The root of our problems and their solutions

in blurt-176888 •  2 days ago 

The root of our problems and their solutions

IMG-20230731-WA0106.jpg

There is a need for the young generation to think that the problems we have today have always existed or have they been created. Somewhere in human history such problems have come before or not. If there was a problem, what solution did they find for it and to what extent were they successful? If this has happened more than once, where do we find the best solution and whether the solution that solved the problems of the past is capable of solving the problems of today. If we talk about how to solve our problems, the best way to do it is to find out how these problems arose, and then we can go somewhere and find solutions to them. . The best way to solve this is to study human history and see that these conditions have arisen somewhere before. If we study human history, we will see many times that these problems have been occurring in every era of humanity. Now, if attention is paid to its solution, it is found that in every period these problems were solved and they have been successful in it to a great extent. If we talk about how they solved it, we see that there is a common value in the problems of every era, but the nature of these problems has been different in every era. We find in history that these problems started to arise when a group of human beings began to dominate other human beings. It goes away and this evil force is supported by the system, it makes us know that our problems are not just the product of our individual lives, but due to the lack of a proper government system. Therefore, if we want to find a solution to our problems, then for this we have to correct our individual lives as well as the government system because from where a problem arises, its solution also comes from there. Just need to think.

Screenshot_2024-04-06-21-08-53-42_e2d5b3f32b79de1d45acd1fad96fbb0f.jpg

Now the question arises as to how we can fix our government system. Now it is our duty to think about it, just as we are serious about solving our domestic problems, but more than that, we need to take serious work to solve our country's problems. Because all our problems will not be solved until our government system is correct. The meaning of the blessed statement of our Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) is as follows "Love of country is part of faith*** ***Now, if we consider our government system, its name is Islamic system, but for seventy years, nothing has been done according to Islam. The reason is that our government system is not Islamic, but its spirit and practice are capitalism. of the system. Only the name is Islamic, there is nothing to prove that it is an Islamic system. If we want to have an Islamic system of government in our country, which was founded in the form of the state of Madinah, then we must first study about the state of Madinah, the people who founded it and What was the role of his colleagues? Has it ever happened that the government system has changed anywhere in the world just by changing the leader? It is not so. Today we need to study the prevailing economic system in the world. Then there should be the ability to implement a better system than all these systems. Such a system will not exist until we create a party which is free-thinking and whose every worker has the capacity to understand the methods and tactics of the imperialist powers as a world.

IMG20240220141315.jpg

IMG20240220141319.jpg

نوجوان نسل کےلیے سوچنے کی ضرورت ہے کہ آج جو ہمارے مسائل ہیں کیا یہ ہمیشہ سے ہیں یا ان کو پیدا کیا گیا ہے. انسانی تاریخ میں کہیں اس سے قبل بھی ایسے مسائل آئے تھے یا نہیں. اگر کہیں در پیش آئے تو انہوں نے اس کےلیے کیا حل نکالا اور کس حد تک کامیاب ہوئے. اگر ایک سے زائد مرتبہ ایسا ہوا ہے تو سب سے بہترین حل ہمیں کہاں ملتا ہے اور آیا کہ وہ حل جس نے ماضی کے ان مسائل کو حل کیا تھا وہ آج کے دور کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے. اگر ہم بات کریں کہ ہمارے مسائل کا کیا حل نکلے گا تو اس کا بہترین طریقہ کار یہی ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ یہ مسائل کیسے پیدا ہوئے ہیں تو پھر کہیں جا کر ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ ان کا حل تلاش کر سکیں۔ اس کے حل کا بہترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ یہ حالات پہلے کہیں پیدا ہوئے تھے. اگر ہم انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں بارہا دیکھنے کو ملے گا کہ یہ مسائل انسانیت کے ہر دور میں آتے رہے ہیں. اب اگر اس کے حل کی طرف توجہ دی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ہر دور میں ان مسائل کا حل نکالا گیا اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں. اگر ہم بات کریں کہ انہوں نے اس کا کیا حل نکالا تھا تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دور کے مسائل میں قدرمشترک پائی جاتی ہے تاہم ہردور میں ان مسائل کی نوعیت مختلف رہی ہے۔ ہمیں تاریخ میں ملتا ہے کہ یہ مسائل اس وقت پیدا ہونا شروع ہوئے جب انسانوں کے ایک گروہ نے دوسرے انسانوں پر زبر دستی قابض ہونا شروع کیا تو اس کے نتیجے میں مظلوموں نے جب بدلہ لینا چاہا تو یہ ظالم طبقہ ان کا دگنا نقصان کرنے پر تل جاتاہے اور اس شرپسند قوت کو نظام سے مدد ملتی ہےاس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مسائل محض ہماری انفرادی زندگی کی پیداوار نہیں بلکہ مناسب حکومتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہیں. اس لیےاگر ہم اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اپنی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ حکومتی نظام کو بھی درست کرنا ہو گا کیونکہ ایک مسئلہ جہاں سے پیدا ہوتا ہے اس کا حل بھی وہیں سے ہی نکلتا ہے ۔ بس زرا سوچنے کی ضرورت ہے. اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنا حکومتی نظام کیسے درست کریں. اب ہمارا فرض ہےاس کے بارے میں سوچنا ،جیسے ہم اپنے گھریلو مسائل کے حل کےلیے سنجیدہ ہوتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ ہمیں اپنے ملکی مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی سے کام لینے کی ضرورت ہے. کیونکہ ہمارے تمام مسائل اس وقت تک حل نہ ہو پائیں گے جب تک ہمارا حکومتی نظام درست نہ ہو گا. ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ " وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے

