Betterlife @khang572 The diary Game
Assalamualaikum to all my brothers. May Allah bless you with honor and long life.
Friends, as I told you that today we will go to Nimal University. I slept late last night, so I woke up late this morning. I was sleeping and my cousin's call came and my eyes opened on my cousin's call. He said to me, "Get ready quickly, we have to go to Nimal University. You are so late today, why haven't you come yet?" I saw that it was eleven o'clock at that time. I had a quick bath or breakfast after shower and then got ready. I reached my cousin's place exactly at twelve o'clock. There, my cousin and all his guests started saying to me, "Brother, what happened? You are so late today." So I apologized to all of them and told them that brother I slept very late in the night that's why I got up late in the morning. He said, "Okay, let's go, there's nothing to worry about. Now let's prepare for Nimal University." It was half past twelve when we left the house. Now it was time to eat, so I said to my cousin, "Brother, let's go after having lunch." My cousin said, "Today we have lunch at Royal Hotel." So I said, let's go, then let's go, why the delay?
We reached the Royal Hotel at one o'clock. We have placed an order for mutton embroidery. He said that it will take at least an hour to prepare Bhai Kadhai. So we said, brother, it's okay, we are sitting here. We sat there and talked, one of our guests asked what can be hunted in Bhai Mianwali. Are there chickens and deer hunting here?
So I told that bro hunting of grouse is done in abundance here but it is not the season of grouse and as for deer they are only present in the hills of the country of Kala Bagh but there without their will. Hunting is also not allowed, so we cannot hunt deer. Meanwhile, the embroidery was ready. When we started eating kadhai, we did not like the taste of studies
There was a strange taste in the kadhai, it felt as if the kadhai had been cooked in dirty ghee. But still we were very hungry so we ate. After that we left the hotel towards Nimal University. On the way, the beautiful villages of Sohrabwala and Musa Khel remained the focus of our attention.
All our guests also enjoyed this trip a lot and they told us that Allah has enriched your city Mianwali with natural beauty. Twenty minutes after crossing Musa Khel, we entered Nimal University, tearing through the misty hills. Everyone is prohibited from entering Nimal University, so we called one of our friends who is a student of Nimal University. He came out of the university and greeted us at the entrance. He said to the security guard of the university, "Uncle, this is our guest, please allow him to enter." So the security guard said to us, son, hand over your ID cards to me, after that you can enter the university.
We all handed over our ID cards to the security guard and entered the university. Nimal University, which looks like a small university from the past, when we entered, it was found that it is spread over miles. Our friend first took us to the computer science department. Because its own department is also computer science. We saw that modern computers and laptops were installed there and different students were busy doing different types of coding. There we also met some teachers of the computer department who had come from foreign countries, including teachers from England, Ireland and Switzerland. We enjoyed meeting them very much. After that we visited the biological department and various other departments. After that we asked permission from my friend from the university and left the university. After that, I called another friend of mine, whose name is Ishaq. Ishaq told us that you guys should have dinner with me. We reached Ishaq and had dinner there. After that we left for home. I have also made many pictures which I share with you guys. thank you
السلام علیکم تمام بھائیوں کو میری طرف سے سلام اللہ آپکو عزت اور صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے ۔
