمئی آنکھوں کے نیچے پھول سے کھلنے لگے
کہتے کہتے کچھ کسی کا سوچنا اچھا لگا
بات تو کچھ بھی نہیں تھیں لیکن اس کا ایک دم
ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا
چائے میں چینی ملانا اس گھڑی بھایا بہت
زیر لب وہ مسکراتا شکریہ اچھا لگا
دل میں کتنے عہد باندھے تھے بھلانے کے اسے
وہ ملا تو سب ارادے توڑنا اچھا لگا
بے ارادہ لمس کی وہ سنسنی پیاری لگی
کم توجہ آنکھ کا وہ دیکھنا اچھا لگا
نیم شب کی خاموشی میں بھیگتی سڑکوں پہ کل
تیری یادوں کے جلو میں گھومنا اچھا لگا
اس عدوئے جاں کو امجدؔ میں برا کیسے کہوں
جب بھی آیا سامنے وہ بے وفا اچھا لگا
Poet: امجد اسلام امجد
اب کے سفر ہی اور تھا‘ اور ہی کچھ سراب تھے
دشتِ طلب میں جا بجا‘ سنگِ گرانِ خواب تھے
حشر کے دن کا غلغلہ‘ شہر کے بام و دَر میں تھا
نگلے ہوئے سوال تھے‘ اُگلے ہوئے جواب تھے
اب کے برس بہار کی‘ رُت بھی تھی اِنتظار کی
لہجوں میں سیلِ درد تھا‘ آنکھوں میں اضطراب تھے
خوابوں کے چاند ڈھل گئے تاروں کے دم نکل گئے
پھولوں کے ہاتھ جل گئے‘ کیسے یہ آفتاب تھے
سیل کی رہگزر ہوئے‘ ہونٹ نہ پھر بھی تر ہوئے
کیسی عجیب پیاس تھی‘ کیسے عجب سحاب تھے
عمر اسی تضاد میں‘ رزقِ غبار ہو گئی
جسم تھا اور عذاب تھے‘ آنکھیں تھیں اور خواب تھے
صبح ہوئی تو شہر کے‘ شور میں یوں بِکھر گئے
جیسے وہ آدمی نہ تھے‘ نقش و نگارِ آب تھے
آنکھوں میں خون بھر گئے‘ رستوں میں ہی بِکھر گئے
آنے سے قبل مر گئے‘ ایسے بھی انقلاب تھے
ساتھ وہ ایک رات کا‘ چشم زدن کی بات تھا
پھر نہ وہ التفات تھا‘ پھر نہ وہ اجتناب تھے
ربط کی بات اور ہے‘ ضبط کی بات اور ہے
یہ جو فشارِ خاک ہے‘ اِس میں کبھی گلاب تھے
اَبر برس کے کھُل گئے‘ جی کے غبار دُھل گئے
آنکھ میںرُونما ہوئے‘ شہر جو زیرِ آب تھے
درد کی رہگزار میں‘ چلتے تو کِس خمار میں
چشم کہ بے نگاہ تھی‘ ہونٹ کہ بے خطاب تھے
Poet: Amjad Islam Amjad
Congratulations, your post has been automatically curated by @ctime
Follow @ctime for more updates and use #iduvts (I Do Not Use Vote Trading Services) tag for higher upvotes
Warning: DO NOT delegate to @ctime or any other accounts (possible scam), My upvotes are always FREE!