اب اگر ہم اپنے حکومتی نظام پر غور کریں تو اس کا نام تو اسلامی نظام ہے لیکن ستر سالوں سے کوئی بھی کام اسلام کے مطابق نہیں ہوا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا حکومتی نظام اسلامی ہے ہی نہیں اس کی روح اور عمل سرمایہ داری نظام کی ہے۔ صرف نام اسلامی رکھا ہوا ہے ایسا کام کوئی بھی نہیں جس سے ثابت ہو کہ یہ اسلامی نظام ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اسلامی نظام حکومت ہو جس کی بنیاد ریاست مدینہ کی شکل میں رکھی گئی تھی تو ہم کو سب سے پہلے ریاست مدینہ کے بارے میں مطالعہ کرنا ہو گا کہ اس کی بنیاد جن لوگوں نے رکھی تھی ان کا اور ان کے ساتھیوں کا کردار کیسا تھا. کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ محض لیڈر کے بدلنے سے کہیں پر دنیا میں حکومتی نظام تبدیل ہوا ہو ایسا تو نہیں ہے۔ آج ہمیں دنیا میں رائج معاشی نظام کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے. پھر ان سب نظاموں سے بہتر نظام نافذ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے. ایسا نظام اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک ہم ایک ایسی جماعت نہ بنائیں جو ایک آزاد سوچ کی حامل ہو اور اس کے ہر کارکن میں اتنی صلاحیت ہو کہ وہ دنیا کے طور طریقے اور سامراجی طاقتوں کی چالوں کو سمجھتا ہو۔
Screenshot_2024-04-06-21-09-37-25_e2d5b3f32b79de1d45acd1fad96fbb0f.jpg

IMG-20230731-WA0098.jpg

Solving human problems

#Makramy! The United Nations has set new goals and priorities for the next fifteen years. These include improving the economic and social condition of people, education, health, environment, agricultural and industrial development and working for the elimination of discrimination based on industry. These goals lay down a plan of action to deliver the benefits and fruits of human development. Every human being has the right to be protected, to have access to health and education, and to protect life, property, honor and dignity. The basis of all these goals of development is justice and fairness, but it does not show any clear form in the global scenario and in the country context. At the global level, the principles of justice in Kashmir, Palestine, Syria, Burma, Iraq, and Afghanistan are being violated by the big powers for their own interests. Even in my dear country, justice and its achievement is difficult if not impossible. A certain section succeeds in getting justice. These goals set by the United Nations are feasible, but the human being as a whole must return to this universal message which is based on divine teachings to achieve overall peace and justice. The system of Islam gives a clear and workable solution to the problems in which a person's individual and collective role is determined. It is not based on any interest or bias, it is a permanent system given by the real creator, by following which humanity can progress in this world and can find prosperity and salvation in the last life.