دوستو جیسے میں نے آپ کو بتایا تھا کہ آج ہم نمل یونیورسٹی جائیں گے ۔ میں کل رات کو دیر سے سویا تھا اس لیے آج صبح میری آنکھ دیر سے کھلی ۔ میں سو رہا تھا اور میرے کزن کی کال آئی تو اپنے کزن کی کال پر میری آنکھ کھلی ۔ اس نے مجھے کہا کہ جلدی سے تیار ہو جاؤ ہم نے نمل یونیورسٹی جانا ہے تم آج اتنے لیٹ ہو گئے ہو ابھی تک آئے کیوں نہیں ۔ میں نے دیکھا تو اس وقت دن کے گیارہ بج رہے تھے ۔ میں جلدی سے نہا یا نہانے کے بعد ناشتہ کیا اور پھر تیار ہوگیا ۔ میں ٹھیک بارہ بجے اپنے کزن کی بیٹھک پر پہنچ گیا ۔ وہاں میرا کزن اور اس کے سب مہمان مجھے کہنے لگے کہ بھائی کیا ہوگیا آپ کو آج اتنے لیٹ ہو گئے ہو ۔ تو میں نے ان سب سے معذرت کی اور ان کو بتایا کہ بھائی میں رات کو بہت دیر سے سویا ہوں اس لئے مجھے صبح اٹھنے میں دیر ہوگئی ۔ انہوں نے کہا کہ اچھا چلو ٹھیک ہے کوئی بات نہیں چلیں اب تیاری کرتے ہیں نمل یونیورسٹی کی جانب ۔ گھر سے نکلتے نکلتے ہمارے ساڑھے بارہ بج گئے ۔ اب کھانے کا وقت ہو چکا تھا تو میں نے اپنے کزن سے کہا کہ بھائی دوپہر کا کھانا کھا کے اس کے بعد پھر چلتے ہیں تم میرے کزن نے کہا کہ آج ہم نے دوپہر کا کھانا رائل ہوٹل میں کھانا ہے ۔ تو میں نے کہا کہ چلو ٹھیک ہے پھر چلتے ہیں دیر کس بات کی ۔ ہم ایک بجے رائل ہوٹل میں پہنچ گئے۔ ہم نے مٹن کڑھائی کا آرڈر دے دیا ۔ انہوں نے کہا کہ بھائی کڑھائی تیار ہونے میں کم سے کم ایک گھنٹہ لگ جائے گا ۔ تو ہم نے کہا کہ بھائی ٹھیک ہے کوئی بات نہیں ہم یہیں پر بیٹھے ہیں ۔ ہم وہاں پر بیٹھ کر باتیں کرتے رہے ، ہمارے ایک مہمان نے پوچھا کہ بھائی میانوالی میں کس چیز کا شکار کیا جا سکتا ہے ۔ کیا یہاں پر مرغابیاں اور ہرن کا شکار ہے ۔ تو میں نے بتایا کہ بھائی یہاں پر مرغابی کا شکار وافر مقدار میں کیا جاتا ہے لیکن ابھی مرغابی کا سیزن نہیں ہےاور جہاں تک بات ہرن کی ہے تو وہ صرف ملک آف کالا باغ کی پہاڑیوں میں موجود ہیں لیکن وہاں ان کی مرضی کے بغیر کسی کو بھی شکار کرنے کی اجازت نہیں ہے لہذا ہم ہرن کا شکار نہیں کر سکتے ۔ اتنے میں کڑھائی تیار ہو کر آگئی ۔ ہم نے کڑھائی کھانا شروع کی تو پڑھائی کا ذائقہ ہمیں کچھ پسند نہیں آیا ۔ کڑھائی میں عجیب سا ذائقہ آ رہا تھا یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کڑھائی کو گندے گھی میں پکا کر تیار کیا گیا ہے ۔ لیکن پھر بھی ہمیں بہت زیادہ بھوک تھی اس لئے ہم کھا گئے ۔ اس کے بعد ہم ہوٹل سے نمل یونیورسٹی کی جانب روانہ ہوئے ۔ راستے میں سہراب والا اور موسی خیل کے خوبصورت گاؤں ہماری توجہ کا مرکز بنے رہے ۔ ہمارے سب مہمانوں نے بھی اس سفر کو بہت زیادہ انجوائے کیا اور انہوں نے ہمیں کہا کہ بھائی آپ کے شہر میانوالی کو اللّه نے قدرتی حسن سے مالا مال کیا ہے ۔ موسیٰ خیل کراس کرنے کے بیس منٹ بعد ہم ڈھوک والی پہاڑیوں کو چیرتے ہوئے نمل یونیورسٹی میں داخل ہوگئے ۔ نمل یونیورسٹی میں سب کا داخلہ ممنوع ہے اس لیے ہم نے اپنے ایک دوست کو کال کی جو نمل یونیورسٹی کا طالب علم ہے ۔ وہ یونیورسٹی سے باہر آیا اور داخلی دروازے پر ہمیں خوش آمدید کہا ۔ اس نے یونیورسٹی کے سیکورٹی گارڈ سے کہا کہ چچا جان یہ ہمارے مہمان ہیں مہربانی فرما کر انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی جائے ۔ تو سیکیورٹی گارڈ نے ہمیں کہا کہ بیٹا آپ لوگ اپنے شناختی کارڈ میرے حوالے کردیں اس کے بعد آپ یونیورسٹی کے اندر داخل ہو سکتے ہیں ۔ہم سب نے اپنے اپنے شناختی کارڈ سیکیورٹی گارڈ کے حوالے کردیئے اور یونیورسٹی کے اندر داخل ہوگئے ۔ نمل یونیورسٹی جو کے دور سے ایک چھوٹی سی یونیورسٹی دکھائی دیتی ہے جب ہم اندر داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ جیسے یہ میلوں پر پھیلی ہوئی ہے ۔ ہمارا دوست سب سے پہلے ہمیں کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ میں لے گیا ۔ کیوں کہ اس کا اپنا ڈیپارٹمنٹ بھی کمپیوٹر سائنس ہے ۔ ہم نے دیکھا کہ وہاں جدید طرز کے کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپ نصب تھے اور مختلف طالبعلم مختلف قسم کی کوڈنگ کرنے میں مصروف تھے ۔ وہاں ہم کمپیوٹر ڈپارٹمنٹ کے کچھ ایسے اساتذہ سے بھی ملے جو کہ باہر کے ممالک سے آئے ہوئے تھے جن میں سے انگلینڈ آئرلینڈ اور سوئٹزرلینڈ کی اساتذہ شامل تھے ۔ ان سے مل کر ہمیں بہت اچھا لگا ۔ اس کے بعد ہم نے بیالوجیکل ڈپارٹمنٹ اور دوسرے مختلف ڈیپارٹمنٹ کا دورہ کیا ۔ اس کے بعد ہم یونیورسٹی سے اپنے دوست سے اجازت چاہی اور یونیورسٹی سے باہر نکل گئے ۔ اس کے بعد میں نے اپنے ایک اور دوست کو کال کی جس کا نام اسحاق ہے اسحاق نے ہمیں کہا تھا کہ بھائی آپ لوگوں نے شام کا کھانا میرے پاس کھانا ہے ۔ ہم اسحاق کے پاس پہنچ گئے اور وہاں شام کا کھانا کھایا ۔ اس کے بعد ہم گھر کی جانب واپس روانہ ہو گئے ۔ میں نے بہت سی تصاویر بھی بنائی ہیں جو آپ لوگوں سے شیئر کرتا ہوں ۔ شکریہ
¡Queremos leerte!
Entra y publica tus artículos con nosotros.
Vota por el witness @cosmicboy123