مکرمی! اقوام متحدہ نے مستقبل کے آئندہ پندرہ سالوں کیلئے نئے اہداف اور ترجیحات طے کئے ہیں۔ ان میں افراد کی معاشی و سماجی حالت میں بہتری‘ تعلیم‘صحت‘ ماحولیات‘ زرعی و صنعتی ترقی اور صنعتی بنیاد پر تفریق کے خاتمے کیلئے کام کرنا شامل ہے۔ انسان کو ترقی کے فوائد و ثمرات پہنچانے کیلئے یہ اہداف ایک لائحہ عمل متین کرتے ہیں۔ ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اسے تحفظ ملے‘ صحت و تعلیم تک رسائی ہو اور جان‘ مال اور عزت و آبرو محفوظ ہو۔ ترقی کے ان تمام اہداف کی بنیاد عدل و انصاف ہے‘ لیکن عالمی منظرنامے اور ملکی تناظر میں اس کی کوئی واضح صورت دکھائی نہیں دیتی۔ عالمی سطح پر کشمیر‘ فلسطین‘ شام‘ برما‘ عراق‘ افغانستان میں انصاف کے اصولوں کو بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا رہی ہیں۔ وطن عزیزمیں بھی انصاف اور اسکا حصول ناممکن حصول نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ایک مخصوص طبقہ انصاف کے حصول میں کامیاب ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے طے کردہ یہ اہداف قابل عمل ہیں‘ لیکن انسان کو بحیثیت مجموعی امن اور انصاف کے حصول کیلئے اس آفاقی پیغام کی طرف مراجعت کرنا ہوگی جو خدائی تعلیمات پر مبنی ہے۔ اسلام کا نظام انسان کو ان مسائل کے حل کیلئے آج بھی واضح اور قابل عمل حل دیتا ہے جس میں ایک انسان کے افرادی اور اجتماعی کردار کا تعین کیا گیا ہے۔ اسکی بنیاد کسی مفاد اور تعصب پر نہیں یہ اس خالق حقیقی کا دیا ہوا دائمی نظام ہے جس کی پیروی سے انسانیت دنیا میں بھی ترقی کا سفر طے کر سکتی ہے اور آخری زندگی میں بھی فوز و فلاح اور نجات پا سکتی ہے

The solution to all the problems faced by humanity is in the "recipe of alchemy", we are the ones who are oblivious

IMG-20230731-WA0095.jpg

IMG-20230731-WA0066.jpg

At this time, humanity is passing through a period where apparently the development of science and technology has created many conveniences and comforts in human life, but despite this, man is longing for peace and tranquility. Individuals and societies are suffering from moral decay. Materialism is at its peak. Families are falling apart. Democracy devoid of divine guidance, increasing corruption, increasing poverty and unemployment, lack of justice, global unrest, environmental crisis, sectarian and group hatred, global colonialism's occupation of wealth and life resources, increasing health problems, lack of Equality, regional, ethnic and religious prejudices, different types of terrorism, excessive use of natural resources, water scarcity, consumerism, exploitation of women, various regional, national and global conflicts, interest-based economy... Hundreds of such problems have gripped the world of humanity. Individuals, human groups and institutions are constantly trying to solve these problems, but as the example of "disease increases like medicine", these problems are increasing day by day. Sometimes a problem seems to be under control, then another problem makes the world anxious. Governmental and non-governmental bodies and organizations of all countries, as well as various organizations associated with the United Nations, have their own efforts and Sustainable Development Goals. There are efforts to achieve them, but sufficient results are not achieved. The main reason for this is the morals of human beings without divine guidance, their beliefs and ideas are matters of individual and collective life. There is a lack of global brotherhood and brotherhood based on the unity of the children of Adam. The children of Adam are in conflict with each other. Allah, the Most High, has brought down man on this planet and has provided him with abundant resources for his life. But the human groups fell prey to the evil of Satan from the first day and filled this earth of Allah with mischief. It is said in the Holy Quran:

Mischief has spread throughout the world because of the (sins) that the hands of the people have earned so that (Allah) may make them taste some of the (bad) deeds that they have done, so that they may turn back. Al-Rum: 41) In other words, human beings have filled this earth with mischief and they have also shed the blood of their own brothers (humankind) by falling victim to mischief and mischief among themselves. The beginning of this bloody history is from the fight between the two sons of Adam and Cain on the first day and the killing of Abel to the wars between different kingdoms in the recent past, wars for conquest of the country, fighting for possession of people and wealth. World Wars, Rome-Iran Wars, World War I and World War II, Wars in Iran, Iraq, Syria, Bombing of Japan's Hiroshima and Nagasaki, and the large-scale loss of human lives in various terrorist acts by global colonial powers. In the name of ending waste and terrorism, the massacre of innocent children in Palestine and the recent war in Ukraine, as well as the endless series of oppression and bloodshed by the majorities of different countries on their minorities, continues till today. Being seduced by the self and Satan, humans and human groups have been suffering from mutual chaos. Satan's tricks, the drawing of borders on the earth, the division of humanity by declaring them permanent, then making constant wars under the pretext of protecting the borders or expanding or increasing the borders, preparing the forces, making weapons and In this, the indiscriminate use of blessings, resources and wealth given by Allah in efforts to surpass each other is common. Humans have made such weapons of general destruction that at the same time doomsday destruction, terrible destruction, and The end of all humanity is possible. Allah, the Exalted, ordered Adam to come down to earth and arranged for the guidance of humans from the very first day. Send your prophets and messengers. These messengers informed people about the evils of Satan and the evils of the self. Taught them monotheism, prophethood, hereafter, destiny, morals and manners and respect for each other's life, property, honor and dignity. Purified their souls. Gave laws and filled the individual and collective lives of human beings with peace and security. They came out of the slavery of Satan, Taghut and the Self according to the divine instructions and the teachings of the Prophets and Messengers with peace and security. The way of living one's individual and collective life by being a servant of the partner and obeying him is called "Islam".

اس وقت عالم انسانیت ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جہاں بظاہر تو سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی زندگی میں کئی آسانیاں اور آسائشیں پیدا کردی ہیں اس کے باوجود انسان سکون و چین کو ترس رہا ہے۔
افراد اور معاشرے اخلاقی زوال کا شکار ہیں۔ مادہ پرستی اپنے عروج پر ہے۔ خاندان بکھر رہے ہیں۔ خدائی رہنمائی سے عاری جمہوریت، بڑھتا کرپشن، بڑھتی غربت و بے روزگاری، عدل و انصاف کا فقدان، عالمی بد امنی، ماحولیاتی بحران، فرقہ وارانہ و گروہی منافرت، دولت و وسائل حیات پر عالمی استعمار کا قبضہ، صحت کے بڑھتے مسائل، عدم مساوات، علاقائی، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر تعصبات، دہشت گردی کی مختلف قسمیں، قدرتی وسائل کا بے تحاشا استعمال، قلت آب، صارفیت پسندی، خواتین کا استحصال، مختلف علاقائی، ملکی اور عالمی سطح کے تنازعات، سود پر مبنی معیشت… اس طرح کے سیکڑوں مسائل نے عالم انسانیت کو جکڑ رکھا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لئے افراد، انسانی گروہ اور ادارے مستقل کوشاں ہیںلیکن ” مرض بڑھتا ہی گیا جو ں جوں دوا کی“کے مصداق ان مسائل میں روزافزوں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
کبھی کوئی مسئلہ قابو میں آتا دکھائی دیتاہے تو دوسرا مسئلہ عالم انسانیت کو بے چین کردیتا ہے۔ تمام ممالک کے حکومتی اور غیر حکومتی امحکموں اور تنظیموں نیز اقوام متحدہ سے وابستہ مختلف اداروں کی اپنی کوششیں ہیں اور Sustainable Development Goalsہیں۔ ان کے حصول کی کوششیں ہیں لیکن خاطر خواہ نتائج نہیں حاصل ہوپاتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ خدائی رہنمائی سے عاری انسانوں کے اخلاق، ان کے عقائد و نظریات انفرادی و اجتماعی زندگی کے معاملات ہیں۔ آپس میں وحدت بنی آدمؑ کی بنیاد پر عالمی اخوت و بھائی چارہ کا فقدان ہے۔اولاد آدمؑ آپس میں باہم دست و گریباں ہے۔ اللہ رب کریم نے انسان کو اس کرہ ارض پر اتارا اور یہاں اس کی زیست کا بھرپور سامان مہیا کررکھا ہے۔ لیکن انسانی گروہوں نے روز اول سے شیطان کے شر کا شکار ہوکر اللہ کی اس زمین کو فساد سے بھر دیا۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا:

بحر و بر میں فساد ان (گناہوں) کے باعث پھیل گیا ہے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کما رکھے ہیں تاکہ (اﷲ) انہیں بعض (برے) اعمال کا مزہ چکھا دے جو انہوں نے کئے ہیں، تاکہ وہ باز آجائیں۔‘‘ (الروم:۴۱)
یعنی انسانوں نے اس زمین کو بھی فساد سے بھر دیا اور آپس میں بھی فتنہ و فساد کا شکار ہوکر اپنے ہی بھائیوں (نوع انسانی) کا خون بہایا۔ اس خونیں تاریخ کی شروعات روز اول اولاد آدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کے درمیان لڑائی اور ہابیل کے قتل ہونے سے لے کر ماضی قریب میں مختلف سلطنتوں کے درمیان جنگیں، ملک گیری کے لئے جنگیں، انسانوں اور دولت پر قبضہ کے لئے لڑی جانے والی جنگیں، روم و ایران کی جنگیں، پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ، ایران، عراق، شام کی جنگیں، جاپان کے ہیروشیما اور ناگاساکی پر بمباری، عالمی استعماری قوتوں کی جانب سے مختلف دہشت گردانہ کارروائیوں میں انسانی جانوں کا بڑے پیمانے پر ضیاع اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر انسانی قتل عام اور فلسطین میں معصوم بچوں کا قتل عام اور حالیہ یوکرین جنگ تک نیز اسی طرح مختلف ملکوں کی اکثریتوں کا اپنی اقلیتوں پر ظلم اور قتل و خون کا لامتناہی سلسلہ آج تک جاری ہے۔
نفس اور شیطان کے بہکاوے میں آکر انسان اور انسانی گروہ آپسی انتشار کا شکار رہے ہیں۔ شیطان کی ریشہ دوانیاں، زمین پر سرحدوں کا کھینچا جانا، انھیں مستقل قرار دے کر عالم انسانیت کی تقسیم، پھر سرحدوں کی حفاظت کے بہانے یا سرحدوں میں وسعت یا اضافے کے لئے مستقل جنگوں کا کیا جانا، افواج کا تیار کرنا، ہتھیار بنانے اور اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوششوں پر اللہ کی عطا کردہ نعمتوں و وسائل اور دولت کا بے دریغ استعمال عام ہے۔انسانوں نے عام تباہی کے ایسے ایسے ہتھیار بنالئے ہیں کہ ایک ہی آن میں قیامت خیز تباہی، خوفناک بربادی، اور ساری انسانیت کا خاتمہ ممکن ہے۔
اللہ رب العزت نے آدمؑ کو زمین پر اترنے کا حکم دینے کے ساتھ روز اول ہی سے انسانوں کی ہدایت کا انتظام فرمایا۔ اپنے انبیاء ؑ اور رسول بھیجے۔ ان رسولوں نے انسانوں کو شیطان کے شرور اور نفس کے شرور سے آگاہ کیا۔ انہیں توحید، رسالت، آخرت، تقدیر، اخلاق و آداب اور ایک دوسرے کی جان، مال، عزت، آبرو کے احترام کی تعلیم دی۔ ان کے نفوس کا تزکیہ کیا۔شریعتیں دیںاور انسانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو امن اور سلامتی سے بھر دیا۔شیطان، طاغوت اور نفس کی بندگی سے نکل کر اِلٰہی ہدایات اور انبیاء و رسولوں کی تعلیمات کے مطابق امن و سلامتی کے ساتھ اللہ وحدہ لا شریک کا بندہ بن کر اسی کی اطاعت و فرماں برداری کرتے ہوئے اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کے طریقے ہی کو ”اسلام“ کہا جاتا ہے۔

The basic teachings of all prophets and messengers (despite the difference in language and expression) are common. The effects of these teachings in different religions are still present today. Whenever peace and order has been created in the world, it has been created as a result of following these same divine instructions and the teachings of the messengers. And when people followed the divine instructions. And they forgot the teachings of the messengers, stopped following them or made distortions in them, then the world was filled with sedition, corruption and unrest.
The most complex problems facing humanity are not new. Basically, some of these problems are the same ones that were faced by the nations of different prophets and messengers. These prophets, especially the Prophet of the end of the world, the benefactor of humanity, the mercy of the world, Muhammad, the Messenger of Allah, peace and blessings of God be upon him, brought about the revolution in the individual and collective life of the people of the society, not only from the perverted, ignorant, sedition and corruption, oppression and exploitation evils of the Arabs. created that human history is unable to provide an example of it. According to Altaf Hussain Hali:
Descended from Hira and came to sleep
And brought a prescription alchemy
What is the recipe of alchemy brought by Khatam al-Marsalin and Rahmat llal Alamin?
Alchemy is the word of Allah, the mercy of Allah, the cure for the diseases of the hearts, the guarantor of revolution in individual and collective life, the complete code of life for all human beings, the solution of global unrest and problems, the divine instructions revealed to the previous prophets. , is the book confirming the scriptures, Al-Kitab, Al-Qur'an and Al-Furqan. As a result of its implementation, the system of mercy established by the benefactor of humanity Muhammad, may God bless him and grant him peace, and his companions, may Allah bless him and grant him peace, has brought peace, tranquility, justice, and global brotherhood in human lives. Human history is unable to provide an example of the growth that has been achieved. Even today, if the world of humanity follows the Holy Qur'an and the teachings of the Prophets, this world can become a cradle of peace and tranquility even today.
The revelation of the Holy Quran began in the same month of Ramadan:
"The month of Ramadan (is) in which the Qur'an was revealed, a guidance for the people and (in which) there are clear signs to guide and discriminate (between right and wrong)."
(Al-Baqarah: 185)

At the beginning of Surah Al-Baqarah it was said:
"Alf, Laam, Meem. (This is) the Great Book in which there is no room for doubt, (It is) guidance for the pious, who believe in the unseen and establish prayer (with all rights) and what we They spend from what God has given them.” (Al-Baqarah: 1.3)
That is, this book is a guide for the pious.
Now when it was revealed in this blessed month, and piety was made a condition for guidance, then Allah, the Exalted, made the best provision for instilling piety for the believers:
O believers! Fasting has been enjoined upon you as it was enjoined upon the people before you, so that you may become pious.
(Al-Baqarah: 183)
In this blessed month, a special arrangement is made for the stay of Salat. Believers stay at night. This auspicious month is called "Maah Mawasat". In this month, a special arrangement is made to pay alms, charity and zakat. It is as if the believers become part of the system of Lordship of their Lord and start to consider themselves responsible for the fulfillment of the needs of humans and consider their wealth as the wealth of Allah, the Most High. Fasting, Ramadan, Quran and real Islam towards wealth According to the concept, they are trained throughout the month.

IMG-20230731-WA0065.jpg

تمام انبیاء اور رسولوں کی بنیادی تعلیمات (زبان و بیان کے فرق کے باوجود) مشترک ہی ہیں۔ مختلف ادیان(مذاہب) میں ان تعلیمات کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔دنیا میں جب بھی امن و امان پیدا ہوا ہے وہ ان ہی خدائی ہدایات و رسولوں کی تعلیمات پر عمل کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔اور جب انسانو ں نے خدائی ہدایات اور رسولوں کی تعلیمات کو بھلا دیا اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا یا اس میں تحریفات کرڈالیں، تب دنیا فتہ، فساد و بدامنی سے بھر گئی۔
انسانیت کو درپیش پیچیدہ ترین مسائل نئے نہیں ہیں۔بنیادی طور پر ان مسائل میں سے چند وہی ہیں جو مختلف انبیاء و رسولوں کی قوموں کو درپیش تھے۔ ان انبیاء نے اور بالخصوص نبی آخر الزماں، محسن انسانیت، رحمۃ للعالمین، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عرب کے بگڑے، جاہل، فتنہ و فساد، ظلم استحصال برائیوں سے پر معاشرے کے افراد کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں وہ انقلاب پیدا کر دیا کہ تاریخ انسانی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ الطاف حسین حالی کے مطابق:
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
خاتم المرسلین و رحمۃ للعالمین کا لایا ہواوہ نسخۂ کیمیا کیا ہے؟
وہ نسخۂ کیمیا اللہ کا کلام، اللہ کی رحمت، دلوں کے امراض کے لئے شفاء، انفرادی و اجتماعی زندگی میں انقلاب کا ضامن، تمام انسانوں کے لئے مکمل ضابطۂ حیات، عالمی بد امنی اور مسائل کا حل، گزشتہ انبیاء ؑ پر نازل الٰہی ہدایات ، صحیفوں کی تصدیق کرنے والی کتاب، الکتاب، القرآن اور الفرقان ہے۔ اس پر عمل کے نتیجے میں اس روئے زمین پر محسن انسانیت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جونظام رحمت برپا کیا اور اس سے انسانی زندگیوں میں امن، سکون، عدل و انصاف اور عالمی بھائی چارہ کو جو فروغ نصیب ہوا، تاریخ انسانی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔آج بھی اگرعالم انسانیت قرآن مجید اور تعلیماتِ انبیاءؑ پر عمل پیرا ہو تو یہ دنیا آج بھی امن و سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے۔
قرآن مجید کے نزول کا آغاز اسی ماہ رمضان میں ہوا:
”رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں۔“
(البقرہ:۱۸۵)

سورۃالبقرہ کے آغاز میں فرمایا گیا:
” الف ، لام ، میم۔(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیز گاروں کیلئے ہدایت ہےجو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ) قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔“ (البقرہ:۱۔۳)
یعنی یہ کتاب متقین کے لئے ہدایت ہے۔
اب جب اس ماہ مبارک میں اس کا نزول ہوا، اور اس سے ہدایت کے لئے تقویٰ شرط لگادی گئی تو مومنین کے لئے اللہ رب العزت نے تقویٰ پیدا کرنے کا بہترین انتظام فرمایا:
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘
(البقرہ: ۱۸۳)
اس ماہ مبارک میں صلوٰۃ کے قیام کا خصوصی اہتمام کرایا جاتا ہے۔مومنین راتوں کو قیام کرتے ہیں۔ اس ماہ مبارک کو ”ماہ مواسات“ کہا گیا ہے۔ اس ماہ میں انفاق، صدقہ اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا خصوصی اہتمام کیاجاتا ہے۔ گویا مومنین اپنے رب کے نظام ربوبیت کا حصہ بن کر انسانوں کی ضروریات کی تکمیل کے تئیں اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھنے لگتے ہیں اوراپنے پاس کے مال کو اللہ رب العزت کا مال سمجھتے ہیں۔روزہ،رمضان، قرآن اور مال کے تئیں حقیقی اسلامی تصور کے مطابق مہینہ بھر ان کی تربیت ہوتی رہتی ہے۔

So we should do our personal training in a planned manner through this month of Mubarak. Spend this month with individual review and accountability. Make piety, abstinence, establishing salat, collective discipline of paying zakat, charity and spending your motto and make full use of this word of Allah. Understand it and read it, bring all the servants to God regardless of religion and nationality, and play your role in ending evil, injustice, cruelty, hatred, destruction and destruction by bringing the world of humanity into one unity. Let humanity be blessed with this system of mercy where peace, peace, progress, love, mutuality, sacrifice, sacrifice, compassion, equality, respect for humanity, unity of humanity, individual, collective and global life will be built on these moral values. And the lives were declared worthy of welfare in this world and paradise in the hereafter.
IMG-20230731-WA0048.jpg
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اس ماہ مبارک کے ذریعہ منصوبہ بند طریقے سے اپنی ذاتی تربیت کریں۔ انفرادی جائزہ و احتساب کے ساتھ اس ماہ کو گزاریں۔تقویٰ، پرہیز گاری، صلوٰۃ کا قیام، زکوٰۃ کی ادائیگی کا اجتماعی نظم، صدقہ اور انفاق کو اپنا شعار بنائیں اور اس کلام اللہ سے بھرپور استفادہ کریں۔ اسے سمجھ کر پڑھیں، بلا تفریق مذہب و ملت تمام بندگان خداتک پہنچائیں، اور عالم انسانیت کو ایک وحدت میں پرو کر بد امنی، ناانصافی، ظلم، نفرت، تباہی و بربادی کا خاتمہ کرنے میں اپنا رول ادا کریں۔ انسانیت کو اس نظام رحمت سے بہرہ ور کرائیں جہاں امن، سکون، ترقی، پیار و محبت،باہمی الفت، ایثار، قربانی، ہمدردی، مساوات، تکریم انسانیت، وحدت انسانیت، ان اخلاقی اقدار پر انفرادی، اجتماعی اور عالمی زندگی استوار ہوجائے۔ اور زندگیاں دنیا کی فلاح اور آخرت میں جنت کی مستحق قرار پائیں۔

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE BLURT!